• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوں کفر اَز کعبہ بر خیزد...سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

فارسی کے مشہور و معروف شاعر حافظ  کے ایک شعر کا یہ مصرع :
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
محاورہ کے طور پر برسوں سے استعمال ہو رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کعبہ سے ہی کفر پیدا ہونے لگے تو مسلمانی کہاں باقی رہے گی۔ یہ عموماً ایسے موقع پر بولا اور لکھا جاتا ہے جب کسی بڑے ادارے یا فرد جسے لوگ متبرک اور مقدس سمجھیں اور وہاں سے کسی غلط کام کی کوئی خبر آئے۔ آج کل حکومت نے اپنی روایتی شرارت پر عمل کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے اعلیٰ عہدیداروں، معزز جج صاحبان اور خاصے ذمہ دار افراد کے نام پریس کو دے دیئے ہیں جن کو ایک یا ایک سے زیادہ پلاٹ تحفتاً دے دیئے گئے تھے۔ معزز جج صاحبان کے نام پڑھ کر دلی رنج ہوا کہ انہوں نے یہ تحفہ کِن اعلیٰ ملکی مفاد کی خدمت کے طور پر قبول کرلئے۔ اب جبکہ عدلیہ چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں پر گرفت تنگ کررہی ہے تو چالاک حکمراں جوابی حملے کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ پلاٹوں کی قبولیت کو این آر او کا نام دیا جارہا ہے اور اس شرارت کی آڑ میں اب توہین عدالت اور دہری شہریت کے بارے میں قانون سازی کررہے ہیں کہ عدلیہ کے پَر کاٹ دیئے جائیں اور ان لوگوں کو ہمارے سر پر بٹھایا جائے جنہوں نے غیر ملکوں کے حلف وفاداری اٹھائے ہیں اور من و عن ان کے مفادات کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ایک جھوٹا تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ چور دروازے سے آنے والے ملک میں اربوں ڈالر لاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لاتے نہیں لے جاتے ہیں۔ ان سے ان کی پاکستان لائی رقم کا حساب چیک کیجئے تو ظاہر ہوجائے گا کہ ان کی پاکستان کو بھیجی رقم ہمارے ایک بڑھئی، قصاب، میسن کی بھیجی ہوئی رقم سے دس گنا کم ہے۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ ان کو ووٹ دینے کی اجازت دے دی جائے کیونکہ ان کے ووٹوں کی تعداد سے یہاں ایک، دو ممبر بھی نہیں چنے جاسکتے مگر ان کو نہ ہی وزیر، نہ ہی دوسرا سرکاری عہدہ یا ایسا عہدہ جس میں ان کو انتظامی، سیاسی قوت ہو ہرگز نہ دیا جائے۔ آپ ان کی خدمات ایک کنسلٹنٹ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں جس طرح ہم دوسرے غیرملکیوں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔
دیکھئے بات ہورہی تھی بااثر لوگوں کے دو، دو پلاٹ لینے کی، یہ یقینا اخلاقی طور پر مناسب نہ تھا۔ میں نے بھی تو پاکستان کو ایک ایٹمی اور میزائل قوت بنایا۔ میں نے تو آج تک نہ ہی ایک گز زمین حکومت سے مانگی اور نہ ہی لی، میری تنخواہ ، پورے 25 سال، وہی تھی جو میرے سینئر ساتھیوں کی تھی۔ میں نے جو گھر بنایا اس کے لئے زمین بازار سے ایک پراپرٹی ڈیلر کی معرفت ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدی تھی اور عوام خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا میری خدمات کے مقابلے میں ان لوگوں کی خدمات زیادہ اہم اور سنہری تھیں۔ بس ان باتوں پر جوش ملیح آبادی کا یہ شعر یاد آرہا ہے
کوئی حد بھی ہے آخر اِحترام آدمیت کی
بدی کرتا ہے کوئی اور ہم شرمائے جاتے ہیں
خدا کرے کہ جن معزز حضرات نے یہ پلاٹ لئے ہیں وہ انہوں نے سرکاری قیمت پر لئے ہوں۔
یوسف رضا گیلانی کی ذلت آمیزروانگی کے بعد جیالے اور انکے چمچے اب عدلیہ کو ہر طرح سے بے اختیار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنے راشی، اتنے جھوٹے، اتنے نااہل حکمراں اس سے پیشتر نہیں آئے، یہی نہیں بلکہ مکاری اور عیاری میں چانکیہ کو بھی مات کردیا ہے۔ ابھی تک ان لوگوں کی تمام مذموم سازشیں عدلیہ کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہی ہیں۔ معزز جج صاحبان کو اب بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب کسی بُرے انسان کو لوگ برا کہنے لگتے ہیں تو وہ بجائے اپنی خرابی دور کرنے کے دوسروں پر عیب لگانا شروع کردیتا ہے تاکہ اپنے عیوب چھپا سکے۔ یہ اسی طرح ہے کہ ایک شرابی یا ایک چَرسُو یا اَفِیونچی بجائے اپنی بُری عادت چھوڑنے کے دوسروں کو ترغیب دے دے کر شرابی، چَرسی اور اَفیونچی بنا لیتا ہے اور اس طرح وہ خود کو عیب دار فرد واحد کی فہرست سے محفوظ کرلیتا ہے۔ ایک کبڑا شخص چاہتا ہے کہ سب کبڑے ہوجائیں۔ پی پی پی حکومت بھی ایسی ہی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ وہ اس اسٹیج سے گزر چکی ہے جہاں وہ اپنی اصلاح کرسکے وہ اب ملک پر ایک بوجھ ہے۔ عوام کی نظر میں اس وقت صرف عدلیہ کا ادارہ ہی قابل عزت و احترام ہے جو موجودہ نااہل اور سازشی حکومت کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے ان لوگوں نے معزز چیف جسٹس پر بزدلانہ حملہ کیا جب ناکام رہے تو پھر دوسرے معزز جج صاحبان پر حملے شروع کردیئے۔ چلئے ان جج صاحبان کو اخلاقی طور پر یہ قبول نہ کرنا چاہئے تھا مگر جن لوگوں نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کی ان کی گردن بھی تو ناپی جائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ پی پی پی کی حکومت بستر مرگ پر ہے اور آخری سانسیں لے رہی ہے تو پھر یہ پلاٹوں کی فہرست کی تشہیر کی شرارت کیوں۔ اور اب یہ لوگ ساڑھے چار سال کی لوٹ مار کے بعد کیوں اس گڑے مُردے کو اٹھا رہے ہیں۔ مقصد اور عیّارانہ چال صاف ظاہر ہے۔
چور، راشی حکمراں طبقہ عوام کو یہ باور کرانا چاہتا ہے اور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ ہم اکیلے اس حمام میں ننگے نہیں بلکہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ مزے اُڑاتے رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے صدر کا یہ کہنا کہ یہ بھی ایک این آر او ہے کا سوائے اس کے کچھ اور مطلب نہیں کہ عدلیہ این آر او مقدموں کو نظر انداز کردے، ختم کردے اور سوئس بنکوں میں کروڑوں ڈالر کی رشوت سے حاصل شدہ رقم واپس نہ منگوائی جاسکے۔ یہ اخلاقی پستی کی انتہا ہے کچھ تعجب نہیں کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہم دنیا کے بدترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان فہرستوں میں محترم چیف جسٹس کا نام نہیں ہے اگر حکمراں ایسی ہی عیارانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے تو نہ ہی ان کو اس کا فائدہ ہوگا اور نہ ہی یہ ملکی مفاد میں ہوگا ، گویا:جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا!
تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی ادارہ، کسی حکومت، کسی ٹیم کا زوال ہوتا ہے توذمہ دار گھبرا کر، پریشان ہوکر جو بھی تدبیریں اختیار کرتے ہیں وہ ناکام ہوتی ہیں۔ آپ نے ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم کا حال دیکھا ہے یہ ٹیم کلائیولائیڈ کی کپتانی میں ٹیسٹ میچز صرف تین دن میں جیت لیا کرتی تھی جب زوال آیا تو کپتانوں، کھلاڑیوں کی تبدیلی کچھ کام نہیںآ ئی۔ یہی حال ہماری ہاکی ،کرکٹ اور اسکواش ٹیم کا ہوگیا ہے۔ قذافی کی تمام تدابیر جو اس نے عوام کو خوش کرنے اور کنٹرول کرنے کے لئے کیں ، ناکام رہیں اور وہ ذلّت آمیز، عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور جرمنی کی ابتدائی حیرت انگیز فتوحات کے بعد جب حالات نے پلٹا کھایا تو نتیجہ ان کی تباہی اور شکست کی شکل میں نکلا۔ ابھی ماضی قریب میں اٹلی کے وزیراعظم برلسکونی اور فرانس کے صدر سرکوزی کا بھی یہی حشر ہوا ہے۔ خود ہمارے یہاں پہلے بینظیر کا، پھر نواز شریف کا، پھر بینظیر کا اور پھر نواز شریف اور پھر مشرف کا جو حشر ہوا ہے وہ ابھی تازہ یادیں ہیں۔ لیکن موجودہ حکمرانوں نے ابھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، وہ ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں،ہوشیار ہیں، چالباز ہیں اور سب کو شکست دے دیں گے حالانکہ مشہور فارسی محاورہ ہے ”اے تیزی طبع تو برمن بلا شدی“ یعنی بہت زیادہ عقلمندی مصیبت بن جاتی ہے۔ تلسی داس نے صدیوں پہلے کہا تھا
پھر بھوجی داروں دُکھ دینی۔ پہلے باکی مت ہر یعنی
یعنی جس کو پربھو (خدا) بڑا دکھ دینا چاہتا ہے پہلے اس کی عقل سلب کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ موجودہ حکمرانوں کی عقل آہستہ آہستہ سلب کررہا ہے۔ اس وقت عوام کا جو حال ہے وہ جوش کے اس شعر سے ظاہر ہے:
اَب بُوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُو کی دُعا مانگتے ہیں لوگ
اس وقت نیشنل اسمبلی نے جو قانون پاس کیا ہے اس کی وہی حیثیت ہے جو صوبائی اور قومی اسمبلیوں نے بدعنوان اور نااہل سابق وزیراعظم کی حمایت میں پاس کئے تھے۔ قانون کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اگر لوگ بدنیتی سے ایسی ترمیم بھی لائیں تو سپریم کورٹ کو چاہئے کہ بلا حیل و حجت اس کو رد کرکے کالعدم قرار دے دے۔ چند ممبروں کو خرید کر ملکی مفاد اور بنیادی حقوق و قانون کے خلاف کوئی بھی ترمیم ناقابل قبول ہے اور سپریم کورٹ کو اس کو رَد کردینا چاہئے۔
تازہ ترین