• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نام فقیر تنہاں دا باہو# قبر جنہاں دی جیوے ہو ....ناتمام…ہارون الرشید

وعظ سے نہیں زندگی ایثار اور ریاضت سے بدلتی ہے۔ شہادت الفاظ کی نہیں عمل کی ہوتی ہے ۔ ہر وہ شخص جھوٹا ہے جو صرف تلقین کرتا رہے۔
برصغیر میں خبط بہت ہے۔ کرم چند موہن داس گاندھی میں یہی تھا۔ اقبال# نے اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، دنیا جس پر نثار تھی۔ ہیجان بہت ہے اور جنون کو چھو لیتا ہے۔ اعتدال کی ضرورت ہے اور تناسب کے ادراک کی۔ جب طیارے کا حادثہ ہوا اور ذرائع ابلاغ نے قوم کی ساری توجہ اس پر مرکوز کر دی تو محکمہ موسمیات کے سربراہ قمرالزماں چوہدری کو تشویش لاحق ہوئی۔ ذمہ دار لوگوں کو انہوں نے چیخ کر آواز دی : براہ کرم سیلاب پر نگاہ کیجئے کہ خلق پر عذاب ٹوٹ پڑا ۔ حادثات اور بھی تھے۔ کراچی کی خوں ریزی ، پشاور کا خودکش حملہ اور صدر زرداری کا بے وقت دورہ۔ سبھی کا ذکر ضروری تھا مگر کوئی تناسب ہوتا ، کوئی توازن ہوتا۔ کیا ہم سنسنی پسند ہوتے جا رہے ہیں اور ذرائع ابلاغ کو ہمیشہ چٹ پٹی خبروں کی تلاش رہتی ہے؟ کیا مسائل کا ادراک کرنے اور ترجیحات مرتب کرنے کی بجائے ہم فرار کی نفسیات کا شکار ہیں ؟ غور کرنا چاہئے ۔ اگر کسی نے صدر زرداری پر جوتا پھینک دیا تو غصے میں بھرے ایک ناراض آدمی کی حرکت پر خوش ہونے کی بات کیا ہے۔ کیا یہ اذیت پسندی کا رجحان نہیں۔ منفی طور پر مسرت سمیٹنے کی کوشش۔ ایک ناپسندیدہ لیڈر کی توہین پر آسودگیکیا حاصل ؟ آخر اس سے کیا حاصل؟
حالات، حکمرانوں، انسانی جذبات کا استحصال کرنے والے واعظوں اور لیڈروں نے ہمیں جذباتی بنا دیا ہے۔ احساسات کے وفور میں مبتلا، ہم واقعات کو درست تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ عذاب نہیں، یہ امتحان ہے۔ بہترین زمانوں میں بہترین لوگوں پر آزمائشیں اتری ہیں۔ فاروق اعظم عمر بن خطاب کے بارہ سالہ سنہری دور میں پانچ سال قحط کی نذر ہوئے۔ اس امتحان میں جب وہ سرخرو ہوئے تو عظمت اور کامیابی کے دروازے ان پر کھل گئے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ اسی زمانے میں ٹیکس کی سرکاری آمدن سب سے زیادہ رہی۔ بعد میں فتوحات مزید ہوئیں مگر آمدن کم ہوتی گئی۔ عمر  بن خطاب کے اہلکاروں کو ٹیکس ادا کرنے والے گویا عبادت کرتے کہ روپیہ محتاج اور مسکین پر خرچ ہوتا یا سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر ۔ ذوالنورین حضرت عثمان غنی  کے عہد میں بھی ترجیحات یہی تھیں لیکن پھر ناخواندہ ،غیرتربیت یافتہ ہجوم بروئے کار آنے لگے اور فساد کا موجب بنے۔ فساد ہی قوموں کی تباہی کا سبب ہوتا ہے۔ ہر عہد کو، ہر قوم اور ملک کو ایک مضبوط حکومت درکار ہوتی ہے، اور ممکن ہو تو ایک مہربان حکومت، قانون کے نفاذ میں جو سخت گیر ہو مگر مفلسوں اور غریبوں پر سایہ فگن۔
حادثہ بہت بڑا ہے مگر حادثے کو حواس پر غالب نہ آنا چاہئے۔ 1947ء سے ملتی جلتی صورت حال ہے، بظاہر پانی کے سوا کوئی دشمن نہیں مگر دشمن ممالک صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش تو کریں گے۔ امریکہ نے دباؤ بڑھا دیا ہے کہ پاکستان ان مجاہدین کے خلاف بھی کارروائی کرے جو اس سے متصادم نہیں۔ کراچی کی خوں ریزی میں یقینی طور پر بھارت کا ہاتھ بھی ہے۔ سیاسی کشیدگی اپنی جگہ اور مقامی جرائم پیشہ بھی۔ اگر تحقیقات میں ریاضت ہو تو وہ لوگ پکڑے جا سکتے ہیں جو دہلی کے ایما پر حرکت میں آتے ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم والے حریف ہیں اور دونوں جماعتوں میں جرائم پیشہ پناہ لے سکتے ہیں لیکن اپنے دفاتر پر حملوں کے بعد، ایم کیو ایم نے اے این پی کو مورد الزام ٹھہرانے میں تعجیل سے کام لیا۔ دونوں حماقت کے مرتکب ہوئے ہوں گے لیکن شواہد یہ ہیں کہ اب کی بار وزیر داخلہ بنیادی طور پر درست تھے۔ ان کی کسی نے سنی نہیں۔
اندازہ یہ ہے کہ دو کروڑ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے۔ لاکھوں خاندان اپنی فصلوں، مویشیوں، مکانات اور جمع پونجی سے محروم ہوئے اور اس حال میں ہوئے کہ سر چھپانے کا ٹھکانہ بھی نہیں۔ زرداری صاحب تو ملک سے باہر تھے، وزیراعظم گیلانی کو جوڑ توڑ اور باتیں بنانے کا تجربہ بہت ہے، حکمرانی کا کم۔ وہ سیاسی بحران سے نمٹ سکتے ہیں، ایک قومی آفت سے نہیں۔ پہلے روز تو یہ ادراک بھی نہ ہوا کہ سیلاب زدہ علاقے میں بہت قیمتی سوٹ پہن کر نہ جانا چاہئے۔ کسی اور سے نہیں تو ذوالفقار علی بھٹو ہی سے سیکھا ہوتا جو طوفان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے اور مصیبت کے ماروں کی ہمت بندھانے کی کوشش کرتے تھے۔ حوصلے اور حواس کے ساتھ ہی مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ ازل سے آدمی کی قسمت میں حادثات ہیں اور ہمیشہ وہ ان سے نمٹتا آیا ہے۔ فرد اور قوم دونوں کے لئے اصول وہی ایک ہے۔ اللہ کسی کو ایسی آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ، جس کی وہ تاب نہ رکھتا ہو۔ دوسری صورت عذاب کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص پامال کر دیا جائے یا کوئی قوم مٹا دی جائے۔ دو ہزار برس ہوتے ہیں، جب ایرانیوں نے پشتونوں کی سرزمین اور ملتان تک پھیلے خطے کو ”خراسان“ کا نام دیا تھا۔ اس خراسان کے ساتھ نجات ہی نہیں، شوکت و عظمت کا وعدہ ہے۔ یہ اولیاء اللہ کی سرزمین ہے، اہل علم کی جن کے ورثے کو ہم نظر انداز کرتے ہیں۔ مغرب سے ضرور سیکھنا چاہئے۔ علم حاصل کرو، خواہ چین سے حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ دین نہیں یہ دنیا کا علم ہے اور دین سے الگ نہیں لیکن خود اپنی علمی میراث سے انحراف کیوں ہو۔ اللہ کے آخری رسول نے کہا تھا : ہند کے ساحلوں سے مجھے خوشبو آتی ہے۔ ارشاد کیا تھا کہ خراسان کے مسلمان اوّل مشرکین ہند کو شکست دیں گے، پھر دمشق میں مہدی کے ساتھ مل کر یہودیوں سے لڑیں گے۔ بھارت کتنا ہی قہرمان ہو، ہم پر غالب نہیں آ سکتا۔ اسرائیل کتنا ہی طاقتور ہو، عسکری طور پر پاکستان سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ ادھر اسرائیل وجود میں آیا تو ادھر پاکستان۔ یہ قدرت کے عظیم منصوبے کا حصہ ہے ۔ پنڈت نہرو ، خوددار اور بلند ہمت مگر المناک مغالطوں میں، بچوں کی طرح مبتلاجمال عبدالناصر کو لوریاں سنایا کرتے: پاکستان مجھے اس لئے ناپسندہے کہ اسرائیل کی طرح مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے تب ادراک نہ کیا کہ بھارتیوں کے عزائم کیا ہیں اور یہ کہ جمال عبدالناصر بہرحال ہمارے بھائی ہیں۔ چواین لائی نے کر لیا تھا۔ بھارت اور روس دونوں کے ارادے اس مدبر نے بھانپ لئے تھے۔ ناصر کو بھی اندازہ ہوا جب چین بھارت جنگ کے ہنگام، بھارتی پارلیمنٹ میں اس پر تبرّیٰ ہوا کہ ہندوستان کی تائید نہیں کرتا ۔ حیرت سے ناصر نے نہرو کو لکھا کہ اگر وہ فریق بن جائیں تو خود ان کی خواہش کے مطابق چین سے مصالحت کا اہتمام کیسے کریں گے۔
ذلت، بربادی اور نکبت ہمارا مقدر نہیں۔ ہمارا مقدر روشنی، علم اور نجات ہے۔ اگر اس امتحان میں سرخرو رہے تو بحران کے پار اتر جائیں گے اور وہ اعتماد حاصل کر لیں گے ،قوموں کو سرفرازی کے لئے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایثار چاہئے ،اس وقت ایثار چاہئے۔ قرآن سوال کرتا ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ۔ کہو جو کچھ زائد ہے ۔ جو کچھ زائد ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے لئے یہ حکم دیا گیا ۔ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ سود سے مال گھٹتا اور صدقے سے فروغ پاتا ہے۔ اللہ کے آخری رسول کا فرمان یہ ہے کہ رزق آدمی کو اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح موت۔ اور یہ بھی ارشاد کیا : جو دوسروں کے کام میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کے کام سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔
جنگ بندی ہو چکی تو صلاح الدین نے سرکاری خزانہ مفلسوں میں بانٹنے کا حکم دیا۔ خزانے کا نگران تامل کا شکار تھا کہا : سلطان نور الدین زنگی نے بھی یہی فرمان جاری کیا لیکن جب اشرافیاں لٹائیں تو انہوں نے مجھے روک دیا۔ صلاح الدین کو مرحوم سلطان کا احترام بہت تھا۔ دھیمے لہجے میں کہا: بادشاہ اور بنیے میں کچھ فرق ہونا چاہئے۔ امیر المومنین خلیفہ ہارون الرشید نے ملکہ زبیدہ سے کہا کہ طبیعت میں تنگی اور انقباض بہت ہے۔ زبیدہ کہاں ٹلنے والی تھی ، بولی : خزانہ لبریز اور خلق خدا مفلس ہے ، تنگی نہیں تو اور کیا ہو۔ خزانہ بانٹیے اور کشادگی خرید لیجئے۔ برطانیہ سے 160 اور سکینڈے نیویا سے 170 پہلے ٹیپو سلطان نے حالت جنگ میں سوشل سکیورٹی سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور عمل کر ڈالا۔ 211 سال گزر چکے سنگ سیاہ کے اس مزار پر چراغ جلتے رہتے ہیں اور 19مقامی زبانوں میں گیت گونجتے رہتے ہیں۔
نام فقیر تنہاں دا باہو # قبر جنہاں دی جیوے ہو
(فقیر وہ ہوتے ہیں جن کی قبر زندہ رہتی ہے)
جناب نواز شریف، صدر آصف علی زرداری ، چوہدری صاحبان اور دوسرے لیڈروں کے پاس دولت کے انبار پڑے ہیں۔ کیا خدمت خلق کا ٹھیکہ صرف جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور ایدھی فاؤنڈیشن نے لے رکھا ہے۔
وعظ سے نہیں زندگی ایثار اور ریاضت سے بدلتی ہے۔ شہادت الفاظ کی نہیں عمل کی ہوتی ہے ۔ ہر وہ شخص جھوٹا ہے جو صرف تلقین کرتا رہے۔ عمر ابن خطاب  نے قحط کے دنوں میں کھانا کم کر دیا تھا ، آدھا!

تازہ ترین