• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سیدھا راستہ ...حرف بہ حرف…علی مسعود سید

دو نقطوں کے درمیان خط ِمستقیم صرف ایک ہی ہو سکتا ہے جو نزدیک ترین راستے کو تشکیل دیتا ہے اور یہی صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے ، اسی راستے پرچلنے والے ہی کامیاب ہوں گے ۔دوسر کوئی راستہ ہی نہیں۔ایک سیدھا راستہ یعنی اللہ کا بتا یا ہوا راستہ ۔۔جس کا راہی ہمیشہ اللہ کی رحمت کے لیے پُر امید رہتا ہے،فرمایا: ”جنہوں نے اللہ کے دامن رحمت کو تھامے رکھا،انہی نے صراط ِمستقیم کی ہدایت پائی“(سورہ آل عمران۔آیت نمبر ۱۰۱)
ہدایت ،منزل ،نجات ،بہتری ،سبھی کچھ اسی راستے سے ملنا ہے تو پھر کیوں ہم سرابوں میں بھٹکتے ہیں،خدا کے بندے! جب مکمل راہنمائی موجود ہے تو پھر یہ لاعلمی ،بے یقینی کیسی ؟خرابی سے نکلنا تو کامیابی ہے مگر خرابی سے توقع رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟میں فلسفے کی بھرمار کر کے دماغوں کو بوجھل نہیں کر نا چاہتا۔میرے پاس تو ایک سیدھی سی بات ہے اور سیدھی بات یہ ہے کہ سیدھے راستے پر نہ چلنا ،ناکامی و زوال کا سبب ہے ۔مغرب اور امریکہ کس کو ناکام ریاست کہتا ہے اس کا مجھے کو ئی خوف نہیں میں تو بس یہی ایک سیدھی سی بات جانتا ہوں کہ کوئی فرد ہو ،گروہ ہو یا ریاست ہواگر وہ سیدھے راستے پر گامزن نہیں تو پھر وہ ناکام ہے ،ناکام ہے ،ناکام ہے ۔
ایک سیدھا راستہ یہی کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھمانا اور تفرقے نہ پڑنا ،اسی میں امت مسلمہ کی نجات ہے ،وزیر خارجہ چاہے یورپ اور امریکہ کے کتنے ہی چکر لگائے ،اگر عالم اسلام کی قوت کو ایک جگہ لانے کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں ہوتی ،تو ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے ۔دفاع،وزرت داخلہ ،وزارت خزانہ سب کے سب ناکام ہیں۔کلام پاک سے روگردانی کر کے بھلا کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے،حکم ہے کہ سود حرام ہے اور پورا ملک سود کی لعنت میں دھنسا ہو ا ہے،کامیابی بھلا کیے ممکن ہے ؟آئی ایم، ایف زدہ سوچ بھلا آگے کیسے بڑھ سکتی ہے؟ ۔کیوں بھٹک رہے ہو جب کو ئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں جو کامیابی کی طرف جاتا ہو۔ جو راہنمائی کی گئی وہی درست ہے ۔جو کچھ فرمایاگیا صرف اسی میں بھلا ہے ۔ایک مثال اہل یورپ زیادہ تر خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ ایسا گھٹیا جانور ہے کہ علم جدید کی روشنی میں یہ ثابت چکا ہے کہ اس کا کھانا جنسی امور میں بے حیائی اورلاابالی کا باعث ہے اور یہی اس کی نفسیاتی تاثیر ہے جو مشاہدے میں آ چکی ہے۔شریعت موسوی میں بھی سور کا گوشت حرام تھا ۔الہامی کتابوں میں گنہگاروں کو سور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ داستانوں میں سور کو مظہر شیطان کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی ٓانکھوں سے دیکھتا ہے سور غلیظ چیزیں کھاتاہے اور کبھی کبھی تو وہ اپنا ہی پاخانہ کھا جاتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی سب پر واضح ہو چکا ہے کہ اس پلید جانور میں دوقسم کے خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو تریشین (trchin) اور دوسرے کو کرم کدو کہتے ہیں اس کے باوجود وہ اس کا گوشت کھانے پرمصر ہیں۔صرف ایک تریشین (trchin) ہر ماہ ہزار انڈے دیتا ہے اور انسان میں طرح طرح کی بیماریاں پیداکرنے کا سبب بنتا ہے۔مثلا خون کی کمی ،سر درد ، ایک مخصوص بخار، اسہال، دردرماتیسمی، اعصاب کا تناو، جسم میں خارش، بدن میں چربی کی کثرت، تھکن کا احساس، غذا چبانے اور نگلنے میں دشواری، سانس کا رکنا وغیرہ۔ایک کلو گوشت میں چالیس کروڑ تک نوزائیدہ تریشین (trchin) ہو سکتے ہیں۔
