• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوادر پورٹ اور کالا باغ ڈیم.....آن دا ریکارڈ …جبار مرزا

سیلاب تب آتے ہیں جب زمین اور نباتات کی پیاس بجھ جاتی ہے‘ وہ تمام پانی جذب کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سیلاب تب آتے جب برسوں کی بارش دنوں میں برس جائے‘ سیلابی پانی ‘ پہاڑوں سے نباتات سمیٹ کر میدانوں میں لے آتا ہے‘ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے‘ زہر آلود‘ کڑوا اور کھارا پانی میٹھا ہوجاتا ہے‘ زمین دھل جاتی ہے‘ کلرزدہ بنجر زمینیں بھی زرخیزی دکھانے لگ جایا کرتی ہیں‘ دشواریوں کے بس چند ماہ ہیں جیسے تیسے گزر جائیں گے‘ پھر دور تلک خود رو فصلیں لہلہاتی دکھائی دیں گی۔ اگلے تین چار سال وطن عزیز پاکستان میں بفضل تعالیٰ اس قدر اناج ہوگا کہ سنبھالا نہیں جاسکے گا۔ دھیرے دھیرے پانی اتر جائے گا بستیاں پھر سے بس جائیں گی۔ زخم مندمل ہوجائیں گے لیکن آزمائش کی اس گھڑی میں پیش آنے والے بعض دلخراش واقعات تمام عمر روح کو زخمی کرتے رہیں گے۔ لٹے پٹے لوگوں کو لوٹ لینا تو عام سی بات ہوگئی ہے‘اب تو اس خبر میں بھی اتنا کرب نہیں رہا کہ اغواء برائے تاوان کے دو نوجوان درخت سے بندھے تھے پانی آیا اغوا کار بھاگ گئے انہیں پانی نگل گیا۔ شدت تو اس بات میں بھی نہیں رہی کہ ایک ہسپتال کے لیبر روم میں زچگی کے انتظار میں موجود خواتین کو پانی بہاکر لے گیا‘ دکھ ملال اور ندامت کا مقام تو یہ ہے کہ بعض جگہوں پر بدبختوں نے نشہ آور کھانا کھلاکر کئی گھروں کی نوجوان لڑکیاں اٹھالیں۔ یہ بے غیرتی کا سیلاب ہے‘ سیلاب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں‘ ضروری نہیں کہ سیلاب کے لئے آسمان سے پانی ہی اترے‘ بعض قوموں پر آسمان نے پتھر پھینکے آگ برسائی‘ تاریخ کے سینے میں بحیرہ مردار نے سدوم اور عمورہ جیسے شہروں کو عبرت کا نشان بنادیا ہے‘ وہ لوگ بے راہ روی کے سیلاب میں پھنس گئے تھے۔
پاکستان بھی بہت سارے سیلابوں میں گھرا ہوا ہے‘ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کا سر عام لرزہ خیز قتل‘ انتظامی بے رحمی کے سیلاب کا غماز ہے‘ ہزارہ کے ضلع ہری پور سے ایک بیوہ نے ایف آئی آرکی کاپی بھجوائی ہے لکھا ہے اس کا خاوند تصور شاہ ولد رحمن شاہ لاہور کے تھانہ کانا کاچھا کی حدود میں قتل ہوا تھا۔ ایک سال گزرگیا پولیس لاہور سے ہری پور آتی ہے۔ قاتلوں کے ہاں مہمان ٹھہرتی ہے‘ شکار کھیلتی ہے‘ سیر کرتی ہے واپس پلٹ جاتی ہے‘ یقینا یہ پولیس گردی کا سیلاب ہے۔ سب سے زیادہ شرم ناک سیلاب رشوت کا ہے‘ جس نے ہمیں اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ قوموں کی برادری میں حالیہ بارشوں میں کوئی ملک ہماری مدد کو آنے کے لئے تیار نہ تھا۔ خدا بھلاکرے افواج پاکستان کا جو میدان میں اتری تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ پاکستان کے بہت سارے قومی سطح کے ادارے انتظامی بے حسی کے سیلاب میں پھنس کر آفت زدہ قرار پاچکے ہیں۔ فضاؤں کو مسخر کرنے والی قومی ایئر لائن بھی سیلاب زدہ ہے‘ پاکستان ریلوے کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں‘ سٹیل ملز کی حالت تو اس سے بھی ابتر ہے۔ گوادر پورٹ کے سیلاب کا تو قوم کو پتہ بھی نہیں ہے‘ گوادر کے پانیوں کی مطلوبہ گہرائی نہ ہونے کی وجہ سے آج تک ایک بھی بین الاقوامی بحری جہاز وہاں لنگر انداز نہ ہوسکا‘ اربوں کی لاگت سے مکمل ہونے والا وہ منصوبہ عدم توجہی کے سیلاب میں آیا ہوا ہے‘ دور دور تک کوئی زندگی نہیں بس ایک ہوٹل حکمرانوں نے اپنے سیر سپاٹے کے لئے بنوایا ہوا ہے‘ جاتے ہیں ٹھہرتے ہیں پلٹ آتے ہیں‘ کالا باغ ڈیم بھی ایک ایسا قومی اثاثہ تھا جو بننے سے پہلے ہی ڈبودیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں علم الاعداد کے ماہر حاجی محمد اشرف جن کو قاف لیگ کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اپنا مرشد مانتے ہیں‘ جنہیں عالمی مرتبت آصف علی زرداری کے کمر درد کا روحانی علاج کرنے کا اعزاز حاصل ہے‘ گزشتہ روز ملے تو کہنے لگے‘ امریکی صدر باراک حسین اوباما کی لہریں انہوں نے قابو کی ہوئی ہیں کوئی کام ہے تو بتاؤ‘ میں نے کہا اوباما میرے کس کام کا ”بھئی پاکستان کے لئے کوئی کام کرالو“ اوباما سے کہو کالا باغ ڈیم بنوادے اب حاجی صاحب نے علم الاعداد کی روشنی میں دیکھ کر بتایا کہ پیپلز پارٹی دس مرتبہ بھی اقتدار میں آئے تو کالا باغ ڈیم نہیں بنوائے گی‘ بلکہ اس کے بعد بھی آنے والی حکومت کالا باغ ڈیم کے نام پر ووٹ تو لے گی لیکن ڈیم نہیں بنائے گی‘ کالا باغ ڈیم کبھی نہیں بنے گا۔


تازہ ترین