میں نے گزشتہ روز ہی کہا تھا کہ بھلے اونٹ کی کوئی کل سیدھی ہو نہ ہو، وہ بہر طور کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ ہی جاتا ہے۔ اچھا ہوا کہ یہ اونٹ ایک اچھی کروٹ بیٹھ گیا۔ غلطی بلاشبہ بانجھ نہیں رہتی لیکن اس امر کا احساس ہو جائے کہ غلطی سرزد ہوگئی ہے اور اس کے ازالے کی مخلصانہ خواہش بھی بیدار ہوجائے تو اصلاح احوال میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ معاملہ وہاں بگڑتا ہے جہاں کسی فریق کی انا پھن پھیلا کر کھڑی ہو جائے اور وہ اپنی غلطی پر ڈٹ جائے۔ ایسی صورت میں غلطی، مزید غلطیوں کو جنم دیتے چلی جاتی ہے اور ازالہ اس وقت ہوتا ہے جب غلطیوں کا ایک گھنا جنگل چار سو پھیل چکا ہوتا ہے اور سب کچھ سفر رائگاں کی نذر ہوچکا ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے یہ غلطی ججوں کی بحالی کے سلسلے میں کی تھی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو مشرف کی خونخوار آمریت کے دنوں میں ججز کالونی پہنچ کر یہ اعلان کرگئی تھیں کہ میرا چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری ہے اور جمہوریت بحال ہوتے ہی ہم ان کے گھر پر پاکستان کا پرچم لہرائیں گے تو پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی محترمہ کی اس وصیت کو عملی جامعہ پہنا دینا چاہئے تھا۔ اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو 9/مارچ 2008 کے اعلان بھوربن کے بعد پوری ہوگئی تھی تحریری عہد نامے کے مطابق ایک ماہ کے اندر اندر ججوں کو بحال کردینا چاہئے تھا۔ یہاں پی پی کی قیادت سے ایک بھیانک غلطی سرزد ہوئی۔ ایک نیا اصول وضع ہوا کہ ”وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔“ اور پھر اس غلطی کی کوکھ سے پے در پے غلطیاں جنم لینے لگیں۔ ان کا سلسلہ ایک سال جاری رہا۔ بالآخر 16/مارچ 2009 کی شب لانگ مارچ کے نتیجے میں جج بحال کردیئے گئے۔ پی پی پی اس کا رتی بھر کریڈٹ نہ لے سکی۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ غلطیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بحال شدہ عدلیہ کو گروہ دشمناں سمجھ کر اس کے فیصلوں کو روندا جا رہا ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کی طرف سے عدلیہ کو کرائی گئی یہ یاد دہانی کہ تمہارا تو تقرر نامہ ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی ہے پی پی پی کی ایک کثیر الاولاد غلطی مسلسل بچے جن رہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اسی دشت بے اماں کا رزق ہوجائے۔
میڈیا کے بارے میں تین دن پہلے آنے والی قرار داد قطعی غیر ضروری تھی۔ اب تحریری شواہد سامنے آگئے ہیں کہ اٹھارہ ارکان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اس قرار داد کا پلان تیار کیا۔ سات ارکان کا تعلق مسلم لیگ (ن)، چار کا پیپلز پارٹی، چار کا فاورڈ بلاک، دو کا مسلم لیگ (ق) اور ایک کا ایم ایم اے سے تھا۔ گویا تمام جماعتوں کے طفلان خود معاملہ اس کھیل کا حصہ تھے۔ انہوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا کہ ایک نا مطلوب قرار داد، تھوپ دی گئی اور مسلم لیگ (ن) کے حکمت کار اس کا راستہ نہ روک سکے۔ مسلم لیگ تو چاند ماری کا ٹیلہ بنا دی گئی۔ ق، لیگ کے زعما آزادی صحافت کے چیمپئن بن کر سر میدان نکل آئے۔ انہوں نے عوامی فہم و احساس کی توہین کرتے ہوئے پرلے درجے کی منافقت کی۔ مقصد صرف پوائنٹ سکورنگ تھا۔ دوسری قرار داد کی منظوری کے دوران بھی ق کے ایک آدھ رکن نے اچھل پھاند کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی پہلی قرار داد کی منظوری کا سرگرم جز ہوتے ہوئے بھی رد عمل سامنے آتے ہی بھیگی بلی بن گئی اور چپ سادھ لی۔ شرق و غرب کے سارے مورچوں اور اونچی نیچی تمام مچانوں سے مسلم لیگ (ن) پر تیر برسنے لگے۔ یہ عین فطری تھا کیونکہ پنجاب اسمبلی، مسلم لیگ ن کے نام سے منسوب تھی جسے بہرحال کم اندیشی کی قیمت ادا کرنا تھی۔
