شاید نہیں یقینی طور پر اب بھی کئی مہرے مسلسل ایک ہی بگل بجا رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میںپاکستان مسلم لیگ ن کی سیٹ بچ گئی لیکن عزت نہ بچ سکی یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے اکثر یت نے کبھی پولنگ اسٹیشن کا منہ تک نہ دیکھاہے یہ ثانوی مواد کو دیکھ کر ثانوی معلومات کو سن کر ایسے فیصلے صادر کررہے ہوتے ہیں اور چاہتے ہیںکہ اس کی حقانیت کو من و عن مان لیا جائے۔ان میں سے ایک نووارد کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ عوامی تائید ہار چکی ہے۔اس کا اپنا تو یہ حال ہے کہ وہ نوجوان اور نووارد بچے بچیوںکوریسرچ آفیسر کے طور پر بھرتی کر رہا ہے بڑی ٹیم کا جھانسہ دیتا ہے اور مارکیٹ سے بہت کم تنخواہ دیکر ان کا استحصال کررہا ہے۔وہ غلط اعداد و شمار کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مہرے کے بقول ن لیگ نے گزشتہ عام انتخابات سے 29921ووٹ کھو دئیے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ 2013کو بنیادی سال گردان رہے ہیں اور اس کے تناسب سے نئی شرح سامنے لارہے ہیں۔ان کو یہ سادہ سا حساب بھی سمجھ نہیں آتا کہ موازنہ کرنے اور شرح فیصد کے حصول کیلئے دونوں انتخابات میںڈالے گئے ووٹوںکا تناسب بھی ایک رکھنا پڑے گا۔ حساب کچھ یوں ہے۔2013کے عام انتخابات میں کل 151403ووٹ کاسٹ کئے گئے جبکہ 2017کے ضمنی انتخاب میں126860ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ اسطرح ضمنی انتخاب میں25543ووٹ کم کاسٹ ہوئے۔یہ تعداد 2013میں کاسٹ کئے گئے ووٹوں سے منہا کریں تو کاسٹ کئے ووٹوں کی تعداد 125860بنتی ہے۔2013میںن لیگ کو 91683 ووٹ ملے اور پی ٹی آئی کو 52324 ووٹ ملے۔دونوں کا تناسب 2:1 رہا۔یہ تناسب منہا شدہ کاسٹ کئے گئے ووٹوں 125860پر عائد کیا جائے تو نئی تعداد سامنے آتی ہے اس کے مطابق 2013 میں ن لیگ کو 74655 ووٹ جبکہ پی ٹی آئی کو 43810 ووٹ ملے۔اب آئیے 2017 کی طرف جس میں ن لیگ کو 61745 ووٹ ملے جبکہ پی ٹی آئی کو47099 ووٹ ملے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ کو 12910ووٹ کم ملے جبکہ پی ٹی آئی کے 3289 ووٹ کم نکلے۔
امر واقعہ تو یہ بھی ہے کہ سارا میڈیا اور ووٹرز اس سے آگاہ ہیںکہ اس ضمنی انتخاب میںکتنی قسم کی طاقتوں نے سارے عمل کو یکطرفہ بنانےکی کوشش کی۔42 امیدواروں کا انتخابی عمل میں حصہ لینے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ ن لیگ کے ووٹوںکو تقسیم کرنا تھا۔مذہبی حلقوں کو علیحدہ کردیا گیااور انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ ن لیگ کو ووٹ نہیں دیں۔
ان میں سے تین امیدواروں کے ووٹوں کامجموعہ 13444 نکلتا ہے یعنی یہ وہ ووٹرز تھے جنھوں نے ن لیگ کو ووٹ نہ دیکر ن مخالف قوتوں کا ساتھ دیا۔ان میں سے تو ایک نومولود جماعت کا مضحکہ خیز بیان ہے کہ ہم چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہیں شاید انھیں جماعت اسلامی کے سیاسی وزن اور اسکے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔تو میں انھیں یہ بتا دیتی ہوں کہ جماعت اسلامی کو 592 ووٹ ملے۔
2003 کے اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میںاس کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد45 لاکھ تک تھی جو اب یقیناً بڑھ چکی ہوگی۔ ایک وقت تھااسکے قد آور سیاستدان، پارلیمنٹیرین اور سینیٹرز سیاسی بساط پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن اسے کبھی بہت بڑی تعداد میںعوامی انتخابی ووٹ نہ ملےاور نہ ہی ارکان کی بڑی تعداد۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے ظالمو قاضی آرہا ہے کا نعرہ لگایااور پورے ملک سے 80 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کا نعرہ لگایا تو جماعت کی سیاسی طاقت کی قلعی کھل گئی۔صرف 2002 میںجب ایم ایم اے بنی تواسے 53 نشستیں ملیں جن کی اکثریت خیبر پختونخوامیں تھی۔ سیاسی سولو فلائٹ لینے کی وجہ سے جماعت اسلامی کا سیاسی وزن یہ ہے کہ اس کے پاس صرف 1سینیٹر4ارکان قومی اسمبلی،1 رکن پنجاب اسمبلی اور 7رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ہیں۔
قومی اسمبلی حلقہ 120کے انتخاب میں ایک افسوسناک صورتحال یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سیاسی حلقوںاور مذہبی حلقوں کے درمیان لکیر کھینچ دی گئی ہے جو آئندہ انتخابات میں خلیج کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہبی جماعتوں اور مذہبی حلقوں کو آئی جے آئی اور ایم ایم اے جیسےاتحادوں کو بھولنا نہیں چاہیے انھیں یہ جان لینا چاہیےکہ بچت سیاسی اتحاد میں ہے تقسیم میں نہیں انھیںکسی انتشار پسند طاقت کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے بلکہ معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے سیاسی دھارے میںآنا ہوگاتاکہ وہ سیاسی بساط پر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں ورنہ سولو فلائٹ انھیں مزید کارنر کردے گی۔
باقی رہی یہ بات کہ حمزہ شہباز اس انتخابی مہم کا حصہ کیوں نہیں بنے۔عرض ہے کہ پہلے عمران خان اور ان کے مہرے ٹی وی پر بیٹھ کریہ کہتے رہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز سرکاری وسائل استعمال کر رہے ہیں جب وہ دونوں انتخابی مہم سے بالکل ہی علیحدہ ہو گئے تو تمام مخالفین نے خاندانی اختلافات کی آگ بھڑکا دی۔وقت ثابت کردے گا کہ اس ضمنی انتخاب نے مریم نواز شریف کو سیاسی رموز سے کافی حد تک آگاہی دے دی ہے۔ان کے سیاسی مستقبل کو مخدوش قرار دینے والوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔مریم نواز شریف نہ صرف قومی سیاست میں موثر اور کلیدی کردار ادا کریں گی بلکہ وہ ایک بڑی لیڈر بھی ثابت ہوں گی۔انشاءاللہ