وقت آدھی رات کا تھا۔ میں جل بھن کر کباب ہورہا تھا۔ ورلڈ کپ فٹ بال میچ میں پاکستان برازیل جیسی معمولی ٹیم سے ہارگیا تھا۔ میں غصہ سے تلملا رہا تھا۔ تب مجھے پہلی مرتبہ مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے کھیلوں کے پروگراموں میں کمپیئرز کے غصہ سے تلملانا یاد آیا جب پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا جیسی کمزور، بیکار، خستہ حال اور تیسرے درجے کی ٹیم سے ہار گئی تھی۔ اب چونکہ مجھے کرکٹ سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اس لئے میں ٹیلی ویژن چینلز کے ماہر کمپیئرز کے غصہ کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔ آسٹریلیا جیسی کمزور ٹیم سے ہارنا شرمندگی کی بات ہے۔ پاکستان میں پانی کا بحران ہے ورنہ میں چُلّو بھر پانی والا محاورہ استعمال کرتا۔ دنیا کی ہر کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے شکست کھائی ہے۔ انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ کو چھوڑیں۔ آسٹریلیا تو ہانگ کانگ، کینیڈا اور سنگاپور کی ٹیموں سے بھی ہار چکا ہے۔ ایسی پٹی ہوئی ٹیم سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہار جانا باعثِ شرمندگی ہے۔
کچھ اسی طرح کی کیفیت میری بھی تھی جب پاکستان کی فٹ بال ٹیم دنیا میں سب سے کمزور برازیل کی فٹ بال ٹیم سے ہار گئی تھی۔ میں غصہ سے تلملااٹھا، میری مٹھیاں بھنچ گئیں، دانت پیستے ہوئے میں نے ٹیم ، ٹیم کے کپتان اور مینجمنٹ کو برابھلا کہا بلکہ براہی کہا۔ دنیا بھر میں ہرفٹ بال ٹیم سے پٹنے والی برازیل کی فٹ بال ٹیم سے ہماری زبردست اور ناقابل شکست فٹ بال ٹیم کا ہار جانا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ میں جل بھن کرکباب ہو رہا تھا ایسے میں ایک پڑوسی نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پوچھا ”تم کیا تکہ بوٹی پکارہے ہو؟“
”میں اس وقت خود تکہ بوٹی اور سیخ کباب ہو رہا ہوں“۔ میں نے جل کر کہا ”کھاؤ گے مجھے؟“
پڑوسی بھاگ کھڑا ہوا۔ میں کیوں نہ جلتا اور بھنتا اورکباب ہوتا! ہارنا تودورکی بات ہے ، ہم تو ہارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جیتنا ہمارا مقدر ہے۔ ہم جیتنے اور فتح یاب ہونے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اس لئے کہ ہم تمام اقوام میں اعلیٰ ہیں، افضل ہیں، معتبر ہیں۔ پھر ہم آسٹریلیا جیسے ملک کی کمزور ٹیم سے کیسے ہار کرسکتے ہیں؟ ایک معمولی آسٹریلوی ٹیم سے ہماری عظیم اور ناقابلِ شکست ٹیم کیسے ہار گئی؟ میں بہت غصے میں تھا۔ آپے سے باہر ہوا جا رہا تھا، الم غلم بکتا جارہا تھا۔ ٹیلیویژن سیٹ اٹھا کر دیوارسے دے ماروں،اپنا سر پھوڑ ڈالوں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیاکروں؟ میں غصے سے پاگل ہو رہا تھا کہ اچانک بجلی غائب ہو گئی۔ بجلی کے غائب ہوتے ہی میز پر رکھا ہوا کمپیوٹر آن ہو گیا۔یہ نشانی تھی شیطان کے مجھ سے رابطہ کرنے کی۔ جب سے انٹرنیٹ آیا ہے تب سے ہمارا شیطان سے اورشیطان کا ہم سے رابطہ آسان ہوگیا ہے۔ ہم جب چاہیں آپس میں چیٹنگ کرسکتے ہیں۔
میں کرسی پر جا بیٹھا۔ مائیکرو فون منہ کے قریب لاتے ہوئے میں نے کہا” کیسے ہو شیطان بھائی؟“
”میں اس دن سے ویسے کا ویسا ہی ہوں جس دن میں نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا اور رب کی نظروں میں گر گیا تھا۔“ شیطان نے کہا۔ ”مگر اس دوران تم آدمی بہت بدل گئے ہو، تیزطرار ہوگئے ہو، میرے باپ بن گئے ہو“۔
میں نے پوچھا” کیا بات ہے شیطان میرے یار؟“
شیطان نے کہا ” دنیا بھرکے جرائم تم لوگ کرتے ہو اورنام میرا بدنام کرتے ہو“ ”تم غصے میں لگتے ہو!“ میں نے کہا۔
”غصے میں تم آدمی آتے ہو میں نہیں۔“ شیطان نے کہا ”تم لوگوں کی طرح میں لگی لپٹی باتیں نہیں کرتا۔ میں شیطان ہوں، کھری کھری سناتاہوں۔“
”آخر ہوا کیا ہے، شیطان میرے یار؟“ میں نے پوچھا۔ شیطان نے کہا۔” تمہارے ایم این ایز اور ایم پی ایز اورسینیٹرز کو میں نے کہا ہے کہ انکم ٹیکس نہ دیں؟“
میں نے کہا ۔”نہیں۔“
شیطان نے کہا۔ تمہارے وزیروں، وزیروں کے مشیروں، مملکتی وزیروں، مملکتی وزیروں کے مشیروں کو اور مشیروں کے مشیروں کو کیا میں نے کہا ہے کہ ٹیکس چوری کریں؟
”نہیں تو۔“ میں نے کہا۔
شیطان نے پوچھا۔” کیا عدالت کو میں نے کہا تھا کہ جھوٹا سرٹیفکیٹ دکھا کر دو برس ایم این اے رہنے والے فراڈیے کو فرار کی راہ دکھائے اور اس سے استعفی دلواکر اسے چھوڑ دے؟“
”نہیں“ میں نے کہا۔”فراڈیے کو سزا مل جاتی تو اس کے اور اس جیسے کئی فراڈیوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے لیکن ایسا نہیں ہوا“۔شیطان نے پوچھا” کیا یہ سب کچھ میرے کہنے پر ہوا تھا؟“
”میں کب کہتا ہوں کہ یہ سب تمہارے ایما پر ہوا ہے ۔“ میں نے کہا۔”وہ جھوٹا شخص پچپن ہزار ووٹ لیکر پھر سے اسمبلی میں جا بیٹھا ہے“۔
شیطان نے پوچھا۔ ”پچپن ہزار لوگوں کوکیا میں نے ورغلایا تھا کہ فراڈ کرنے والے کو ووٹ دیں؟“ میں نے کہا۔” تم تو ایک عرصے سے پاکستان سے باہر رہتے ہو۔“
”تم لوگوں کی مت ماری گئی ہے۔“ شیطان نے گرجدار آواز میں کہا۔” جس ملک کے پبلک ٹائلٹ گندے اور بدبودار ہوں، اس ملک کے لوگ بھی گندے اوربدبودار ہوتے ہیں۔ جس ملک کی ٹریفک میں لاقانونیت ، ابتری اورافراتفری ہوتی ہے اس ملک کے لوگ قانون کی دھجیاں اڑانے والے، ابتر، اور افراتفری کا نمونہ ہوتے ہیں۔ مجھ پر انگلی اٹھانے سے پہلے تم لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو۔ اپنی ڈراؤنی شکلیں آئینے میں دیکھو۔“
”کس نے تم پر انگلی اٹھائی ہے شیطان میرے یار؟“ میں نے پوچھا۔