میاں نواز شریف نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہل کی اور پنجاب اسمبلی کی قرار داد کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تازہ قرار داد اسی لئے ممکن ہوئی کہ ایک غلطی کا احساس بھی کرلیا گیا اور اعتراف بھی۔ انا سے دستکش ہو کر جھک جانے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے۔ پنجاب اسمبلی نے اس حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اس حوصلے کی قیادت کی۔ ایک اٹھتا ہوا طوفان تھم گیا۔ لیکن بہت سے سبق چھوڑ گیا۔ ثناء اللہ (مستی) سے ثناء اللہ (رانا) تک کے سفر میں کئی درس ہیں۔
میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) نے مفاہمت و مصالحت کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے معذرت خواہانہ کردار اپنا کر مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے صحافیوں کے رد عمل کے سامنے سرجھکا کر اپنے احترام میں اضافہ کیا ہے اور میڈیا نے جنگ کا یہ معرکہ جیت کر اپنے آپ کو ایک کڑے امتحان سے دو چار کردیا ہے۔ طاقت کا حسن اس نکتے میں ہے کہ اسے رو بہ استعمال لانے کے بجائے اس کا رعب اور اس کی دہشت برقرار رکھی جائے۔ طاقت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منہ زور اور بے مہار نہ ہونے دے اور ہمیشہ مہذب حدوں میں رہے۔ ایک گھر کے بزرگ کے گھورنے سے سناٹا چھا جاتا ہے۔ دوسرے گھر میں گالی گلوچ سے بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کیا ہوتا ہے۔
میڈیا کو یہ نکتہ سمجھنا ہوگا۔ اسمبلی پر الزام یہ لگا کہ اس کے ارکان تھڑ دلے ہیں۔ تنقید سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ میڈیا کو عین اسی کسوٹی پر اپنے ردعمل کو بھی پرکھنا ہوگا۔ کیا اس نے فراخ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فریق کی تنقید (اگر وہ بے جا اور بلا جواز تھی تو بھی) تحمل اور برداشت کے جذبے سے سنی جسے وہ صبح و شام سیخ میں پرو کر دہکتے انگاروں پر بھونتا رہتا ہے؟ یقین جانئے پاکستانی میڈیا کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ کوئی اسمبلی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ کوئی حکومت اس کے پر نہیں کاٹ سکتی۔ کوئی ادارہ اس کو زنجیریں نہیں ڈال سکتا۔ کوئی طاقت اس کا گلا نہیں گھونٹ سکتی۔ ہاں، ایک سوراخ بہرحال ایسا ہے جہاں سے وہ ڈسا جاسکتا ہے اور وہ ہے خود میڈیا۔ مسلم لیگ (ن) اور صوبائی اسمبلی نے پسپا ہو کر اپنا بھرم رکھ لیا۔ میڈیا کو اب اپنی فتح مندی کے تقاضوں سے عہدہ برا ٓہونا ہوگا۔ اپنی حدود کا، اپنے لہجوں کا، اپنے تیوروں کا اور اپنے اطوار کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمارے ہاں پہلے ہی کئی مقدس گائیں موجود ہیں۔ عوام شاید اس ریوڑ میں کسی نئی گائے کا اضافہ پسند نہ کریں۔ بلا شبہ معاشرے کی ناہمواریوں، حکمرانوں کی خامیوں اور سیاستدانوں کی نااہلیوں کو نمایاں کرنا ہمارا بنیادی وظیفہ ہے۔ لیکن اس وظیفے کا اہل اور حقدار بننے کے لئے ہمیں اپنی ساکھ کا تحفظ کرنا ہوگا ورنہ چھاج اور چھلنی والا محاورہ عام ہوجائے گا اور لوگ ہمیں بھی کسی بڑے کھیل کا حصہ سمجھنے لگیں گے۔
ڈگری کے ساتھ اثاثوں کی تفصیل بھی پیش کی جائے
نوشتہ دیوار…نفیس صدیقی
جو کچھ ہوا وہ غیر معمولی بات ہے۔ کسی نے درست طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کسی اسمبلی نے میڈیا کے خلاف کوئی قرارداد پاس کی ہے۔ آپ کسی ایک واقعے کی مذمت کر سکتے ہیں مگر میڈیا کی من حیث المجموعی ایک ادارے کے طور پر مذمت کرنا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہ تو گویا آزادی اظہار کو چیلنج کرنا ہے اور وہ بھی کسی جمہوری ادارے کی طرف سے بھی ایسا کبھی دیکھا نہ سنا۔ اب اس واقعے کی سب مذمت کر رہے ہیں۔ توبہ توبہ ہم تو ازل سے آزادی اظہار کے قائل ہیں، بھلا ہم یا ہماری پارٹی ایسا کرسکتے تھے؟ پھر یہ کس نے کیا؟ کون تھا جو اسمبلیوں میں تقریر کر رہا تھا اور ووٹ دے رہا تھا۔ بیک زبان اس قرارداد کی حمایت کی گئی۔ رول آف بزنس معطل کئے گئے اور بڑے خضوع و خشوع سے اس کے پاس ہونے کا اعلان کیا گیا۔
اب اس کے خلاف قرارداد لانے کی تیاریاں ہیں۔ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے یہ قرارداد بھی آچکی ہوگی۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سب پارٹیوں نے اس کی مذمت کی۔ مسلم لیگ (ن) کے ثنا اللہ مستی خلیل نے قرارداد پیش کی اور تین جے والی شہرہ آفاق تقریر کی اور آخری لمحوں میں تو ان کے قائد شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے مگر میاں صاحب اب اس کی تردید کر رہے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی کی پالیسی نہیں۔ میاں نواز شریف نے مستی خان کو پارٹی سے نکالنے کا مشورہ دیا۔ ق لیگ تو گویایہ کہہ رہی ہے کہ وہ تو اس میں شامل ہی نہ تھے۔ پرویز الہی سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم سے لے کر بابر اعوان، قمرالزماں کائرہ، فوزیہ وہاب سبھی ثابت کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی تو معصوم ہے۔ ایسے ہوتا نہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ اسمبلی کے اندر پارٹیاں ہر قسم کے ڈسپلن سے آزاد ہوگئی ہیں اور کسی خودکار نظام کے تحت عمل کر رہی ہیں۔ ذرا غور کیجئے اگر ایسا ہے تو یہ ایک بڑی ہی تشویشناک صورتحال ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کی پارٹیاں اسمبلی کے اندر ایک مسئلے پرووٹ دیں اور آپ فرمائیں یہ سب غلط ہے۔ اگر مندرجہ بالا صورتحال ہے تو یہ سیاسی نظام کی مکمل تباہی کی علامت ہے۔
انارکی کو ظاہر کرتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب کھلی منافقت ہے۔ سیاسی جماعتوں نے کھیل کھیلا ہے۔ مگر خیال رہے یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ اور اسے محتاط لفظوں میں منافقت کہا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے جسے یہ سیاسی جماعتیں سیاست کہتی ہیں اور فرماتی ہیں یہ ان کا حق ہے۔ ایسا ہے تو نہ صرف یہ سیاست کی بہت غلط اور گھٹیا تعبیر ہے بلکہ یہی تو وہ ”سیاست“ ہے جس نے ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ہمیں اب اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس سے بھی شرم ناک بات یہ ہے کہ وجہ اشتعال جعلی ڈگریاں ہیں۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے بہت جامع بات کی ہے کہ جعل ساز قانون ساز نہیں ہوسکتے۔ پھر یہ واقعہ محض میڈیا کا کیا دھرا نہیں۔ ویسے تو یہ ان کا استحقاق ہے کہ اگر وہ تحقیق اور تفتیش سے ایسی کسی بے ضابطگی کا سراغ لگائیں تو اسے رپورٹ کریں مگر یہ تو عدالتوں، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ کی کمیٹی اور یونیورسٹیوں کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات ہیں جنہیں میڈیا چھاپ رہا ہے یا نشر کر رہا ہے۔ پھر اعتراض کس بات کا۔ کئی دنوں سے خبریں آرہی تھیں کہ ساری پارٹیوں کے ”جعلساز“ اکٹھے ہو کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے مشورے کرتے ہیں۔ ایسے بیانات بھی آرہے تھے کہ اس وقت کسی کو یاد نہ آیا جب مشرف کے دور میں یہ لوگ منتخب ہوگئے تھے۔ اب گویا یہ جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ اور اب ہر سطح پر اس جعلسازی کی حمایت کی کوششیں ہورہی تھیں۔ ایک ہفتے کے بیانات دیکھ لئے جائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ یہ قرارداد مل کر تیار کی گئی تھی۔ 17 رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی۔ جب اس کا مسودہ تیار ہوا، سب پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے اور پیام رسانی کیلئے بیورو کریسی کو استعمال کیا گیا۔
