سابق صدر پرویز مشرف نے سیاست میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد جو غیرمہذبانہ اور غیرمدبرانہ طرز عمل اختیارکیا ہے، اس نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے اور لوگ یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ ذاتی مفادات کی خاطر نائن الیون کے بعد افغانستان کی آگ کو اپنے ملک میں پھیلنے کا موقع دینے، ڈاکٹر عافیہ سمیت متعدد پاکستانیوں کو فروخت کرنے، لال مسجد کو انسانی خون سے نہلانے، مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر موقف اختیار کرکے مزید الجھانے اور قومی ہیرو ڈاکٹرعبدالقدیر خاں کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کرنے کے بعد کیا کسر رہ گئی تھی کہ اب ہماری سیاست میں ایک نیا چلن لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جرمنی کے ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر نے کشمیریوں کی تحریک آزادی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار ڈاکٹر قدیر کے بارے میں جو باتیں کہیں وہ بعض مبصرین کے نزدیک بھارتی اور اسرائیلی زبان ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر بھارتی لابی کو ایک بار پھر پاکستان دشمن پروپیگنڈہ کرنے اور کشمیری عوام پر ظلم وستم بڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے کہ اسلام آباد نے نئی دہلی کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں عسکری تنظیمیں تشکیل دیں۔ یہ بیان غیرذمہ دارانہ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نئے بین الاقوامی کھیل کا حصہ بھی معلوم ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا نے امریکہ اور مغربی دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سیاسی، سفارتی اور معاشی پابندیاں عائد کرے جبکہ بھارتی وزیر اطلاعات و نشریات نے پرویز مشرف کے بیان کو بھارت کے دیرینہ موقف کی تائید قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ نئی دہلی اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرے گا۔ پاکستان میں سیاسی اور عوامی حلقوں کو بلاشبہ سابق صدر کے اس بیان سے صدمہ پہنچا ہے مگر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اس دکھ اور مایوسی کی شدت کا اندازہ لگانا شاید بہت مشکل ہو جنہوں نے اپنی تین نسلیں حق خودارادیت اور پاکستان سے الحاق کی جدوجہد میں قربان کردیں، سیکڑوں گورستان شہداء کی قبروں سے بھر دئیے اور اس وقت بھی آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ناقابل تصور مظالم جھیل رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق آمر کا بیان کشمیر کی تحریک آزادی کو سبوتاژ کرنے اور آزادی کے متوالوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ سید علی گیلانی کا تاثر یہ ہے کہ سابق جنرل اور خود ساختہ صدر نے پوری ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوری کشمیری قوم پرویز مشرف کو غدار سمجھتی ہے۔ وطن عزیز کے سیاسی و عوامی حلقوں نے ، جن میں پرویز مشرف کی حکومت میں شامل افراد بھی شامل ہیں، ان کے بیان کو غیرسنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ فوج تربیت اور اسلحہ دیتی تو کشمیری عوام اسٹنگر میزائلوں اور راکٹ لانچروں کے ذریعے مقابلہ کررہے ہوتے۔ اگر تربیت فوج نے دی تھی تو مشرف کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول پر باڑھ کیوں لگوائی۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق آمر بیرون ملک سیاسی پناہ لینے کے لئے سارا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جہاں تک ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے خلاف پرویز مشرف کے ریمارکس کا تعلق ہے، پاکستانی قوم انہیں اپنا ہیرو اور محسن گردانتی ہے کیونکہ نئی دہلی اور اس کے ہمنواؤں کی تمام تر خواہشات کے باوجود پاکستان پر بڑی جنگ مسلط کرنے کے منصوبے ایٹمی ڈیٹرنٹ کی موجودگی کے باعث اب تک روبہ عمل نہیں لائے جاسکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے متعلق ”کردار سے عاری“ ہونے کی جو بات کہی گئی وہ اگرچہ آئینے میں اپنی ہی تصویر دیکھنے کی مثال تھی تاہم محسن پاکستان نے یہ کہہ کر بات صاف کردی کہ ”جو آدمی جیسا ہوتا ہے، اسے سب ویسے ہی نظر آتے ہیں“۔ سابق صدر نے، جو ملک سے باہر ہیں، یہ بیان جن مقاصد کے تحت دیا وہ سردست غیر واضح ہیں تاہم یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے بیانات سے ملک و قوم، کشمیریوں کی تحریک آزادی اور ملت اسلامیہ کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ نہ کرسکتے ہوں۔ دفتر خارجہ نے اچھا کیا کہ کشمیری مجاہدین کو تربیت دینے سے متعلق بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس کے خلافِ حقیقت ہونے کو ظاہر کردیا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو دشمنوں سے زیادہ اپنے اندر کے جاہ پسندوں اور ہوس اقتدار کے مارے ہوئے عناصر سے نقصان پہنچا۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، ماناودر، منگرول کو ہڑپ کرنے۔ گوادر، دمن، دیوپر بزور طاقت قبضہ کرنے۔ کئی پڑوسی ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنے۔ کشمیر پر فوج کے ذریعے مسلط ہونے اور پاکستان کے مشرقی بازو کو الگ کرنے والا ملک خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مداخلت کرنے کے باوجود پاکستان کے خلاف مہم چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ایک ایسے وقت جبکہ نئی دہلی اور اس کے ”فطری ہمنواؤں“ کی طرف سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانے کے لئے کئی ڈرامے اسٹیج کئے جاچکے ہوں اور مزید کا امکان اسلام آباد کو دی گئی دھمکیوں سے واضح ہے، سابق صدر کے بیان نے پاکستان دشمن قوتوں کو ایک موثر ہتھیار فراہم کردیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت سے 86/سال کی سزا سنائے جانے کے بعد مین ہٹن کی فیڈرل کورٹ بھی ٹائمز اسکوائر دھماکہ سازش کیس میں پاکستان نژاد فیصل شہزاد کے لئے عمر قید کا حکم صادر کرچکی ہے اور نیٹو ہیلی کاپٹروں کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر فضائی حملے کے واقعے کے بعد پاک فوج اور ایساف کی مشترکہ ٹیم کی ابتدائی تحقیقات مکمل ہوچکی ہے۔ سابق صدر کے اس بیان سے کس کس کو کیا کیا فوائد اور جواز ملیں گے، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ مگر پاکستانی عوام، فوج اور حکومت مل کر ماضی میں بھی ایسی کوششوں کو ناکام بناچکے ہیں اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی سازش کو ناکام بنادیں گے۔
ٹارگٹ کلنگ میں ممتاز عالم دین سمیت 8افراد جاں بحق
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں جامعہ بنوریہ کے استاد الحدیث مولانا محمد امین سمیت 8 افراد جاں بحق ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔یہ انتہائی تشویشناک حقیقت ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا اور مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے علاوہ بے گناہ اور کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے وابستگی نہ رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں نشانہ بن چکے ہیں۔ کئی کاروباری افراد تاجر اور صنعتکار بھی ایسے المناک واقعات میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شہر کے پوش اور کاروباری علاقوں کے علاوہ پسماندہ اور دور افتادہ بستیاں بھی ان وارداتوں کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر میں امن و سلامتی کی فضا کو تقویت دینے کے لئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، نجی و سرکاری فلاحی اداروں کے درمیان وسیع تر مشاورت کے بعد امن و امان کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے کیونکہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ان اداروں کی ناکامی پر دلالت کرتی ہے۔
امریکی عدالت سے فیصل شہزاد کو عمر قید کی سزا
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے پر ابھی پاکستانی عوام کے غم و غصہ میں کمی نہ آئے پائی تھی کہ امریکہ میں ایک اور پاکستانی کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اس سے پہلے 1995ء میں ایک پاکستانی یوسف رمزی اور 1997ء میں ایمل کانسی کو بھی امریکہ کے حوالے کیا جا چکا تھا جنہیں سزائے موت سنائی گئی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد پاکستانی برائے نام دہشت گردوں کی حمایت کے الزام میں امریکہ کے حوالے کئے جا چکے ہیں۔ بعض پاکستانی قیدی امریکہ سے رہائی کے بعد امریکی جیلوں میں ہونے والے وحشیانہ تشدد کے المناک واقعات سنا کر لوگوں کے دل لرزا دیئے ہیں۔ بہت سے پاکستانی افغانستان میں امریکی حکام کی نگرانی میں قید و بند اور تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف حکومت کی طرف سے کسی موثر ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ان پاکستانیوں کے متعلق از خود نوٹس لے کر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ فیصل شہزاد کو نیویارک سے دبئی جانے والی پرواز سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ بہرحال یہ سارے معاملات غیرجانبدارانہ تحقیقات اور فیصل شہزاد پر پاکستانی عدالت میں مقدمہ چلانے کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ غیرجانبدارانہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