(پہلی قسط)
بے شمار انبیاء کرام کاآبائی علاقہ اور جائے ولادت… معراج نبوی کاپہلا سٹاپ ارض مقدسہ …فلسطین…فلسطین کا شہر… یروشلم …اور اس میں واقع بیت اللہ کے بعد دنیا کی دوسری قدیم ترین…اور کعبہ و مسجد نبوی کے بعد تیسری مقدس ترین مسجد… مسجدا لاقصیٰ …بقول قرآن کریم ،ایک بابرکت ماحول والا علاقہ…الذی بارکنا حولہ… اللہ کی بے شمار نشانیوں سے بھری ہوئی سرزمین… کی زیارت …ایک قدیمی بلکہ فطری خواہش تھی۔ بچپن ہی سے ارض فلسطین پر اغیارکے قبضے،ایک نئے ملک اسرائیل کازبردستی ارض فلسطین پرمعرض وجود میں آنا، فلسطینی باشندوں پر جبر و قہرکی ان گنت داستانیں ،فلسطینی حریت پسند رہنما یاسر عرفات ، لیلی خالد وغیرہ کی جدوجہد کی داستانیں کے کارنامے، صابرہ وشتیلا کیمپوں پر اسرائیلیوں کے ستم و قہرکی خون آلود داستانیں سنتے آئے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی تعلیم کے دوران کئی فلسطینی دوستوں سے بہت بے تکلفی اور محبت تھی، اس وقت تو فلسطین جانے کاکبھی سوچا بھی نہ تھا۔برسوں پہلے بھی فلسطین جانے کاپروگرام ترتیب دیاگیاتھا ۔لیکن بوجوہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، حرمین شریفین،کئی عرب اور یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ جانے کااتفاق ہوتارہا لیکن بیت المقدس جانے کی خواہش محض ایک آرزو ہی رہی۔ چند برس پہلے بریڈفورڈ سے ایک دوست گھریلو ناچاقی کیس کے سلسلے میں آئے تو انہوں نے مسجداقصیٰ کے امام کا فتوی پیش کیا۔پھر امام صاحب سے فون پربات بھی کروائی، امام صاحب نے بڑی محبت سے فلسطین آنے کی دعوت و ترغیب دی۔ 19/4/2017 کوپاکستان جانے کیلئے پابارکاب تھاکہ برمنگھم سے برادرعمریاسین صاحب کامیسج ملاکیا آپ ہمارے ساتھ فلسطین کے سفر پہ چلنے کیلئے تیار ہیں ؟ میں نے استخارہ کیلئے وقت مانگااورتین دن بعد ہاں کردی ، اپنا اوراہلیہ کاپاسپورٹ بمع اخراجات سفربھجوادئیے۔ 19مئی کو پاکستان سے واپس آیاتوعمربھائی نے خوشخبری سنائی کہ مانچسٹر سے تل ابیب کیلئے11جولائی کی بکنگ ہوچکی ہے،پاکستانی پاسپورٹ کا حامل شخص تو فلسطین کاسفرسوچ بھی نہیں سکتا لیکن برٹش پاسپورٹ کیلئے توویزے کی بھی ضرورت نہیں ہے،ہمارے قافلے میں مزید بارہ افراد بھی شامل تھے ۔منگل11جولائی کو صبح ہم مانچسٹرائرپورٹ پہنچے۔ عمر بھائی کے والد ڈاکٹریاسین اپنے قافلے کے ہمراہ انتظار میں تھے۔ کاؤنٹر پہ جانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ دس دس کلودستی سامان ہی تھا۔ چونکہ یہ اکانومک فلائٹوں کے اندر کچھ بھی سرو نہیں کیاجاسکتا، کھاناآپ جہاز میں لےجاسکتے ہیں لیکن پانی کی بوتلیں ائرپورٹ کے اندر سے ہی خریدنی پڑتی ہیں، ہم نے بھی کافی مقدار میں کھاناساتھ لے لیا تھااور پانی کی دو بڑی بڑی بوتلیں ائرپورٹ سے خریدلی تھیں۔ جہاز میں کافی اور چائے کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ایک کپ پونے تین پونڈکاملتاہے اور وہ بھی سستالگتاہے۔ جہاز میں جب سوار ہوئے تو مسلمان صرف ہم ہی تھے باقی سب یہودی تھے اور خاصے مذہبی تھے، ان میں عورتیں ، مرداور بچے جو اپنے مخصوص حلیہ لمبی لمبی لٹوں اور چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں جو پن لگاکر قابوکی ہوئی تھیں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ، اپنے چچازاداؤں کو ( کیونکہ ہم حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں اوریہ حضرت اسحق علیھم السلام کی) اتنی کثیر تعداد میں ایک ساتھ دیکھنے کاپہلا چانس تھا۔