ہم سمجھے تھے کہ ڈپٹی کمشنر کاعہدہ ختم کر دیا گیا ہے پتہ چلا ڈی سی نہ سہی ڈی سی او تو موجود ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد میڈیا پر مزید سختیوں اور پابندیوں کا پروگرام تھا۔ اشتہارات کی بندش، پمرا کے قوانین وغیرہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ اب وزیراعظم نے فرمایا ہے عدلیہ، میڈیا اور پارلیمان ذرا ایکٹوازم کا شکار ہیں۔ مٹی ڈالو اور آگے چلو، سب اعتدال کی راہ پر آجائیں گے۔ یہاں میں اس سے ہٹ کر ایک دوسری بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ڈگریوں کی چھان بین تو ایک معاملہ ہے۔ میرے خیال میں پارلیمنٹ کے ارکان اپنے جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں، ان کی بھی چھان بین ہونا چاہیئے۔ جو جس نے لکھا، مان لیا گیا۔ کسی نے ٹیکس ادا ہی نہیں کیا یا معمولی ادا کیا۔ ہم نے جرح ہی نہیں کی۔ کسی نے جو ویلیو ظاہر کی، ہم نے تسلیم کرلی۔ کوئی طریقہ ایسا ہونا چاہئے کہ ان کی بھی چھان پھٹک کی جائے۔ کتنے لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کی کتنی چھپی ہوئی دولت ہے۔
انہوں نے یہ دولت جائز ذرائع سے بنائی ہے یا نہیں۔ ہم نے غور کیا، اس پر تو کبھی کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ ہم کہتے تو ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے، پر ہم نے عمل تو نہیں کیا۔ صرف سوئس بینک ہی نہیں، جانے کہاں کہاں کس کس کا سرمایہ پڑا ہے۔ کس کس کی کتنی جائیدادیں ہیں۔ ملک سے باہر ہی نہیں، ملک کے اندر بھی۔ ہم نے تو ملک کے اندر جائیدادوں کا حساب نہیں مانگا۔ ہم اپنے جمہوری نظام کو دھوکا بازوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو جعلی ڈگریوں کے بعد اراکین کے اثاثے اور ویلتھ اسٹیٹ منٹ اور ٹیکس کی ادائیگی کے معاملات کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ لگے ہاتھوں یہ کام بھی ہوجائے۔ اس کے لئے ضروری ہے الیکشن کمیشن پارلیمان کے تمام اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اور سینٹ کے اراکین کے پچھلے 3 سالوں کے اثاثہ جات اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ٹیکس کی ادائیگی اور مختلف بینکوں کے قرضوں کو عوام کی اسکروٹنی کے لئے website پر ڈالا جائے اور عوام کو اس کی اسکروٹنی اور اس پر رائے کا حق دیا جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو کچھ پارلیمان کے اراکین کا یہ جھوٹ اور فراڈ بھی عوام کے سامنے آجائے اور شائد اس ملک کو مزید ٹیکس یا ریونیو مل جائے۔
اتنا تو ظلم نہ کر
قلم کمان …حامد میر
شیخ سعدی شیرازی سے روایت ہے کہ ایک ظالم بادشاہ غریبوں سے ان کے گدھے چھین لیتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ ظالم بادشاہ کہیں شکار کو گیا تو اس کی آمد کی خبر سن کر ایک کسان نے اپنے گدھے کی ٹانگوں پر لاٹھیاں برسانی شروع کردیں۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کو سخت غصہ آیا اور اس نے کسان سے پوچھا کہ وہ گدھے پر اتنا ظلم کیوں کررہا ہے؟ کسان نے جواب میں کہاکہ ہمارا بادشاہ غریبوں سے ان کے گدھے چھین لیتا ہے میں اپنے گدھے کی ٹانگ توڑ رہا ہوں تاکہ یہ بادشاہ کے کام کا نہ رہے اور میرے پاس ہی رہے۔ باد شاہ سخت ناراض ہوا۔ فوری طور پر کسان کی گرفتاری کا حکم دیا اور کہا کہ اس کا سر قلم کردیا جائے۔ اتنی سخت سزا سن کر غریب کسان نے بادشاہ سے کہا کہ تیرے ظلم سے صرف میں پریشان نہیں بلکہ پورا ملک رو رہا ہے اگر رونے اور شکوے شکایت کی سزا موت ہے تو پھر پوری رعایا کو ذبح کر ڈال تاکہ تیرے کانوں میں کسی کی آہ و بکا نہ پہنچے لیکن بہتر یہ ہے کہ ظلم چھوڑ دے کیونکہ تیرے مظالم کے باعث لوگوں کو راتوں میں نیند نہیں آتی، نجانے تجھے نیند کیسے آتی ہے، تو ہمیں دکھ بھی دیتا ہے اور ہم سے مدح و ثناء کی امید بھی رکھتا ہے، تو دنیا کا سب سے بڑا نادان ہے۔ کسان کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر بادشاہ گہری سوچ میں ڈوب گیا اس نے کسان کو آزاد کردیا اور آئندہ ظلم سے توبہ کرلی۔ شیخ سعدی اس روایت کے آخر میں فرماتے ہیں کہ تمہارے حقیقی خیر خواہ خوشامد کرنے والے نہیں بلکہ ملامت گیر ہیں جو تمہیں تمہارے عیب بتاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو آج کے دور میں صحافیوں کا کردار اس کسان سے مختلف نہیں جو ظالم بادشاہ کے سامنے اسے اس کے عیب گنواتا ہے لیکن افسوس کہ آج کل کے بادشاہ شیخ سعدی کی روایتوں سے مختلف ہیں۔ ان پر کلمہٴ حق کا اثر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ ظلم سے توبہ کرنے کی بجائے فوری طور پر ظلم کی تردید جاری کردیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے کوئی نیا ظلم بھی شروع کردیتے ہیں۔
9/جولائی کو پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف منظور کی جانے والی قرار داد بھی ایک ایسا ہی ظلم تھا جس کا اصل مقصد حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کا منہ بند کرنا تھا لیکن قرارداد منظور کرنے والے بھول گئے کہ صحافیوں کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ نہ تو جنرل ضیاء الحق کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ جنرل پرویز مشرف کے قابو میں آتے ہیں۔ جب کوئی ظالم حکمران صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب مل کر اسے کوسنے لگتے ہیں اور آخر کار یا تو حکمران کو توبہ کرنی پڑتی ہے یا پھر اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی مثال ابھی زیادہ پرانی نہیں ہوئی۔ موصوف نے خفیہ اداروں کے ذریعے صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا، اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صحافیوں کو خریدنے کی کوشش کی لیکن میڈیا کی آواز بند کرنے میں ناکام رہا اور آج بھی نجی محفلوں میں اپنے زوال کا اصل ذمہ داری میڈیا کو قرار دیتا ہے۔
موجودہ حکمرانوں نے مشرف کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ عرصہ قبل جب پیپلز پارٹی کے ایم این اے جمشید دستی کو جعلی ڈگری کی وجہ سے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینا پڑا تو پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر دستی صاحب کو پارٹی ٹکٹ دے دیا۔ اس فیصلے پر نہ صرف میڈیا میں تنقید ہوئی بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی اختلاف رائے سامنے آیا۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات صمصام بخاری نے علی الاعلان کہا کہ جعلی ڈگری والوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ اس تنقید کا رخ موڑنے کیلئے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر انگلیاں اٹھانی شروع کیں اور کہا کہ میڈیا کو دوسری جماعتوں کے جعلی ڈگری ہولڈرز کیوں نظر نہیں آتے؟ میڈیا کو بھی اپنی غیر جانبداری ثابت کرنی تھی اور ایسے میں میڈیا کو عابد شیر علی کی صورت میں گھر کا ایک بھیدی مل گیا جو اپنوں کی لنکا ڈھانے کے مشن پر تھا۔ عابد شیر علی کی اصل ناراضی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے تھی اور موصوف کا ٹارگٹ اپنی ہی پارٹی کے کچھ ایسے اراکین پارلیمینٹ تھے جو ان کے خیال میں شہباز شریف کے قریب تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میڈیا میں جعلی ڈگریوں کے حوالے سے جو مہم چلی اس کے روح رواں عابد شیر علی تھے لیکن مسلم لیگ (ن)اپنے اس شیر دل ایم این اے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ سینیٹر پرویز رشید نے متعدد بار عابد شیر علی کو قیادت کا پیغام دیا کہ آپ کچھ دنوں کیلئے میڈیا سے پرہیز کریں لیکن عابد شیر علی کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ پھر انہوں نے ایک وفاقی وزیر پر دھمکیوں کا الزام لگادیا۔ گواہی کیلئے انہوں نے اپنی پارٹی کے کچھ ایم این اے حضرات کے نام دے دیئے لیکن ان کے ساتھیوں نے عابد شیر علی کے الزام کی تردید کر دی۔ یہ وہ موقع تھا جب مسلم لیگ (ن) کو اس معاملے کی باقاعدہ انکوائری کرنی چاہئے تھی لیکن افسوس کہ سارے کا سارا ملبہ میڈیا پر گرانے کا فیصلہ ہوا۔
دو ہفتے قبل سردار ذوالفقار کھوسہ نے رانا ثناء اللہ کے مشورے سے ایک ٹی وی چینل کے خلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس تحریک کے ڈرافٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ ٹی وی چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارتی فلمی گانوں کے ذریعے پنجاب اسمبلی کی خواتین ارکان کا مذاق اڑایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پتہ چلا تو انہوں نے یہ معاملہ ختم کروا دیا۔ کچھ دن بعد پنجاب اسمبلی میں جعلی ڈگریوں پر دوبارہ بحث شروع ہوئی تو ثناء اللہ مستی خیل سمیت کئی ارکان نے میڈیا کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے اور پھر 9جولائی کو کھوسہ صاحب کی تیارکردہ پرانی قرارداد کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ مستی خیل کے ذریعے پیش کرایا گیا۔ مستی خیل کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ قرارداد ذاتی حیثیت میں پیش کی حالانکہ 9جولائی کو پرائیویٹ ممبر ڈے نہیں تھا اور اسپیکر کی مرض سے قرارداد پیش نہیں ہوسکتی تھی۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ مستی خیل کو پارٹی سے نکال دینا چاہئے لیکن ابھی تک مستی خیل کا کچھ نہیں بگڑا۔ 13جولائی کو پنجاب اسمبلی میں ایک نئی قرارداد کے ذریعے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن مستی خیل کی اس تقریر کا کیا ہوگا جس میں انہوں نے ججوں، جرنیلوں اور جرنلسٹوں کو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا؟ ہمیں ان کی آزادی اظہار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ یہ تو قبول کریں کہ وہ خود بھی پانچ سال تک ایک ڈکٹیٹر کے کاسہ لیس تھے۔ بہرحال پنجاب اسمبلی میں نئی قرارداد کی منظوری صحافیوں کی آدھی کامیابی ہے۔ جس دن مستی خیل کی تقریر میں لگائے گئے الزامات کو اسمبلی کے ریکارڈ سے حذف کیا جائے گا وہ صحافیوں کی مکمل کامیابی کا دن ہوگا۔ یہ کامیابی صرف صحافیوں کی نہیں بلکہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔ خدانخواستہ جمہوریت نہ ہوتی تو ڈکٹیٹر ایمرجنسی لگا کر ہم سب کے ہاتھ باندھ دیتا۔ پارلیمینٹ اور میڈیا کی بقاء جمہوریت میں ہے لہٰذا آپس میں لڑنے کی بجائے دونوں ایک دوسرے کو مضبوط بنائیں۔ بادشاہ اتنا ظلم نہ کرے کہ کسان اپنے گدھے کی ٹانگیں توڑنے لگے۔ (ضروری وضاحت: گزشتہ کالم میں محمد علی درانی کو شہد کی دلدل لکھا گیا تھا ٹائپنگ کی غلطی سے لفظ دلدل دلال بن گیا جس پر میں درانی صاحب سے معذرت خواہ ہوں)