پاکستان نے اپنی عمر کے 63 سال میں سے نصف سے زائد عرصہ فوجی آمریتوں کے سائے میں گذارا۔ ہر آنے والے آمر نے نعرہ لگایا کہ وہ عوام کا نجات دہندہ ہے مگر جب گیا تو ملک کو پہلے سے بھی بدتر حالت میں چھوڑ کر گیا۔ جنرل(ریٹائرڈ) پرویز مشرف بھی انہی ”نجات دہندگان“ میں شامل ہیں جواب اپنے نامکمل ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ملک میں ”اصلی جمہوریت“ کے نفاذ کیلئے واپس آنا چاہتے ہیں۔ جیو سے تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے اپنے 9 سالہ دور اقتدار کے دوران بہت سی کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوے کئے ہیں اور کہا ہے کہ ”ہماری ڈومیسٹک پرفارمنس‘ معیشت کی پرفارمنس اور ہر شعبے میں ہماری پرفارمنس دنیا نے دیکھی کہ یہ تو ابھرتا ہوا ملک ہے۔ یہ میری سب سے بڑی کامیابی تھی“۔ ان کے اس دعوے میں کہاں تک صداقت ہے، اسکی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس کی حقیقت سب پر عیاں ہے۔ البتہ بلوچستان کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا وہ لائق توجہ ہے اور اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس حساس صوبے کو پرویز مشرف کے دیئے ہوئے زخم پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کے لئے نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔
بلوچستان میں نواب محمد اکبر خان بگٹی کا قتل پرویز مشرف کے خلاف فرد جرم کا نقطہ آغاز ہے کیونکہ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور اب تک ہو رہا ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ نواب بگٹی پاکستان دشمن تھے نہ انہوں نے ریاست کے خلاف لڑنے کے لئے فراری کیمپ بنا رکھے تھے جس کا دعویٰ پرویز مشرف کر رہے ہیں۔ نواب صاحب پاکستان کے وزیر مملکت برائے دفاع رہے۔ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے رہے اور اس لحاظ سے انہوں نے ایک نہیں کئی بار مملکت پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ ان کی ذات پاکستان سے بلوچستان کے اٹوٹ رشتے کی ایک علامت تھی اور نہایت کٹھن حالات میں بھی انہوں نے پاکستان سے اپنے تعلق کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ نواب بگٹی کے پائے ثبات میں اس وقت بھی لغزش نہیں آئی جب قائداعظم اور خان آف قلات کے درمیان طے پانے والے الحاق کے معاہدے کے خلاف خان کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم نے مسلح بغاوت کر دی، نہ اس وقت ان کے قدم ڈگمگائے جب نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن کریم کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اترنے پر آمادہ کیا گیا اور پھر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان کی پاکستان دوستی بلوچ قوم پرستوں جن میں بعض بااثر نواب اور سردار بھی شامل تھے، کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی اور وہ انہیں زک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے مگر نواب صاحب کا عزم، حوصلہ، اثرورسوخ اور رعب و دبدبہ اتنا تھا کہ کسی کی دال نہ گلی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک زیرک سیاستدان اور محب وطن بلوچ کی حیثیت سے ملکی حالات پر ان کا دل کڑھتا تھا اور وہ بلاخوف و خطر اپنی رائے بھی دیتے تھے مگر وہ ”اینٹی سٹیٹ“ تھے، نہ انہوں نے فوج یا ایف سی کے خلاف لڑنے کے لئے فراری کیمپ بنا رکھے تھے۔ نواب صاحب ایک مجلسی آدمی تھے اورکوئٹہ کے بگٹی ہاؤس میں ایسی محفلیں جمائے رکھتے تھے جن میں ہر طبقے، ہر نسل اورہر صوبے کے لوگ بلاتکلف شریک ہوتے ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے اور ملکی معاملات پر ان کے بے لاگ تبصرے سنتے۔ ان محفلوں میں شریک ہونے والا کوئی بھی شخص یہ گواہی نہیں دے گا کہ انہوں نے کبھی مملکت پاکستان کے وجود کے خلاف کوئی بات کہی ہو۔ اسکے باوجود ان پر دہشت گردی کا الزام کذب و افترا کے سوا کچھ نہیں۔ نواب صاحب کے قتل کی راہ دراصل 2006 میں سوئی میں ہونے والے ایک سانحہ سے ہموار ہوئی جس میں مبینہ طور پر ایک باوردی جونیئر افسر نے سوئی کالونی میں رہائش پذیر نوجوان لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کی بے حرمتی کی، علاقے کے عوام اس پر سراپا احتجاج بن گئے اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جسے رد کر دیا گیا۔ اس پر لوگوں نے تشدد، ہنگامہ آرائی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا کیونکہ بلوچ معاشرے میں یہ ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ نواب صاحب نے بھی اپنے عوام کا ساتھ دیا جس پر سوئی گیس پلانٹ کی حفاظت کے نام پر نواب بگٹی اور ان کے قبیلے کے خلاف باقاعدہ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس سے پہلے 2005 میں بھی ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب کے قلعے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے، ان میں زیادہ تر ہندو تھے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں نواب بگٹی کے لوگ بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ آپریشن کے دوران دو ڈھائی لاکھ بگٹی گھر چھوڑ کر بلوچستان کے محفوظ علاقوں، سندھ اور پنجاب میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ نواب صاحب کو بھی اپنا قلعہ چھوڑنا پڑا۔ وہ تراتانی کے پہاڑی غار میں محصور ہوئے جہاں انہیں شہید کر دیا گیا۔ آپریشن کے شروع کرنے سے قبل پرویز مشرف نے کوئٹہ میں باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ”شرپسندوں“ (ان کا اشارہ نواب بگٹی کی طرف تھا) کو وہاں سے ہٹ کیا جائیگا جہاں ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے گولہ آیا۔ یہ ایک طرح کی وارننگ تھی اور نواب بگٹی نے جان لیا تھا کہ اب ان کا آخری وقت آ پہنچا ہے۔
