میرے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوستو!
گزشتہ ہفتے مجھ سے ایک غلط بیان منسوب کیا گیا تھا جس کے مطابق میں نے آئین میں فوج کے حکومتی کردار کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ آئین میں ریٹائرڈ جرنیلوں کا حکومتی کردار ہونا چاہئے۔ حاضر جرنیلوں کی میں نے بات نہیں کی کیونکہ ان کے لئے تو ستّے ای خیراں ہیں۔ امید ہے آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کیونکہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد کسی سے 111بریگیڈکے اختیارات چین لینا بہت زیادتی ہے۔ مجھے امید ہے متعلقہ حلقے میری اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے کیونکہ دنیا فانی ہے، ایک دن ہم سب نے ریٹائر ہونا ہے۔ میرے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوستو! میں آپ سے بھی اپیل کروں گا کہ آپ میری اس فکر کو، میری اس سوچ کو، میرے اس فلسفے کو پوری قوت کے ساتھ پھیلائیں کیونکہ یہ قوم صرف ڈنڈے کی حکمرانی قبول کرتی ہے۔ میں جب وردی میں تھا تو میڈیا کے آج کے بعض جانبازوں سمیت سب لوگ کیسے بھیگی بلی بنے میرے سامنے پیش ہوتے تھے، سابقہ حکمرانوں کی کیسی کیسی غیبتیں کرتے تھے، جب میں نے ذرا نرمی دکھانا شروع کی تو آہستہ آہستہ یہ سب شیر ہوتے چلے گئے۔ میں اس موقع پر قوم سے اپنی ایک ایسی غلطی کی معافی بھی مانگنا چاہتا ہوں جس سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا اور یہ غلطی وردی اتارنے کی تھی جسے میں اپنی کھال سمجھتا تھا۔ میں سیاستدانوں کی باتوں میں آ گیا تھا اور اپنے بعض تجزیہ نگار دوستوں کے جھانسے میں بھی، جو کہتے تھے کہ آپ پاکستانی عوام میں بہت مقبول ہیں وہ آپ کو بغیر وردی کے بھی قبول کریں گے حالانکہ مجھے عقل سے کام لینا چاہئے تھا اور مجھے سمجھنا چاہئے تھا کہ کھال اتر جانے کے بعد تو انسان ویسے ہی ادھ موا ہو جاتا ہے۔ میں کوئی پرویز رشید، رانا ثناء اللہ یا انہی کی طرح کا کوئی دوسرا سیاسی کارکن تو نہیں تھا کہ کھال اترنے کے بعد بھی اٹھ بیٹھتا۔ یہ سب کچھ سیاسی کارکنوں ہی کو مبارک ہو۔ بہرحال میں آپ سب دوستوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آئین میں ریٹائرڈ جرنیلوں کے حق حکمرانی والی شق شامل ہو گئی تو اس کے بعد وہ غلطی کبھی نہیں کروں گا جس کا میں نے ابھی اعتراف کیاہے۔
میرے دوستو ! جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ”سب سے پہلے پاکستان“ میرا مشہور سلوگن ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں جو کہتا ہوں، وہ کرتا بھی ہوں چنانچہ اپنے دورِ اقتدار میں، میں نے پاکستان کو ہمیشہ آگے آگے رکھا چنانچہ پیچھے پیچھے نیٹو کی فوجیں آتی چلی گئیں۔ میں نے انہیں صاف کہہ دیا تھا کہ اگر چلنا ہے تو میرے پیچھے چلو چنانچہ میرے پیچھے آتے آتے اب وہ اندر ہیں اور میں باہر ہوں۔ میں جانتا ہوں پاکستانی عوام کو یہ بات پسند نہیں، لیکن مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے اقتدار میں نہ وہ لائے تھے اور نہ آئندہ لائیں گے ، مجھے تو اپنے سرپرستوں کی خوشنودی درکار ہے اور مولا خوش رکھے، انہوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ یورپ میں رہنا بہت مہنگا سودا ہے لیکن وہ لیکچرز وغیرہ کے نام پر ابھی تک میرا سارا خرچہ برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں وہی دنیا میں سرفراز ہوتی ہیں۔ مغربی اقوام نے اپنے اس ناچیز محسن کو یاد رکھا اور دیکھ لیں وہ ہر لمحہ ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ بہرحال اب میں میدان میں آ گیا ہوں اور مجھے آپ کا تعاون درکار ہے۔ میرا ارادہ فوری طور پر پاکستان آنے کا تھا لیکن مجھے پاکستان کے مختلف حصوں سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ وہاں لوگ بہت بے چینی سے میرا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے میرے استقبال کی مکمل تیاریاں کر رکھی ہیں۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ میری متوقع آمد کی خبر پر بلوچ قوم خصوصاً بہت زیادہ ایکسائٹیڈ ہے اور انہوں نے شرطیں لگا رکھی ہیں کہ ان میں سے کون استقبال کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ میری آمد کی خبر کے ساتھ ہی منڈی میں ٹماٹروں کی مانگ بہت زیادہ ہو گئی ہے اور یوں اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ گندے انڈے اب بیکریوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ استقبال کرنے والوں نے یہ جمع کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ جوتا سازی کی صنعت کو بھی بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ لوگ مختلف سائز اور مختلف ڈیزائن کے جوتوں کا آرڈر دے رہے ہیں۔ اس طرح عدلیہ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس نے میرے استقبال کے لئے اوورٹائم لگانا شروع کر دیا ہے تاہم مجھے یہ سب کچھ پسند نہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایئرپورٹ سے مجھے سیدھا جنرل اشفاق پرویز کیانی کے پاس لے جایا جائے۔ میں ان سے اپنی چھڑی واپس نہیں لینا چاہتا بلکہ انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے پاس جو چھڑی ہے وہ اسے جادو کی چھڑی بنا سکتے ہیں، بس اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے تاہم میرے لندن کے دوست مجھے بتاتے ہیں کہ جنرل صاحب بہت قناعت پسند ہیں مگر میرے دوستو ! امید پر دنیا قائم ہے، ویسے بھی بیرسٹر سیف خاں نے مجھے کہا ہے کہ پوچھنے میں کیا حرج ہے؟
آخر میں ، میں اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے دورانِ اقتدار بھی میرا ساتھ دیا اور آج بھی مجھے ان سے اسی تعاون کی امید ہے۔ میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ جوق در جوق آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوں اور ابھی سے اپنے ملازموں کے شناختی کارڈ اپنے قبضے میں لے لیں۔ میرا جی تو چاہتا تھا کہ میں اپنے خطاب کو طویل سے طویل تر کرتا چلوں کیونکہ بہت عرصے کے بعد ٹی وی چینلوں سے Live خطاب کا موقع مل رہا ہے لیکن اپنی ایک مجبوری کی وجہ سے تقریر ختم کرتا ہوں۔ دراصل یہ میرے ریاض کا ٹائم ہے۔ میرے ایجور روڈ والے گھر پر استاد دہی بڑے خاں صاحب میرا انتظار کر رہے ہیں۔ طبلچیوں کی جوڑی ڈاکٹر شیر افگن اور امیر مقام بھی میری منتظر ہے۔ اس کے علاوہ اداکارہ چھمکچھلو (جونیئر) بھی آج تشریف لا رہی ہیں چنانچہ فی الوقت اجازت چاہتا ہوں، آپ سے درخواست ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی شاخیں اپنے گھروں کے ڈرائننگ روموں میں قائم کریں اور میری پاکستان آمد پر ٹماٹروں ، گندے انڈوں ، جوتوں کی صنعت اور عدلیہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔پاکستان زندہ باد۔ امریکہ پائندہ باد!“ ۔
قارئین کرام! یہ تھی وہ اصل تقریر جو میں نے جنرل صاحب کو لکھ کر دی تھی لیکن سازش کے تحت میری لکھی ہوئی تقریر کی جگہ وہ تقریر جنرل صاحب کے سامنے رکھ دی گئی جو ان کے اصلی ووٹ بینک کو ان سے متنفر کرنے والی تھی۔
اضافہ: سیلاب زدگان کے لئے عطیہ دینے والوں کی فہرست میں محترمہ عمیرہ احمد کا نام رہ گیا تھا۔ جو دیگر احباب اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہیں وہ شہزاد احمد (0345-4211977) ، اصغر ندیم سید (0300-4586727) اور سید وصی شاہ (0300-4212450) کے علاوہ ای میل omarqasmi@yahoo.com پر رابطہ کر سکتے ہیں۔