• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت کے موضوع پر ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان پچھلے دنوں رونما ہونے والے کشیدگی کے تاثر کی بناء پر قومی سطح پر بالعموم یہ اندیشہ پایاجارہا تھا کہ ہفتے کی شام ہونے والی افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس بڑی دھماکہ خیز ہوگی ۔ وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان پر کہ فوجی ترجمان کو معیشت پر تبصروں سے گریز کرنا چاہیے ، ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے ادارے کی ترجمانی کرتے ہوئے خاصے جارحانہ ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔حتیٰ کہ سوشل میڈیا میں اڑتالیس گھنٹوں کے اندر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں مارشل لاء کے نفاذ کی پیش گوئیاں بڑے یقین اور تواتر سے کی جارہی تھیں اور وزیر اعظم تک اپنے خطابات میں بار بار کہہ رہے تھے کہ قومی سلامتی اور ترقی کا جمہوریت کے سوا کوئی راستہ نہیں، غیر جمہوری حکومتیں یا غیر منتخب ٹیکنو کریٹ حکمراں ملک کے مسائل حل نہیں کرسکتے ۔ لیکن فوجی ترجمان کی جانب سے ایسی کوئی چیزسامنے نہیں آئی بلکہ اپنی بنیادی گفتگو میں انہوں نے قومی معیشت کے حوالے سیاسی اور فوجی قیادت کے حالیہ بیانات پر کوئی بات ہی نہیں کی۔ ان کی پریس کانفرنس کا اصل موضوع پانچ سال قبل افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں اغواء ہوجانے والےکینیڈین خاندان کی بازیابی سے متعلق تھا ۔ قومی معیشت پر عسکری قیادت اور حکومتی شخصیات کے درمیان پائے جانے والے کشیدگی کے تاثر پر اپنا موقف میجر جنرل آصف غفور نے فوج کے ریسکیو آپریشن کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد سوالات کے جواب میں نہایت متوازن اور معتدل انداز میں پیش کیا۔قومی معیشت پر اپنے حالیہ تبصرے کے ان الفاظ پر کہ ’’ ہماری معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے جو کچھ کہا وہ اس سیمینار میں ظاہر کیے گئے خیالات کا خلاصہ تھا جو چند روز پہلے کراچی میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت اور آئی ایس پی آر کے تعاون سے قومی معیشت اور ملکی سلامتی کے موضوع پر ہوا تھا اور جس سے آرمی چیف نے بھی خطاب کیا تھا ۔واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے تبصرے کے ان ہی الفاظ پر وفاقی وزیر داخلہ نے جو اس وقت امریکہ کے دورے پر تھے فوری طور پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی ترجمان کو قومی معیشت پر منفی تبصرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں غلط تاثر ابھرتا ہے جبکہ حکومت کو درپیش تمام سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے باوجود ملکی معیشت چار سال پہلے کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ بہتر اور مستحکم ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے اس سخت ردعمل کی وجہ سے یہ تاثر عام تھا کہ فوجی ترجمان سیاسی حکومت کی خبر لیں گے اور یہ کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھے گی جس سے منتخب حکومت کے خاتمے اور کسی نہ کسی شکل میں فوجی قیادت کے زیر سرپرستی کسی نئے حکومتی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہوگی لیکن فوجی ترجمان نے ایسی تمام افواہوں کو رد کرتے ہوئے غیرمبہم الفاظ میں یقین دہانی کرائی کہ’’ جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج آئین اور قانون کے منافی کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اداروں میں اختلاف رائے نہ ہوتا ہو، لیکن فیصلہ آئینی حکومت ہی کا ہوتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ اکیلے کام نہیں کرسکتا، معاملات اداروں کے اشتراک عمل ہی سے چلتے ہیں اور فوج تمام معاملات میں منتخب حکومت کے فیصلوں کی پابندی کررہی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے فوجی ترجمان کے اس بیان کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہوئے اسے امید کا پیغام قرار دیا اور اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ سول اور عسکری قیادت مل کر قوم کو پراعتماد کرتے رہیں گے ۔یہ یقینا ًنہایت امید افزاء پیش رفت ہے ، تمام ریاستی اداروں کو اسی جذبے کے ساتھ قومی تعمیر وترقی کے لیے یکسو ہوکر کام کرنا چاہیے اور اختلافی امور کو حتی الامکان متعلقہ فورموں ہی میں نمٹالیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین