• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈو مور ، نو مور ۔ پاکستان میں اس وقت ہر طرف ان دو الفاظ کا چرچا ہے ۔ یوں تو میدان ہائے سیاست و صحافت میں ڈو مور اور نومور کا غلغلہ کچھ عرصہ سے بلند ہوا ہے لیکن پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ دوطرفہ طور پر ان دو مطالبات کے گرد گھومتے رہے ۔ بیس اکتوبر 1947 کو پاکستان اور امریکہ کی طرف سے اس ڈومور اور نو مور کے چکر کا آغاز ہوا اورپہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی طرف سے سوویت بلاک کی بجائے امریکی بلاک میں شمولیت کا فیصلہ ،بنیاد ی طور پر امریکہ کے ڈو مور پر رضامندی اور سوویت بلاک کو نومور کہنے کے مترادف تھا۔ سیٹو اور سینٹو میں شمولیت کے ساتھ ساتھ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے بڈھ بیر میں امریکہ کو اڈہ فراہم کیا تو وہ امریکہ کے ہر ڈومور پر آمناََ و صدقناََکہنے کا اظہار تھا جبکہ جواب میں امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد کے ذریعے پاکستان کے ڈومور کے جواب میں مہربانیوں کا آغاز کیا۔ تب پاکستان سوویت یونین کے معاملے میں تو امریکہ کے ڈومور کے ہر مطالبے کو پورا کرتا رہا لیکن چین کے بارے میں ہر ڈومور کے جواب میں پاکستان نے نو مور کا نعرہ لگایا ۔ دوسری طرف امریکہ سوویت یونین اور افغانستان کے فرنٹ پر پاکستان کے ہر ڈومور کا مطالبہ پورا کرتا رہا لیکن انڈیا اور کشمیر کے حوالوں سے وہ نومور کہتا رہا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے مواقع پر پاکستان امریکہ کے سامنے ڈو مور ڈومور کی صدائیں بلند کرتا رہا لیکن امریکہ نے ہر ڈومور کا جواب نومور کی صورت میں دیا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے پورے دور میں وہ قربتیں برقرار نہیں رہیں جوفیلڈمارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور میں رہیں ۔ افغانستان میں سوویت افواج کی آمد سے پاکستان اور امریکہ کی طرف سے نومور کا دور ختم اور ایک بار پھر ڈومور ڈومور ہونے لگا۔ امریکہ پاکستان سے سوویت یونین کے مقابلے کے لئے جہادی کلچر کو فروغ دینے اور پاکستان کو ہر حوالے سے فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے کے لئے ڈو مور ڈومور کے مطالبات کرتا اور جنرل ضیاالحق پورا کرتے رہے جبکہ جواب میں جنرل ضیاالحق اپنی ڈکٹیٹر شپ کو سندجواز فراہم کرنے اور ڈالروں کی بارش کے لئے ڈومور ڈومور کے مطالبے کرتے اور امریکہ پورا کرتا رہا۔اس عرصے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ کی خاموشی بھی پاکستان کے ڈومور کے مطالبے کا مثبت جواب سمجھا جاتا ہے ۔افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاکے بعد پاک امریکہ تعلقات میں نومور نومور کا موڑآیا۔ امریکہ نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر پاکستان سے ناطہ توڑ دیا۔ پاکستان پر پریسلر ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگادیں اور ایٹمی پروگرام سے متعلق ناجائز طور پرڈومور ڈومور کے مطالبے شروع کردئیے جس کے جواب میں پاکستان نومور نومور کہتا رہا ۔ پھر وہ وقت آیا کہ جب افغانستان میں طالبا ن کا ظہور ہوا ۔ پاکستان نے اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے لئے ان کو سپورٹ کرنا شروع کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور القاعدہ کی جنگ شروع ہوئی اور طالبان نے القاعدہ کو گلے لگایا ۔ اب امریکہ نے پاکستان سے ڈو مور ڈومور کے مطالبے شروع کئے کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائی کرے لیکن چونکہ کبھی بے نظیر بھٹو اور کبھی نواز شریف کی جمہوری حکومتیں رہیں ، اس لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نومور کہنے کی پوزیشن میں تھی اور امریکہ کے ہر ڈومور ڈومور کے جواب میں پاکستان نومور نومور کہتا رہا۔ تاریخ سے امریکہ نے یہ سبق سیکھا ہے کہ جب بھی جمہوری حکومت ہوتی ہے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس کے پردے کے پیچھے رہ کر نومور کہنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے جبکہ جمہوری حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے امریکہ کی مرضی کے مطابق وی ول ڈومور (We will do more) نہیں کہہ سکتیں ۔ چنانچہ امریکہ نے پاکستان کے اندر فوج کو اقتدار میں لانے کی درپردہ کوششیں شروع کردیں ۔ نوازشریف کو تسلی دی کہ نوازشریف قدم بڑھائو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں (بارہ اکتوبر سے کچھ عرصہ قبل شہباز شریف کے دورہ امریکہ اور اس موقع پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جمہوریت کے حق میں بیان یاد کرلیجئے) اور دوسری طرف درپردہ پرویز مشرف کو تھپکی دیتا رہا ۔ چنانچہ نوازشریف نے زعم کاشکار ہوکر اسٹیبلشمنٹ سے ڈومور کا مطالبہ شروع کردیا اور جواب میں جنرل مشرف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ نے ان سے ڈومور کے مطالبات شروع کردئیے ۔ نتیجہ بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کی صورت میں نکلا اور پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت یوں بدلی کہ جنرل پرویز مشرف ، امریکی صدر بل کلنٹن کی قدم بوسی کی التجائیں کرتا رہا لیکن جواب میں وہ نومور نومور کی صدائیں بلند کرتا رہا( وہ وقت یاد کرلیجئے کہ جب صدر بل کلنٹن ہندوستان کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد چند گھنٹے کے لئے پاکستان آئے تو انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ پریس کانفرنس میں نمودار ہونا بھی گوارا نہیں کیا اور یہاں انہوںنے حاکم کے طور پر سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر پاکستانی قوم سے خطاب کیا) ۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے ڈومور کی صدا بلند ہوئی تو جنرل پرویز مشرف نے حاضر جناب کہہ کر تابعداری کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا ۔ امریکہ نے ڈومور کا مطالبہ اس صورت میں کردیا کہ پاکستان طالبا ن کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے ایسا نہ کیا تو بقول جنرل پرویز مشرف کے ان کے ملک کو بمباری کرکے پتھر کے زمانے میں بھیج دیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے سرتسلیم خم کیا اور امریکہ کے ڈو مور ڈومور کے جواب میں وی ول ڈو مور اینڈمور (We will do more and more) کی صدا بلند کی ۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف نے امریکیوں کو سپلائی کی روٹ بھی دے دی ۔ ہوائی اڈے دئیے ۔ پاکستان کو سی آئی اے کے لئے چراگا ہ میں بدل دیا ۔ حتیٰ کہ وہ ڈرون جو پاکستان کے اندر حملے کر تے رہے بھی پاکستان کے ہوائی اڈوں سے اڑتے رہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت کی قبولیت اور فوجی یا مالی امداد سے متعلق ڈومور ڈومور کے مطالبات شروع کردئیے اور جواب میں امریکہ نے ایک بار پھر مہربانیوں کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے ان دنوں ایک بار پھر پاک امریکہ تعلقات بارہ اکتوبر 1999سے قبل والی حالت پر آگئے ہیں ۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چین کے ہر ڈومور کے جواب میں تووی ول ڈومور اینڈ مور کی صدا بلند کررہی ہے جبکہ دوسری طرف اس حوالے سے امریکہ کے ہر ڈومور کے جواب میں نومور نومور کی صدا ئیںآرہی ہیں ۔ اسی طرح افغانستان کے تناظر میں بھی پاکستان نومور کی پوزیشن میں آگیا ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے جب دھمکی دے کر اس ضمن میں ڈومور کی صدا بلند کی تو بغیر کسی توقف کے سب سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومور کا نعرہ مستانہ لگا دیا۔ ان کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کے سویلین اداروں نے بھی نومور نومور کی صدائیں بلند کردیں ۔ سیاسی حکومت کے نمائندے چین، روس اور ایران کا رخ کرگئے جبکہ قمرجاوید باجوہ نے افغانستان کو اعتماد میں لے کر امریکی گیم کی کایا پلٹ دی۔ چنانچہ امریکیوں کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔اس تناظر میں دیکھا جائے توپاکستان کے اندر جمہوریت کا ڈی ریل ہونا اگر کسی ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے تووہ جمہوریت کا چیمپئن امریکہ ہے اور یہاں اگرکسی ملک کو استحکام اور سول ملٹری ہم آہنگی سب سے زیادہ مطلوب ہے تو وہ غیرجمہوری ملک چین ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی محاذ پر میاں نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ڈومور ڈومور کا کھیل زوروں پر ہے ۔ میاں نوازشریف کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی سے لگ رہا ہے کہ انہیں پھر 1999 کی طرح تھپکی دے کر اعتماد دلایا جارہا ہے کہ نوازشریف قدم بڑھائو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سول ملٹری اداروں کو لڑانے کی شعوری کوششیں جاری ہیں ، اس سے اس سازش کی موجودگی کی سوچ کو مزید تقویت ملتی ہے ۔ بظاہر تو ہر فریق قوم کے اتحاد اور اتفاق کا درس دے رہا ہے لیکن شعوری یا غیرشعوری طور پر ہر فریق اداروں کو لڑانے کا عمل تیز تر کررہا ہے ۔ میاں نوازشریف ، ان کی صاحبزادی اور ان کےتابعدار وزراء ایک طریقے سے مارشل لا کو دعوت دے رہے ہیں تو آصف علی زرداری دوسرے طریقے سے ۔ عمران خان ، طاہرالقادری اور شیخ رشید تو گزشتہ پانچ سالوں سے فوج کے خودساختہ ترجمان بن کر اسے سیاست میں گھسیٹنے کے جتن کررہے ہیں ۔ میڈیا کا ایک حصہ جو جمہوریت کا علمبردار اور نوازشریف کا تابعدار ہے ، ایک طریقے سے عسکری اداروں کو اشتعال دلاکر اسے مداخلت پر مجبور کررہا ہے جبکہ دوسرا حصہ پورے خلوص اور تابعداری کے ساتھ فوج کا خودساختہ ہمدرد اور ترجمان بن کر دوسرے طریقے سے مارشل لاکو دعوت دے رہا ہے ۔ کچھ اینکرز تونیم پاگل ہوگئے ہیں اور ان کی کیفیت یہ نظر آتی ہے کہ اگر مارشل لا نہ لگا تو وہ مکمل پاگل ہوجائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں امریکہ کی خواہش کیوں اور کب تک پوری نہیں ہوگی ؟۔ جتنے ہم پاکستانی سویلین جمہوریت کے علمبردار بن کر مارشل لا کے نفاذ کے لئے بے چین ہیں ، اس سے زیادہ جمہوریت کا علمبردار امریکہ پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کا متمنی ہے ۔ ان حالات میں آخر یہ بیچاری جمہوریت کب تک بچی رہے گی ۔

تازہ ترین