نواب بگٹی کی شہادت سے پہلے بھی بلوچستان میں مزاحمت کی تحریک موجود تھی مگر دبی ہوئی تھی۔ پرویز مشرف نے پہلے نواب بگٹی اور پھر نوابزادہ بالاچ مری کو قتل کرا کے اسے ابھرنے کا موقع دے دیا۔ اب مری بگٹی ایجنسی کے دو جنگجو قبیلے متحد ہو کر بدلہ لے رہے ہیں اور جھالاوان، آواران اور ساراوان میں جو لوگ موقع کی تلاش میں تھے انہوں نے بھی ہتھیار اٹھا لئے ہیں۔ پشتون علاقوں کو چھوڑ کر تمام بلوچ علاقوں سے آباد کاروں خصوصاً پنجابیوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں جاری ہیں۔ سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور تقریباً چار لاکھ ہجرت کر کے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں جا چکے ہیں۔ اس المیے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ سرکاری ملازمین اور تجارت پیشہ افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذہ، ڈاکٹر اور دوسرے ہنر مند افراد بھی بلوچستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے جس سے وہاں علاج معالجہ، تعلیم اور تعمیروترقی کے کام رک گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے خاص طور پر ٹیچرز کے چلے جانے کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بلوچوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ پرویز مشرف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بلوچوں میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے علاوہ انہوں نے وہاں تعمیروترقی کے کاموں کا جال بچھا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جتنا پیسہ میرے دور میں لگایا گیا اور ترقی ہوئی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے، وہ کہتے ہیں کہ کوسٹل ہائی وے ہم نے بنائی، میرانی ڈیم ہم نے بنایا، گوادر پورٹ ہم نے بنائی، گوادر سے رتو ڈیرو تک سڑک ہم نے بنائی، کئی دوسرے منصوبوں کا بھی انہوں نے نام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں زیر تکمیل میگا پراجیکٹس پر پہلے سے کام ہو رہا تھا۔ گوادر پورٹ ان کے دعوے کے برعکس ابھی تک پوری طرح فنکشنل نہیں ہوئی۔ بہت کم بحری جہاز یہاں آ رہے ہیں یا یہاں سے جا رہے ہیں۔ پورٹ کو قومی نیٹ ورک سے مربوط کرنے کے لئے گوادر رتو ڈیرو شاہراہ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی کیونکہ تعمیراتی کمپنی سے معاملات طے نہیں ہوئے اور بیشتر لوگ کام چھوڑ کر چلے گئے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اسے کامیاب بنانے کے لئے کچھ چھوٹی سڑکیں بنانا تھیں اس منصوبے پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔ سیندک گولڈ پراجیکٹ بہت بڑا منصوبہ تھا جس سے صوبے کے علاوہ پورے ملک کو فائدہ پہنچتا۔ اس منصوبے کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا۔ شرط یہ رکھی گئی کہ یہاں سے نکلنے والا 50 فیصد سونا چینی کمپنی، 48 فیصد پاکستان کی وفاقی حکومت اور صرف دو فیصد بلوچستان کو دیا جائیگا۔ اس پر بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ خود بلوچستان کی حکومت کو شدید تحفظات ہیں۔ ایک اورمنصوبہ ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ کا ہے، یہ کینیڈا، آسٹریلیا اور چلی کی مشترکہ کو کمپنی دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور سست روی کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت کو اسکی شرائط پر اعتراض ہے۔ وہ خود بھی اس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ ایک اور منصوبہ چمالانگ میں کوئلے کی تلاش کے بارے میں ہے۔ یہاں مری اور لونی قبائل میں جھگڑا چل رہا تھا۔ ان میں تصفیہ کرا دیا گیا ہے مگر منصوبے پر عملدرآمد کی رفتار سست ہے۔ جس پیمانے پر کوئلہ نکالنے کی توقع کی جا رہی تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ ویسے بھی پرویز مشرف نے جن منصوبوں کا حوالہ دیا ہے بلوچ قوم پرست پارٹیاں ان کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے ہی بی این پی مینگل نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔بلوچستان میں سب سے زیادہ غم و غصہ لاپتہ افراد کے بارے میں پایا جاتا ہے جو مشرف دور ہی میں غائب ہوئے۔ آبادکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اسی کے نتیجے میں شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ پھر بھی پرویز مشرف کہتے ہیں کہ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک کر کے گیا تھا۔ حالات میرے بعد خراب ہوئے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