”تمہارے ہردلعزیز پریذیڈنٹ نے اورکس نے!“ شیطان نے کہا۔ ”پہلے انہوں نے مجھ پر بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگایا تھا۔اب فرماتے ہیں کہ پاکستان میں نے توڑا تھا۔ یاربالم تمہارے ہردلعزیز صدرہاتھ دھوکرمیرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟ کیا بگاڑا ہے میں نے ان کا؟“ کوئی ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ زورِخطابت میں ان کے منہ سے تمہارا نام نکل گیا ہوگا۔“ میں نے کہا۔” ورنہ وہ دل کے برے نہیں ہیں۔“ کیوں تم ان کے دل میں رہتے ہو؟“ شیطان نے کہا ۔” کوئی تو ان کا ہمدرد ہوگا جو ان کو بتلائے کہ وہ ہنس کی چال نہ چلیں۔وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرح خطاب نہیں کرسکتے“۔
میں نے کہا۔”لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو اوربینظیر کی طرح خطاب کرنے کی کوشش تو کرسکتے ہیں۔“
”اسی کوشش میں ان کے منہ مبارک سے الم غلم نکل جاتاہے اور پھر بینظیر کے قتل اور1971ء میں پاکستان توڑنے کا قصور وار مجھے ٹھہراتے ہیں۔“شیطان نے کہا۔” جس روز 1955ء میں مغربی پاکستانیوں نے ون یونٹ کے نام سے بنگالیوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اسی روز پاکستان ٹوٹنے کی ابتداء ہوگئی تھی۔“
لمبی سانس لیکر شیطان نے ترش لہجے میں پوچھا۔” مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کو کیا میں نے کہا تھا کہ ون یونٹ کے نام میں بنگالیوں کے خلاف متحدہ محاذ بنائیں؟ انہوں نے 1955ء میں جو بویا تھا وہ 1971ء میں کاٹا۔ اس تمام درگھٹنا میں تمہارے ہردلعزیز صدر کے علاوہ میں کسی اورکو کہیں دکھائی دیتا ہوں؟ فرماتے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان میں نے توڑا تھا!“
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، شیطان نے کہا۔ ”بھلا میری کیا عداوت تھی بینظیر سے کہ میں اسے قتل کیا۔ کیا اس کی جگہ مجھے پاکستان کا صدر یاوزیراعظم بنناتھا؟“
لمبی خاموشی کے دوران میں نے کچھ نہیں کہا۔ ”میں تم آدمیوں جیسا ٹھگ نہیں ہوں“ شیطان نے کہا۔” میرے پاس نہ املاک ہے اور نہ بیرون ملک میرے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ میرے پاس دس ملکوں کی شہریت بھی نہیں ہے۔ بینظیر کو قتل کرنے سے مجھے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔یہ بات تم میری طرف سے اپنے ہردلعزیز صدرکو بتا دینا۔“ اچانک شیطان خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بول پڑا۔”مجھے یقین ہے کہ تمہارے ہردلعزیز صدر صاحب بینظیر بھٹوکے قاتلوں کوجانتے ہیں، ان کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔“
میں نے کہا۔”جانتے ہوتے تو ان کا نام ضرور لیتے۔“ شیطان نے کہا۔”نہیں لے سکتے وہ ان کا نام“ ”کیوں نہیں لے سکتے ان کانام؟“ میں نے پوچھا۔
”ڈرتے ہیں وہ ان سے ۔“ شیطان نے کہا ۔” اگر صدرصاحب نے اس راز سے پردہ اٹھایا اور قاتلوں کے نام ظاہرکردیئے تو پھر طاقتور قاتل ان کو ایک پل کے لئے اقتدار میں رہنے نہیں دیں گے اوراس کے بعدوہ ان کو پولیس مقابلے میں مروا دیں گے۔ یہی دستور ہے تمہارے ملک کا بالم، جوپچھلی چھ دہائیوں سے چلا آرہا ہے“۔