اور ان لوگوں کا کرخت رویہ، تنے چہرے ، ہمہ وقت گھومتی گھورتی آنکھیں ان کے یہودی ہونے کی نشاندہی کررہی تھیں۔ ساڑھے چار گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہم تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پراتر گئے۔ یہ علاقہ ’’لد‘‘کا ہے ، جہاں دجال حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوگا۔ (باب لد کی جگہ کی نشاندھی کیلئے وہاں ایک گنبد سا بنا ہواہے واپسی پر ہم نے وہ دیکھاہے)۔ طیارہ لینڈ کرنے سے پہلے ہیWi-Fi کے ذریعے فون آن ہوگیا ہم نے اپنے چند عزیزوں کوپاکستان اپنے فلسطین پہنچنے کی خوشخبری سنا دی ۔
بن گوریان کافی بڑا ہوائی اڈا ہے، لیکن بے نورسا۔ امیگریشن کاؤنٹرز پر بڑا رش تھا ۔ ایک طرف ذرا اژدھام کم تھا۔اس جانب ہم بھی قطارمیں لگ گئے ۔ ہمیں پہلے ہی سے بتادیاگیاتھاکہ اسرائیل ائرپورٹ پر ممکن ہے،انٹری کلیئرنس حاصل کرنے میں تاخیرکا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اسرائیلی مسلمانوں کایہاں آنا پسند نہیں کرتے،اس لیے دیگر ائرپورٹس کی نسبت یہاں کسی کوجلدی نہیں ہوتی کہ کونسا ماں باہر انتظار کررہی ہوتی ہے یوں بھی ہم اپنے سگے بھائیوں (سعودی ائرپورٹس پر) بلاوجہ گھنٹوں انتظار کے عادی ہیں یہ توپھر برسرپیکارکزنوں کاائرپورٹ ہے۔ میری باری آئی تو میں نے اپنااور ام فریال کاپاسپورٹ کاؤنٹر پر رکھ دئیے ۔ نوجوان لڑکی نے بڑے سپاٹ چہرے کے ساتھ پاسپورٹ لے کر وہی معروف دو سوال کیے بلکہ خود ہی جواب دیے کہ پہلی دفعہ آنا ہوا؟ کب تک ٹھہرنا ہے یہاں کوئی ملنے والا تو نہیں ہوگا۔ مجھے جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، بلکہ میں نے صرف ایک بات کہی کہ ہم یہاں پہنچ کربہت خوش ہیں اور بار بار آنا چاہیں گے۔ اس نے صرف یہ کہایہاں آکر بہت خوش ہو اور مجھے پاسپورٹ اور اس کے ساتھ انٹری کلیئرنس کارڈ تھما دیا۔…لیکن ام فریال کاپاسپورٹ یہ کہتے ہوئے رکھ لیاکہ چند سوالات کرنے ہیں۔ میں نے کہاکرلو،بولی نہیں یہاں ایک سسٹم ہے تم اگرچاہو تو چلے جاؤاگر اہلیہ کے ہمراہ انتظار کرنا چاہو تو تمہاری مرضی۔اسی طرح میرے گروپ کے چند اور ساتھیوں کوبھی روک لیاگیا۔ ہم انتظارگاہ میں چلے آئے۔ وہاں بے شمار لوگ انٹری کلیئرنس کے انتظارمیں نظر آئے۔ کچھ خواتین مصرسے تھیں انہیں پچھلے تین گھنٹے سے انتظار میں بٹھایاہوا تھا۔ ایک نوجوان لیبیاکاتھا نمازعصر کاوقت ہواتواس نوجوان نے ایک کونے میں نمازکی نیت باندھ لی، اہلیہ نے بتایاکہ جونہی اس نے نماز پڑھنی شروع کی تو اسرائیلی آفیسرز اس کے اردگرد منڈلانا شروع ہوگئے۔دل میں خیال آیا کہ کرتوت دیکھو اور ان کی امیدیں دیکھو کہ جنت میں جاناچاہتے ہیں اور مالک کائنات کے نام لیوائوں کے ساتھ عداوت و بغض کاعالم کیاہے ؟۔پھریادآیاکہ یہ ہمارے کزن وہی ہیں جوایک دن میں ستر ستر نبیوں کوشہیدکردیاکرتے تھے اور ذرا بھی ملال نہ ہوتا تھا۔میں نے بھی وہیں نماز پڑھ لی۔ نماز کے بعدہم نے کھانے پینے کاسامان نکالااوروہیں دسترخوان جما لیا۔دو گھنٹے کے بعد اہلیہ کو دفتر میں بلاکرکہاگیاکہ والد اور داداکے نام لکھ دو جو لکھ دیے گئے۔ لیکن ابھی بھی پاسپورٹ نہ دیا کہا باہر انتطار کرو ۔ ہمارے شریک سفربرمنگھم سے سالیسٹر آفتاب اور میری اہلیہ کو تو دوگھنٹے بعد جانے کی اجازت مل گئی۔