وزیراعظم کو ان کی کابینہ کے وزیروں کے بارے میں کیسے گمراہ کیا جاتا ہے ؟ وزیر اشتعال میں آکر کابینہ سے استعفیٰ کیسے دیتے ہیں؟ آیئے ان سوالات کا جواب ایک اہم تاریخی واقعے کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا تو ان کی کابینہ کے کچھ وزراء نے انہیں مشورہ دیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ مشورہ دینے والوں میں جے اے رحیم اور معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ ان کے مشورے کے کچھ دن بعد خفیہ اداروں نے جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے خلاف وزیراعظم کو رپورٹیں دینا شروع کردیں۔ معراج محمد خان کے خلاف جنرل گل حسن اپنی برہمی کا کھل کر اظہار کرتے تھے اور کہتے کہ اس ”کمیونسٹ“ کو کابینہ سے نکالا جائے کیونکہ یہ فوجی افسروں کی تذلیل کرتا ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے معراج محمد خان کو کابینہ سے نکالنے سے انکار کردیا تو انٹر سروسز انٹلی جنس نے معراج محمد خان کے بارے میں وزیراعظم کو ایسی رپورٹیں دیں جن سے بہت غلط فہمیاں جنم لے سکتی تھیں۔ ایک طرف وزیراعظم کو بھڑکایا گیا دوسری طرف نوجوان معراج محمد خان کو اشتعال دلایا گیا لہٰذا 1975ء میں انہوں نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ وزیراعظم کو پتہ چلا کہ معراج محمد خان آنکھوں کے علاج کے لئے اسپتال میں داخل ہیں۔ وزیراعظم نے ان کی عیادت کا فیصلہ کیا تو خفیہ اداروں نے دعویٰ کیا کہ معراج محمد خان دوران عیادت وزیراعظم پر حملہ کرسکتا ہے۔ 1976ء میں جنرل ضیاء الحق آرمی چیف بن چکے تھے۔ ایک دفعہ کوئٹہ میں فوجی کمانڈروں کے ایک اجلاس میں جنرل ضیاء نے مطالبہ کیا کہ معراج محمد خان کو حیدر آباد سازش کیس میں شامل کیا جائے کیونکہ وہ بھی بلوچستان میں تخریب کاری کروا رہا ہے۔ اس اجلاس میں عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل، علی بخش تالپور اور علی احمد تالپور کو بھی تخریب کار قرار دیا گیا۔ حیدرآباد سازش میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی قیادت پہلے سے گرفتار تھی اور فوجی جرنیل معراج محمد خان کو بھی دباؤ ڈال کر گرفتار کرانا چاہتے تھے۔ وزیراعظم بھٹو نے ٹال مٹول سے کام لیا تو جنرل ضیاء نے کہا کہ معراج محمد خان ہر وقت وزیراعظم کو گالیاں بکتا ہے اور جو شخص میرے وزیراعظم کو گالیاں بکتا ہے وہ حرام زادہ ہے۔
مذکورہ بالا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ”افواہ اور حقیقت“ کے صفحہ 74 اور 75پر موجود ہے۔ یہ کتاب محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر صفدر عباسی نے 1993ء میں شائع کروائی تھی۔ کتاب شائع ہونے کے کچھ عرصے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو ایک دن جنرل ضیاء الحق سے قربت رکھنے والے ایک بزرگ کالم نگار کی ان سے ملاقات کروائی گئی اور موصوف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی سائے سے باہر آجائیں، ان کی کتابوں اور تحریروں کو بھول جائیں کیونکہ غصے اور مایوسی کے عالم میں لکھی گئی یہ تحریریں فوج کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔ محترمہ نے جواب میں کہا کہ میرے والد نے فوج کے خلاف نہیں بلکہ چند جرنیلوں کے کردار پر تنقید کی تھی۔ دوسرے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو بہت محتاط تھیں لیکن کچھ ہی عرصے میں ان کی اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق احمد خان لغاری اور ان کے درمیان شدید غلط فہمیاں پیدا کردی گئیں۔ ایک دن صدر لغاری نے میرے سامنے وزیراعظم کے طرز حکمرانی کے بارے میں ناقدانہ رائے کا اظہار کیا۔ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی لہٰذا میں خاموش رہا لیکن اگلے دن وزیراعظم نے مجھے بلالیا اور پوچھنے لگیں کہ فاروق بھائی آپ کو میرے متعلق کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے ٹال مٹول کی تو انہوں نے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ…”مجھے فاروق بھائی کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے اور کہا گیا ہے کہ حامد میر کو بلاکر پوچھو اسے سب پتہ ہے کہ ایوان صدر میں آپ کے بارے میں کیا گفتگو ہوتی ہے“۔
مجھے بھی صورتحال کی نزاکت کا احساس تھا لہٰذا میں نے تفصیلات میں جانے کی بجائے موضوع بدل دیا اور ہاتھیوں کی لڑائی کا حصہ بننے سے گریز میں عافیت سمجھی، لیکن یہ لڑائی ہے کہ رکتی ہی نہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی ہاتھی کو اشتعال دلاتا رہتا ہے۔ اشتعال کی اسی سیاست کے ہاتھوں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر دفاع احمد مختار، وزیر داخلہ رحمن ملک سمیت کئی وزراء ، اپوزیشن ارکان چوہدری نثار علی خان، پرویز رشید، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور موجودہ پارلیمینٹ کے نصف سے زائد ارکان جیلوں کی ہوا کھا چکے ہیں لیکن انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ پرانی سازشیں نئے انداز میں دوبارہ شروع ہوچکی ہیں لیکن سازشی عناصر بہت کمزور ہیں۔ نہ تو یہ جنرل ضیاء الحق کا دور ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی قیادت کسی حیدرآباد سازش کیس میں ملوث ہے۔ فوجی افسران اور جوانوں کی اکثریت سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے تاہم جنرل پرویز مشرف کی کچھ باقیات اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم کو ان کی کابینہ کے کچھ ارکان کے بارے میں بھڑکایا جارہا ہے تو دوسری طرف حکومت اور عدلیہ، حکومت اور میڈیا اور حکومت اور اپوزیشن کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ یہ سازشیں صرف اور صرف حکومت کی اپنی نااہلیوں سے جنم لے رہی ہیں۔ نواز شریف ان نااہلیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے لیکن انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ایسی صورت میں انہیں ایم کیو ایم کے ساتھ کسی ایسے سمجھوتے کا حصہ بننا پڑے گا جو ان کے ووٹ بینک کو متاثر کرسکتا ہے۔ نواز شریف بہت جلد ایک ایسا موقف اختیار کریں گے جو صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی، آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ اور اعلیٰ عدلیہ کو بھی امتحان میں ڈال سکتا ہے۔ یہ امتحان اس وقت شروع ہوگا جب این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے حامیوں کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ این آر او پر دستخط کرنے والے، آئین توڑنے والے اور ججوں کو گرفتار کرنے والے جرنیل کا محاسبہ کون کرے گا اور اسے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کرنا توہین عدالت تھی یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں خاموشی ناقابل قبول ہوگی کیونکہ خاموشی کا مطلب سازش کی حمایت ہوگا۔