• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

”گوجرانوالہ ماڈل“ کے نفاذ کی ضرورت .....کڑوا سچ…طارق بٹ

پنجاب کے 6 اضلاع جو گوجرانوالہ رینج میں شامل ہیں کے تقریباً تمام تھانوں میں رشوت ستانی کے خلاف تقریری مقابلے ہوئے ہیں جن میں تھانے دار رشوت کی لعنت کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولے اس کے بعد سب کی موجودگی میں تمام پولیس اہلکاروں نے کھڑے ہو کر پھر حلف اٹھایا کہ ”ہم آئندہ نہ کسی سے رشوت طلب کریں گے اور نہ قبول کریں گے صرف اور صرف رزق حلال کھائیں گے“۔ اس سے متاثر ہو کر شہریوں نے بھی حلف اٹھایا کہ ”ہم آج کے بعد کسی اہلکار کو رشوت نہیں دیں گے ، کبھی جھوٹا پرچہ درج نہیں کرائیں گے اور نہ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیں گے“۔ یہ سب کچھ اور بہت کچھ جو گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع کی پولیس فورس میں ہو رہا ہے وہ ”گوجرانوالہ ماڈل“ کا حصہ ہے جو اس رینج کے رینجل پولیس آفیسر (آر پی او) نے متعارف کرایا ہے۔ اس ماڈل کی جزئیات اور ان کے نتائج پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کمانڈر ( وہ کسی سویلین ادارے کا ہو یا کسی فورس کا) چاہے تو اہم تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں وہ بھی اپنے موجودہ وسائل میں رہ کر۔ گوجرانوالہ میں 2006ء سے لے کر 2008ء کے اوائل تک سنگین جرائم زوروں پر تھے اور امن وامان کی صورتحال بدترین تھی۔ انتہائی خطرناک مجرموں کے منظم گروہوں نے پورے علاقے کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ اغواء برائے تاوان اور بھتہ لینے کے جرائم ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ صنعت وتجارت سے تعلق رکھنے والے لوگ خوف اور عدم تحفظ کے باعث اپنی جائیدادیں بیچ کر مڈل ایسٹ اور یورپ شفٹ ہو رہے تھے۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں شہبازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور انہوں نے ذوالفقار چیمہ کوگوجرانوالہ کا آر پی او تعینات کر دیا۔ نیا کمانڈر ایماندار اور دلیر افسروں کی ٹیم لے کر میدان میں اترا اور اس ٹیم نے خطرناک ترین مجرموں کے خلاف چند مہینوں میں ہی جنگ جیت لی۔ کچھ خطرناک مجرم مارے گئے، کچھ گرفتارہو کر جیل چلے گئے اور کچھ علاقہ چھوڑ گئے۔ عوام نے سکھ کا سانس لیا، کاروباری طبقہ ہی نہیں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو تحفظ ملا اور پولیس کو عزت ملی۔ اس کے بعد گوجرانوالہ پولیس کی سینئر کمانڈ نے پولیسنگ کے میدان میں مشکل ٹارگٹ حاصل کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ وہ ٹارگٹ تھا ”تھانہ کلچر کی تبدیلی“ ۔ ہم کئی دہائیوں سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کی باتیں اور دعوے سنتے آرہے ہیں مگر یہ دعوے بھی کھوکھلے ثابت ہوئے اور تھانے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پہلی بار گوجرانوالہ میں اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور وخوض ہوا۔ تمام افسران کو سوچ بچار کیلئے ایک مہینے کا وقت دیا گیا پھر اس کے ہر پہلو پر تبادلہ خیال ہوا ٹھوس تجاویز سامنے آئیں جن کی روشنی میں حکمت عملی ترتیب دی گئی اور اقدامات کی ترجیحات متعین کی گئیں۔ مسئلہ واضح تھا کہ ”تھانہ پولیس کرپٹ بھی ہے اور بدتمیز بھی، اسے ایماندار اور خوش اخلاق بنانا ہے“۔ اس کیلئے تمام آپشنز استعمال کئے گئے۔ بدنام رشوت خور اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا گیا کئی گرفتار بھی ہوئے۔ جس سے دوسرے محتاط ہوگئے۔ تھانے کے اہم ترین افسروں یعنی ایس ایچ او، محرر، تفتیشی افسران اور ڈیوٹی افسران کے علیحدہ علیحدہ ریفریشر کورس کروائے گئے۔ سینئر افسروں اور ماہرین نفسیات نے لیکچر دیئے اور علمائے کرام بشمول مولانا جمیل نے انہیں رزق حلال کی فضیلت اور فوائد سے آگاہ کیا۔ پڑھے لکھے علماء نے جب نبی کریمﷺ کی سادہ ترین طرز زندگی کے واقعات سنائے تو اکثر تھانیداروں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ کئی مہینوں تک ایس پی، ایس ایس پی اور خود ڈی آئی جی بھی تھانوں میں جاتے رہے اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر ان کی کونسلنگ اور motivation کرتے رہے۔ ان مسلسل کی جانے والی کوششوں سے پولیس اہلکاروں میں کرپشن سے نفرت اور رزق حلال کیلئے پسندیدگی پیدا ہوئی اور ان میں تبدیلی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ پھر تمام پولیس اہلکاروں سے مختلف تھانوں میں حلف لیا گیا کہ وہ ہمیشہ رزق حلال کھائیں گے۔ تھانوں کو کرپشن فری بنانے کیلئے ضروری تھا کہ پولیس اہلکاروں کے مسائل بھی حل کئے جاتے اور ان کی ویلفیئر پر بھی توجہ دی جاتی۔ تھانوں میں رہائش کیلئے سو سے زیادہ بیرکیں تعمیر کرائی گئیں۔ گندے باتھ روموں کی جگہ ٹائلیں لگا کر نئے باتھ روم بنوائے گئے۔ ایس ایچ اوز کیلئے رہائش گاہیں بنائی گئیں تاکہ وہ کسی چوہدری یا صنعت کار سے رہائش کیلئے مکان یا بیٹھک لینے کا محتاج نہ رہے۔ جونیئر اہلکاروں یعنی سب انسپکٹروں کیلئے فلیٹس بنائے گئے۔ اچھی کارکردگی پر جوانوں کو انعامات دیئے گئے۔ ان کے بیوی بچوں اور والدین کے علاج کیلئے اور بچوں کی شادیوں کیلئے مالی امداد دی گئی اور مکان بنانے کیلئے قرضے دیئے گئے۔ فورس کی ویلفیئر کیلئے وسائل میں اضافے کیلئے نئی ”محافظ مارکیٹیں“ تعمیر کی گئیں۔ گوجرانوالہ ماڈل کے تحت اگلی بار خوش اخلاقی کے موضوع پر تقریری مقابلے ہوں گے تاکہ پولیس ملازمین کو sensitize کیا جاتا رہے اس ماڈل کو نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی پولیس کے ہاتھوں اذیت اور ذلت میں نہ صرف واضح کمی آئے بلکہ تھانے دار عوام کے خادم بنیں۔پنجاب کے 6 اضلاع میں گوجرانوالہ ماڈل کے نفاذ سے تھانہ کلچر میں تبدیلی یقینا آئی ہے جو بڑی واضح ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولیس فورس بالکل پاکباز ہوگئی ہے اور جرائم کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے۔ آخر ایک ابتدا تو کی گئی ہے ۔یہ6 اضلاع پاکستان میں جرائم کی وجہ سے کافی مشہور رہے ہیں تاہم اب ان کا مقام کرائم گراف میں پہلے والا نہیں ہے۔ننھوا گوارایہ جسے خوف سے چھٹکارا پالیا گیا ہے اور مجرم پہلے کی طرح دندناتے نہیں پھر رہے۔
تازہ ترین