جب ہم نے انٹری پاس پر ٹائم دیکھا تووہ وہی تھا جو میرے کارڈ پر لکھاتھایعنی5.16منٹ یعنی میرااوراہلیہ کوویزہ اسی وقت دیا گیاتھا لیکن انہیں یونہی بٹھا دیاگیا۔جب کہ ہمارے رہنمائے سفر ڈاکٹر یاسین کاانتظار تو بہت طویل ہوگیا۔ ساراقافلہ کلیئر ہوچکاتھا۔ڈاکٹر صاحب نے کہاآپ جائیں پہلے ہی تین چارگھنٹے ائرپورٹ پر گزرچکے ہیں۔ باہر ویگن آئی ہوئی ہے آپ سب کولیجانے کیلئے۔ میں نے بہت کہاکہ ہم مزیدگھنٹہ انتظار کرلیتے ہیں ہمارے لیے ائرپورٹ پرانتظارکرناکوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نہیں مانے اور ہم ائرپورٹ لاؤنج میں آگئے، وہاں چائے یاکافی کی طلب ہوئی ۔ لیکن کوئی شاپ نظرنہ آئی ۔ ایک جگہ کارڈ ڈال کرکافی کاکپ ملتاتھا میں نے ویزاکارڈ اس میں سکریچ کیا۔ پیسے تو کٹ گئے لیکن کافی کی طرف کوئی حرکت دکھائی نہ دی۔ کپ اسی طرح لٹکے ہوئے تھے ۔ میں نے جو انہیں ہلایا تو ایک چھوٹاساکپ میرے ہاتھ میں آگیااس میں کافی تھی ۔ جو کچھ ٹھنڈی ہوچکی تھی۔عام کپ سے آدھاکپ یعنی چھ شیکل سوا پونڈ میں آدھا کپ ؟ خیال ہوا کہ ہم اسرائیلی ائرپورٹ پر ہیں جو خود کو نہیں اللہ کو بھی طعنے دینے والے لوگ ہیں کہ اس کاہاتھ بڑا تنگ ہے {وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ}(نعوذ باللہ) بہرحال پھر بھی غنیمت جانا۔وہیں ایک جرمن خاتون بھی امیگریشن سے فارغ ہوکرآئی تھی روہانسی ہورہی تھی بتانے لگی کہ میرے خاوند کا سر نیم محمدہے اور ان یہودیوں نے مجھے بہت تنگ کیا۔حالانکہ میں عیسائی ہوں ۔ام عمرنے ہمیں باہرچلنے کاکہاتووہاں ایک خاتون انتظار کررہی تھی ۔بھاگی بھاگی آئیں اورگرمجوشی سے ہماری خواتین کوخوش آمدیدکہاکہ میں چار گھنٹے سے آپ کیلئے منی بس لے کر یہاں انتظار کررہی ہوں ہم سب قافلے والوں کوانہوں نے منی بس میں بٹھایا اور کہا ویلکم ٹو فلسطین اینی ہاؤ ۔ یہ بی بی مریم تھیں ۔اپنے بچوں کے ساتھ بیت المقدس کے ایک مختصر سے حجرے میں نسلاً بعد نسل مقیم خاتون، باپ بھائی خاوند مسجداقصیٰ کے سیکورٹی گارڈ تھے ، باپ کوتو یہودیوں نے شہیدکردیا۔بھائی گم ہے اور خاوندکاپتہ نہیں مریم انگلش اورعربی بڑی روانی میں بول لیتی ہیں۔ ڈرائیور فلسطینی ہے ، وہ انگریزی بالکل نہیں جانتا لیکن ہنس مکھ ہے ، ہمارے ساتھ ایک اور خاندان جو امریکہ سے آیاتھاان کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ تھے ، انہیں جب پتہ چلا کہ قافلے میں مجھے تھوڑی سی عربی زبان کی شدبد ہے تو پھر انہوں نے معلومات عامہ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔گھنٹے بھرکی ڈرائیوکے بعدہم یروشلم پہنچ آئے ۔ رات میں باہرکانظارہ صرف لائٹیں ہی تھیں ، ان کے سوا کچھ نظرنہ نظر آیاحالانکہ ہمیں بڑا اشتیاق تھا۔ المسعودی ایریامیں واقع وکٹوریہ ہوٹل اترے اور ریسپشن میں ایک ایک سینڈوچ کھانے کودیاگیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر یاسین صاحب بھی ٹیکسی کے ذریعے ہوٹل پہنچ چکے تھے، ڈاکٹر صاحب نے نمازتہجد کے وقت مسجد اقصی جانے کاپروگرام دیدیاکہ صبح تین بجے ہوٹل کی لابی میں پہنچ جائیے گا۔پھر ہمیں اپنے اپنے کمرے دکھادیے گئے ہماراگروپ سیکنڈفلورپرتھا 211نمبر کمرہ ہمیں الاٹ ہوا ہم نے وضوبناکرمغرب وعشاء پڑھ کرآرام کیاحالانکہ مسجد اقصی دیکھنے کااشتیاق آرام کرنے کی نسبت بہت زیادہ تھا لیکن وہاں صبح ہی جاناہوگاپروگرام کے مطابق۔ (جاری ہے)