نرگسیت ایک نفسیاتی بیماری ہے جو عام طور پر بڑے بڑے لوگوں کو لاحق ہو جاتی ہے لیکن آج کل یہ بیماری چھوٹے لوگوں کو بھی لاحق ہونے لگی ہے کیونکہ چھوٹے لوگوں کی خواہشیں بہت بڑی ہو گئی ہیں۔ نرگسیت کا مریض خود پرستی اور خبط عظمت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنی ادائوں پر خود ہی فدا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو خود ہی داد دیتا ہے اور جو داد نہ دے اُسے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑایئے۔ آپ کو ایسے کئی کردار نظر آئیں گے جو اپنی بات ’’میں‘‘ سے شروع کرتے ہیں اور ’’میں‘‘ پر ختم کرتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں کا گریبان پھاڑنے کی تاک میں رہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت نہیں کرتے۔ نرگسیت کے مریض زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں لیکن سیاست و صحافت میں ان کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ان مریضوں کی نشاندہی کرنا اپنے لئے بہت سے خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ نرگسیت کے مریض بہت خود غرض ہوتے ہیں۔ یہ خود غرضی انہیں ظالم بنا دیتی ہے۔ وہ اپنی ذات اور انا کی تسکین کے لئے دوسروں کا حق مارنے اور اُن پر جھوٹے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ ناچیز نرگسیت کے بہت سے مریضوں سے بیک وقت ٹکر لینے کی جرأت نہیں رکھتا کیونکہ مجھے حق پرستی اور بہادری کے تمغے نہیں لینے۔ مجھے تو نرگسیت کے مریضوں سے ہمدردی ہے اور میں کسی ایسے ڈاکٹر کی تلاش میں ہوں جو اس خطرناک مرض کا علاج کر سکے۔ میں نے کچھ نفسیاتی ماہرین سے مشورہ بھی کیا اور کچھ اہم شخصیات کا نام لے کر پوچھا کہ کیا ان کا علاج ممکن ہے؟ ماہرین نے کہا کہ علاج تو ممکن ہے لیکن سب سے پہلے مریض کو یہ تسلیم کرنا ہے کہ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ مریض علاج پر راضی نہ ہو تو ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟ مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ نرگسیت کے کچھ مریض اس بیماری میں مبتلا دیگر مریضوں کے علاج کی ٹھان چکے ہیں حالانکہ طب اور نفسیات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ نرگسیت کے مریض کا علاج بڑے اطمینان اور سکون سے کیا جاتا ہے لیکن جب ایک مریض دوسرے مریض کے علاج پر اُتر آئے تو آپ کو گلا پھاڑ کر ایک دوسرے پر چلاتے لوگ دیکھ کر پہلے ہنسی آئے گی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ خوفزدہ ہو جائیں گے کیونکہ ایک دوسرے سے لڑتے ان مریضوں میں سے کوئی ایک آپ کا نجات دہندہ بن کر بھی سامنے آ سکتا ہے اور اگر وہ واقعی نجات دہندہ کے عہدے پر براجمان ہو گیا تو پھر ذرا سوچئے کہ اس ملک و قوم کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
نرگسیت کی بیماری ایسے معاشروں میں زیادہ پھیلتی ہے جہاں علم کی روشنی معدوم ہوتی ہے۔ کم علمی سے شخصیت پرستی جنم لیتی ہے اور شخصیت پرستوں کی اندھی محبت و عقیدت کے جراثیموں سے نرگسیت نشو و نما پاتی ہے۔ مجھے اس بیماری سے زیادہ آگاہی حاصل نہ تھی۔ پچھلے دنوں ایک بہت تجربہ کار ماہر نفسیات سے ملاقات ہوئی تو کچھ ہی دیر بعد پوچھنے لگے کہ آپ اتنے بے چین اور مضطرب کیوں رہتے ہیں؟ سوال سن کر میں نے بڑے معذرت خواہانہ انداز میں پوچھا کہ آپ کو میری بے چینی اور اضطراب کا اندازہ کیسے ہوا؟ ماہر نفسیات نے کہا کہ آپ بیٹھے بیٹھے ٹانگیں ہلاتے ہیں یہ بے چینی کی علامت ہے۔ یہ کہہ کر موصوف نے خاصی توجہ حاصل کر لی اور پھر کچھ معروف سیاستدانوں کی مخصوص عادات پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اس گفتگو کے بعد طے پایا کہ اس سلسلے میں مزید گفتگو ہو گی۔ موصوف نے اگلے ہی روز ’’فارن کوالیفائیڈ ماہرین نفسیات کے ساتھ لنچ میٹنگ کا اہتمام کیا اور اس میٹنگ میں مجھے پتا چلا کہ ہمارے اکثر ارباب اختیار، سیاستدان اور میڈیا کے بڑے بڑے نام نرگسیت کا شکار ہیں۔ نرگسیت کے مارے یہ لوگ نام نہاد اصول پرستی، حب الوطنی اور دینی غیرت کے نام پر نفرتیں پھیلاتے ہیں‘‘ یہ نفرتیں معاشرے کو تقسیم در تقسیم کر رہی ہیں اور کسی کو کوئی احساس نہیں ہو رہا کہ ہمارا معاشرہ اجتماعی خود کشی کے راستے پر گامزن ہے۔ ایک ماہر نفسیات نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے میڈیا کے ایک معروف نام کے علاج کی کوشش میں ہے۔ ان معروف صاحب کی اہلیہ نے ماہر نفسیات سے رابطہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کے شوہر کو علاج کی ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات نے ایک پرستار بن کر اپنے مریض سے کراچی میں ملاقات کی لیکن مریض علاج پر آمادہ ہی نہ تھا۔ بہرحال کوشش جاری ہے۔
ماہرین نفسیات سے مختلف شخصیات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے پوچھا کہ نرگسیت اور اندھی محبت و عقیدت جیسی نفسیاتی بیماریوں میں پورا معاشرہ مبتلا ہو جائے تو پھر کیا کریں؟ جواب میں تینوں ماہرین نفسیات کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کے اکثر سیاسی، سماجی اور نفسیاتی مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان مسائل یا بیماریوں کا سب سے موثر علاج قانون کی بالادستی ہے۔ عرض کیا کہ جرائم کے خاتمے کے لئے قانون کی بالادستی قابل فہم ہے نرگسیت سے چھٹکارے کا قانون کی بالادستی سے کیا تعلق؟ سب سے بزرگ ماہر نفسیات میرا سوال سن کر کچھ تلملائے۔ کہا آپ سے اس سوال کی ہرگز امید نہ تھی ہم آپ کو بہت صاحب علم اور سمجھدار گردانتے تھے۔ فرمانے لگے جن معاشروں میں طاقتور اور کمزور کے لئے قانون مختلف ہو وہاں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے طاقتور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے اور نرگسیت کا شکار ہو جاتا ہے کمزور شخصیت پرستی میں پناہ لیتا ہے۔ شخصیت پرستی میں ریاست اور قانون پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ پھر انہوں نے ایک مثال دی۔ کہنے لگے کہ نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا۔ احتساب ہوا اور سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا اب ان کے خلاف مقدمات احتساب عدالتوں کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔ وہ احتساب عدالتوں میں پیش نہ ہوئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے۔ وارنٹ جاری ہو گئے اور انہیں گرفتار کرنے کے مطالبے نے شدت پکڑی تو سوال اٹھایا جائے گا کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے بھی کئی مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے اگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تو نواز شریف کو کیوں گرفتار کیا جائے؟ یہ بھی کہا جائے گا کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بھی موجود ہیں انہیں کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا؟ قانون ایک مذاق بن جائے گا اور اگر نواز شریف کو زبردستی گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی اندھی محبت و عقیدت میں مبتلا لوگ ریاستی اداروں کے بارے میں طعنہ زنی کریں گے نفرتیں مزید بڑھیں گی، آپس میں لڑائی مار کٹائی ہو گی اور بیرونی دشمن فائدہ اٹھائے گا۔ ایک ماہر نفسیات کی زبان سے مستقبل کی یہ منظر کشی سن کر میں نے پوچھا کہ یہ تو بڑی منفی تصویر ہے۔ کوئی مثبت تصویر دکھایئے۔ وہ ہنسے اور پھر گلا صاف کر کے فضا میں گھورتے ہوئے بولے سب سے پہلے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے قانون کے سامنے پیش کیجئے۔ ایک دفعہ مشرف چھوٹا اور قانون بڑا ہو گیا تو پھر بھلے آپ نواز شریف کو لندن سے گھسیٹ کر لائیں اور عدالت میں پیش کر دیں کوئی گڑبڑ نہیں ہو گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کیا ایسا ممکن ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا نہ ہی کسی ڈاکٹر کا نام ذہن میں آیا۔