انہی وجوہ کے پیش نظر بہت سال پہلے حکومت روس نے بھی اپنے ایک علاقے میں سور کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔جی ہاں ۔۔۔روشن بینی کے یہ احکام کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جن کے تازہ جلوے نمایاں ہوتے ہیں ہمیشہ رہنے والے دین اسلام کا ہی حصہ ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ ٓاج کے جدید وسائل کے ذریعے ان تمام جراثیم کو مارا جا سکتا ہے اور سور کا گوشت ان سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن صحت کے جدید وسائل کے ذریعے یا سور کے گوشت کو زیادہ حرارت دے کہ پکانے کے ذریعے یہ کیڑے ختم بھی کر دیئے جائیں تو بھی سور کے گوشت کا نقصان دہ اور مضر ہونا قابل انکار نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ تو مسلم ہے کہ ہر جانور کا گوشت اس کی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ اور غدودوں (hormones) اور ہارمونز (glands) کے ذریعے کھانے والے اشخاص کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا ممکن ہے کہ سور کھانے والے پر سور کی بے لگام جنسی صفات اور بے حیائی جو اس کی واضح خصوصیات میں سے ہیں اثر انداز ہو جائے ۔ مغربی ممالک میں جن میں شدید جنسی بے راہروی پائی جاتی ہے اس کا ایک اہم سبب اس گندے جانور کے گوشت کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔“شراب ،زناحرام ہیں تو اس میں بھی انسان کی بھلائی اور بہتری ہے۔جھوٹ ،چوری ،ڈاکہ ،دھوکہ سب گناہ و جرم قرار دیے گے ہیں تو اس حکم میں ہی معاشرے کی فلاح ہے ۔ایک سیدھے راستے میں انسانی زندگی کے تمام امور کے لیے مکمل راہنمائی ہے۔اچھے برے میں فرق،دوست اور دشمن کی تمیزسب بتا دیاگیا ہے۔
انسانیت کا کھلا دشمن ،اللہ کا دشمن ہے ،ایک سیدھی سی بات ہے کہ اس دور میں اللہ کے سب سے بڑے دشمن کا اتحادی ہو نا قابل ِفخر نہیں بلکہ انتہائی شرمناک بات ہے ، اللہ کے دشمن سے مانگنا کمینگی ہے ،ذلالت ہے ،انسانیت کی توہین ہے۔ایک پست ذہنیت کے مالک شخص سے اپنی توقعات کو وابستہ کرنا کتنی بڑی پستی ہے ۔آپ دیکھ لیں کہ کس طرح تمام اسلامی ممالک کو الگ الگ تباہ وبرباد کیا جارہا ہے ،کس طرح شیطانی حربوں کے ذریعے اسلامی ریاستوں پر ناپاک تسلط جما یا گیا ہے ۔کہیں بادشاہت ،کہیں فوجی آلہ کار اور کہیں جمہوری ایجنٹ …یہ زوال ۔یہ زبوں حالی ۔۔۔یہ غلامی ۔۔۔یہ محتاجی ۔۔۔یہ کاسہ لیسی ۔۔۔یہ ذلت ۔۔۔اسباب کیا ہیں؟وجوہات کیا ہیں؟کیا ہم اپنے راستے سے بھٹک نہیں گئے ؟اگر بھٹک گئے ہیں پھر راستے پر آنا ہوگا ۔۔۔اللہ کے بندو! سرابوں میں مت بھٹکو۔۔۔ ازل سے ابد تک رحمان کے بندے الگ ہیں اور شیطان کے پیروکار الگ ہیں ،ان کے بیچ کوئی راستہ نہیں ،کوئی اتحاد نہیں ،کو ئی اشتراک نہیں ،راستہ صرف ایک ہی ۔۔۔ایک سید ھا راستہ جوکہ اللہ کا کلام ہے ، وہ قرآن ِ پاک ہے۔قرآن وہ جو مکمل ضابطہ ٴ حیات ،دستوراور قانون ہے اورہرآنے والے دور سے نہ صرف آگاہ و ہم آہنگ ہے بلکہ یہ کہنہ اور بوسیدہ نظاموں کے لیے انقلاب کی بنیاد بھی ہے ،یہ ایک سیدھا راستہ جوہر دور میں انسانوں کو تبدیل کرتا رہے گا مگرخود کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔
تازہ ترین