کراچی(رپورٹ/آغاخالد)ہفتے کو بلدیہ ٹائون رئیس گوٹھ میں ہونے والے سی ٹی ڈی اور رینجرز کے ساتھ مقابلے میں انصار الشریعہ کے ہلاک دہشت گرد طلحہ انصاری بھی این ای ڈی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ الیکٹریکل انجینئر تھا اور حب میں بجلی بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں ملازم تھا جبکہ اس کے والد بھی این ای ڈی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے وہ کچھ عرصہ قبل ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو دو روز بعد ہی کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے اور دو ماہ کے اندر ان کا انتقال ہوگیا ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی بڑے بیٹے طلحہ انصاری بھی شادی شدہ تھے اور اس نے پس ماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو ماہ کا ایک بیٹا بھی چھوڑا ہے ان کے گھر والوں کے بقول طلحہ انصاری کو 06ستمبر 2017کو جھنگ میں ان کے سسرال سے حراست میں لیاگیا تھا ان کے ساتھ سالے کو بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے لے گئے تھے بعدازاں اسے 22دنوں بعد یہ کہہ کر رہا کردیا تھا کہ طلحہ انصاری پر بھی کوئی خاص الزام نہیں اسے بھی جلد رہا کردیا جائے گا ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان ٹور پر گیا ہوا تھا جہاں سے اپنے سسرال جھنگ پہنچا تو اگلے روز ہی اسے رات گئے چھاپہ مار کر حراست میں لے لیا گیا اس کے گھر والوں اور قریبی دوستوں کو یقین نہیں کہ طلحہ انصاری دہشت گردی کی کسی گینگ کا حصہ تھا کیونکہ ان کا کہنا ہےکہ کمپنی نے تین دوستوں کو ایک گاڑی دی ہوئی تھی اور جس دوست کے پاس بھی وہ گاڑی ہوتی تھی وہ صبح 6بجے دو دیگر دوستوں کو پک کرکے حب (بلوچستان) لیکر جاتا تھا اور اسی طرح شام 4بجے ہونے والی چھٹی میں تینوں دوست شام 6سے 7بجے تک گھر پہنچتے تھے اور اتنے لمبے سفر کے بعد ان کا کہنا ہےکہ طلحہ اس قدر تھکا ہوا ہوتا تھا کہ گھر سے نہ نکلتا تھا یہاں تک کہ گھر کا سودا سلف و دیگر امور بھی چھوٹا بھائی اسامہ ہی انجام دیتا تھا طلحہ کی مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس کی والدہ کی حالت نازک ہے تاہم سی ٹی ڈی کے ذرائع کا کہنا ہےکہ طلحہ انصاری انصارلشریعہ کا اہم اور سرگرم رکن تھا وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست تو شریک نہ تھا مگر انہیں معلومات فراہم کرتا اور نیٹ پر ان کے رابطوں کو بحال رکھنے اور سرگرمیوں سے ایک دوسرے کو اگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا ۔