جون2001 کی ایک دوپہر ڈیرہ اسماعیل خان کے پولیس اسٹیشن میں وائرلیس آپریٹر چیخ رہا تھا۔ کوڈ ٹائیگر ٹائیگر کی تیز پکار اور لوکیشن کا اعلان جاری تھا۔ مطلب تھاکہ بم ڈسپوزبل اسکواڈ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے۔ جائے وقوعہ پر کئی شہید ہو چکے ہوتے ہیں مزیدایک بارودی سرنگ پھٹنے سےبم ڈسپوزبل اسکواڈ کا رکن شدید زخمی ہو تا ہےاسکی ٹانگ اس قدرزخمی ہو جا تی ہے کہ کئی ماہ کے لئے چارپائی سے لگ جاتا ہے ۔یہ تھی پہلی نشانی جودہشت گردی کی جنگ نے اس 23سالہ جوان کے جسم پر ثبت کی۔ بستر پر پڑے پڑے اسے کسان والد بیت اللہ کی یہ بات بالکل بھی سمجھ نہ آئی کہ جنگ ہو پر غم نہ ہو ۔ آنکھوں میں آنسوئوں کے دئیے جلاتی ماں بولی بیٹا ظالموں کی مسلط کردہ جنگ میں مادر وطن کی حفاظت کرنا۔ یاد رکھنا تمہاری لاش اٹھا نے کی ہمت رکھتی ہوں لیکن تم ہتھیار ڈال کر اغوا ہو جائو یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔ اف میرے خدا وہم وگماں سے باہر تھا کہ کسان والدین کی سوچ اتنی پختہ اور گہری بھی ہوسکتی ہے۔ یہ وطن سے بے غرض محبت کا وہ فلسفہ تھا جو ایک کسان کے زرخیز دماغ میں سنہری فصل کی شکل میں لہلہا رہا تھا۔ اسی جذبے کی چکا چوند اس جوان کی آنکھوں سے خوب چھلک رہی تھی وہ بولتا چلا جارہا تھا اور میری آنکھیں آنسوئوں کا وزن سنبھال نہ پائیں اور وہ بغیر روک ٹوک کونوں سے بہتے چلے گئے۔ اس کا لہجہ خوفناک سچائی عیاں کر رہا تھا۔ پھروہ یوں گویا ہوا ۔2004 میں بارودی سرنگوں کی تلاش میں ایک آئی ڈی (امپرووائزڈ ایکسپلوسو ڈیوائس) کو ڈفیوز کرتے ہوئے دوسری پھٹ جاتی ہے توبائیں ہاتھ کی انگلیوں کی ٹپس کھو دیں انگوٹھا تاحال ساتھ موجود ہے لیکن طاقت ندارد۔ 2012میں ہونے والے آئی ای ڈی دھماکے میں میرا دایاں بازو اس حد تک متاثر ہوا کہ دائیں ہاتھ نےکام ہی کرنا ہی چھوڑ دیا۔ آج تک اس بازو اور ہاتھ کی مکمل طور پر بحالی ممکن نہ ہو سکی۔ کہتے ہیں نا آزمائش کبھی اکیلی نہیں آتی دوسری منہ کھولے قطار میں کھڑی ہوتی ہے۔2014 آیا ایک اور آئی ای ڈی دھماکہ گھٹنے کے نیچے تک میری بائیں ٹانگ لے گیا۔ کبھی پریشر ککر بم،کبھی کولر، کبھی بوتل، کبھی کریٹ، کبھی ٹرنک، کبھی گٹھری بم اور کبھی کسی اور صورت میں ریموٹ کنٹرول بم، ٹائم بم، خودکش جیکٹوں اور ملٹی پل سوئچ پر مشتمل ڈیوائسز کو ڈفیوز کر نا ایسا کام ہوتا ہے جس میں امکانی نہیں یقینی موت ہوتی ہے اور غلطی کی ایک بھی گنجائش نہ ہو تو ایسا کام کرنے والوں اور کرتے چلے جانے والوں کو کیا قرار دیں گے؟ یقیناً ڈیرہ اسماعیل خان کا بم ڈسپوزبل اسکواڈ حب وطن کے شدید جذبے میں ہی تو مبتلا ہے جبھی ناکافی تعداد ہونے اور بغیر کسی جدید ترین ٹیکنالوجی پورے ڈی آئی خان کو بم دھماکوں اور بارودی سرنگوں سے بچانے کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر کام پر نکلتے ہیں۔ ہم بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ بحفاظت واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ میرے دریافت کرنے پر وہ سنجیدگی سے بولا چھ بار موت کے منہ سے بچا ہوں۔ تیرہ سالوں میں آئی ای ڈیز دھماکے مجھے جسمانی طور پر معذور بنا گئے ہیں لیکن نہ نوکری چھوڑنے کا خیال آیا اور نہ فرض نبھانا ترک کیا۔تمغہ شجاعت کےساتھ ملنے والی رقم میں سے دو لاکھ روپے کے عوض مصنوعی ٹانگ لگوائی۔ تنخواہ ترقی اور مراعات کے سوال پر وہ بالکل ہی خاموش ہوگیا؟ اصرار پر بڑی بات کہہ گیا کہ یہ باب کب کا بند ہوچکا اس موضوع پر میں صبر کر چکا ہوںاور اس نے فون بند کردیا۔ یہاں چیئرمین عمران خان اور پرویز خٹک کیلئے کئی سوالات جنم لیتے ہیں؟ کیا پورے ڈی آئی خان کیلئے14 افراد پر مشتمل بم ڈسپوزبل اسکواڈ کافی ہے؟ شہدا کے لواحقین کو تو 50 لاکھ مل جاتے ہیں لیکن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دوسروں کی جان بچانے والے غازی مراعات کے اہل نہیں ہوتے؟ وہ جو معذور ہوکر زندگی کے عذاب کو جھیلتے ہیں ان کیلئے کون سوچے گا؟ ایک خبر کے مطابق بم ڈسپوزبل اسکواڈ کے انچار ج شہید حکم خان نے اپنے دونوں بیٹوں کا ریگولر سروس سے بم اسکواڈ میںتبادلہ کروایا لیکن سوا سال تک وہ اپنے شہید باپ کا معاوضہ لینے کی خاطر پشاور دھکے کھاتے رہے ساری احتیاجات پوری کرنے پر ان کے ڈیڑھ لاکھ روپے اخراجات اٹھ گئے پتہ نہیں انھوں نے یہ خرچ کیسے کیا ہوگا۔ خدا کی پناہ ہر روز کے پی پولیس میں انقلاب کے دعوے اور جلسوں میں کارکنوں کو ٹائیگر پکارنے والے عمران خان کو بم ڈسپوزبل اسکواڈ اور اس میں کام کرنے والے حقیقی ٹائیگر ز کے حقوق کا کوئی خیال نہیں۔ خدارا ان شہدا کے ورثا کو تو ذلیل کرنا بند کریں۔اور کچھ نہیں دے سکتے تو بم ڈسپوزبل اسکواڈ کو جدید ترین جیمرز اور جدید روبوٹ ہی دے دیں تاکہ وہ ان چاہی موت اور تکلیفوں سے بھری معذوری کی زندگی کو گھسیٹنے پر مجبور نہ ہوں کیونکہ موجودہ جیمرزجدید ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔میرے دوبارہ دریافت کرنے پر عنایت بولا ہر عضو وطن کی محبت کے زخموں سے چور ہے جسم کا جو حصہ وطن پر قربان کیا ہے اس پر فخر ہے آج میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور پرعزم ہوچکا ہوں۔ ڈی آئی خان کے عوام نے عنایت اللہ سے عنایت ٹائیگر بنا کر زندگی میں ہی مجھے اس عظیم مرتبے پر فائز کر ڈالا ہے جہاں عوام کا لاڈلا بننا اور اس لطف سےطاری ہونے والی سرشاری کا بیان ممکن نہیں۔ یہی میرا انعام ہے اور یہی میری جیت ہے۔ الحمد للہ آج مجھے کوئی رنج و الم نہیں اور والد کی کہی ہوئی بات جنگ ہو پر غم نہ ہوکا مطلب آج سمجھ میں آگیا ہے۔ خدا ہمارے وطن کو سدا سلامت رکھے اور ہمیں ہمت عطا فرمائے کہ اس پر سب کچھ قربان کردیں۔ نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر۔ پاکستان زندہ باد