مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں محمد نواز شریف نے فلڈ ریلیف کے لئے غیرمتنازع شخصیتوں پر مشتمل جس کمیشن کی تشکیل کی تجویز پیش کی اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے فوراً اس تجویز پر مثبت رد عمل اظہار کیا۔اس پر اظہار خیال سے پہلے ایک وضاحت!میرے گزشتہ کالم میں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی طرف سے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے جن کاوشوں کا ذکر کیا گیا تھا۔اس میں کتابت کی غلطی سے میرے اور وصی شاہ کی طرف سے اس فنڈ میں ڈالی جانے والی ابتدائی رقم صرف ایک ہزار(یعنی پانچ سوروپے میری طرف سے اور پانچ سو روپے وصی شاہ کی طرف سے)درج ہوگئی ہے جبکہ اس فنڈ میں میرے اہل خانہ کی طرف سے ایک لاکھ دس ہزاراور وصی شاہ کی طرف سے چالیس ہزار روپے دئیے گئے تھے اور یوں ڈیڑھ لاکھ روپے سے ان فنڈ کی ابتداء کی گئی۔ مجھے اس کے اظہار میں شرم محسوس ہورہی ہے لیکن اس سے زیادہ شرمناک یہ تاثر تھا کہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر امداد کی اپیل کرنے والوں نے خود صرف پانچ پانچ سو روپے اس فنڈ میں بطور عطیہ دئیے ۔
اس ناخوشگوار وضاحت کے بعد اصلی موضوع کی طرف آتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے جب فلڈ ریلیف کمیشن کی تجویز پیش کی اور وزیر اعظم گیلانی نے میاں صاحب کی موجودگی میں کی گئی پریس کانفرنس کے دوران تجویز کو سراہا اور اس پر عمل کی یقین دہانی کرائی تو پاکستانی عوام نے اس پر اطمینان کا سانس لیااور ہر طبقہ فکر اور ہر شعبہ زندگی سے اس تجویز کی بھرپور تائید سامنے آئی۔ میں نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم گیلانی نے صدر زرداری کے مشورے کے بغیر تجویز پر رضامندی ظاہر کی ہوگی تاہم اب ایک ہفتہ گزرنے کو ہے مگر اس پرعمل کی کوئی صورت تاحال سامنے نہیں آئی، اگر حکومت میں شامل کوئی طبقہ سمجھتا ہے کہ متذکرہ تجویز پرعملدرآمد سے حکومت پر عوام کی بے اعتمادی کی توثیق ہوجائے گی تو اسے یہ خیال ذہن سے جھٹک دینا چاہئے کیونکہ جس کے دامن پر کوئی داغ دھبہ نہ ہو اسے اگر کوئی فکر لاحق ہوتی ہے تو صرف یہ کہ وہ کبھی کسی بدگمانی کی زد میں نہ آئے۔ میاں نواز شریف نے جو تجویز پیش کی ہے اس کی زد میں ان کی اپنی پنجاب حکومت بھی آتی ہے ،کیونکہ اس کے مطابق چاروں صوبوں اور مرکزی حکومت کے وسائل فلڈ کمیشن کی تحویل میں دئیے جائیں گے۔ ملکی اور غیر ملکی عطیات بھی اسی فنڈ کے تحت ہوں گے اور ان کے استعمال کی مانیٹرنگ بھی یہ کمیشن ہی کرے گا۔میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب کی تجویز پرعملدرآمد شروع ہوتے ہی صرف پاکستانی عوام کی طرف سے اربوں روپوں کی عطیات آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس وقت کروڑوں پاکستانی آسمانی ابتلاء کی زد میں ہیں اور کروڑوں پاکستانی ان کی مدد کے لئے بے چین ہیں۔ اس کا اندازہ مجھ ایسیہچمیدان بھی یوں ہورہا ہے کہ ذرا سی ہل جل کرنے سے پاکستان اور پاکستان سے باہرمیرے دوست بے چین ہوکر فون کررہے ہیں کہ وہ اپنی رقوم ارسال کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہی لاس اینجلس (امریکہ) سے نیئر آپا کا فون آیا کہ وہ اردو مرکز کی طرف سے پانچ سو ڈالر ارسال کررہی ہیں۔ جاپان سے ظفر چودھری نے ایک لاکھ روپے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ برادرم رؤف کلاسرا اپنی تنخواہ میں سے پچاس ہزار روپے کا عطیہ دینا چاہتے ہیں۔ سو اگر ذاتی سطح پر کی گئی اپیل کی پذیرائی کا یہ عالم ہے توجب صاحبان اقتدار سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے مشترکہ اپیل سامنے آئے گی تو آپ اندازہ لگائیں کہ صورتحال میں کتنی بڑی اور کتنی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ میری وزیر اعظم گیلانی سے گزارش ہے کہ وہ خدارا اپنے ساتھیوں کے تحفظات فوری طورپر دور کریں اور آئندہ ایک دو روز میں میاں صاحب کی تجویز کو عملی جامہ پہنائیں ۔ قوم وزیر اعظم گیلانی کو پسند کرتی ہے اور جب صدر زرداری ان کے کسی اچھے کام میں رکاوٹ نہیں بنتے تو دلوں میں ان کے لئے بھی خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔سو میری گزارش ہے کہ اب وہ ”کہیں ایسا نہ ہوجائے ، کہیں ویسا نہ ہوجائے‘کے وسوسوں سے نکلیں اور کمیشن کے ارکان کی نامزدگی کا کام مکمل کرکے اس کی عملی صورت سامنے لائیں۔اس کام میں دیری سیلاب زدگان کی مظلومیت اور ان کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنے گی وزیر اعظم گیلانی سادات میں سے ہیں وہ سوچ لیں حضور کے امتی اگر قیامت کے روز حضور سے ان کی شکایت کر بیٹھے تو کیا ان کا سادات میں سے ہونا ان کے کسی کام آئے گا۔