کراچی(جنگ نیوز)پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدرنے کہا ہے کہ چیئرمین نیب سے سندھ اور پنجاب کے درمیان توازن رکھنے کی توقع رکھتے ہیں، ہر ملزم کا وقار ہوتاہے اسے ملحوظ خاطر رکھا جائے، مریم نواز کو عدالتوں میں ہمت ہونے کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی، آمریت سے جمہوریت کا سفر پلک جھپکتے طے نہیں ہوسکتا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور ماہر قانون احمد اویس بھی شریک تھے۔
طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان عادی مجرم ہیں پہلے بھی کئی دفعہ معافی مانگ چکے ہیں، عدالتیں جو حکم منوانا چاہیں وہ منوالیتی ہیں، میری وزارت یا کوئی محکمہ پرویز مشرف کو گرفتار نہیں کررہا تو عدالتوں کو اس پر زور دینا چاہئے۔احمد اویس نے کہا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ کر قانون کا احترام کیا، حکومت نے دانستہ طور پر پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے دیا، پرویز مشرف کو اپنے باہر جانے میں فوج کو ملوث نہیں کرنا چاہئے تھا، اس پر پرویز مشرف کا باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہئے۔
حامد میر نے پروگرام میں بتایا کے آج بلوچستان میں اردو اور انگریزی کے اخبارات شائع تو ہوئے مگر تقسیم نہیں ہوئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ کالعدم تنظیموں نے دھمکی دی ہے اور ہاکروں سے کہا ہے آپ اخبارات تقسیم نہیں کریں گے، اگر کسی بک اسٹال پر یا کسی ہاکر نے اخبار بیچنے کی کوشش کی تو اس پر حملہ بھی کیا گیا،بلوچستان کی صوبائی حکومت اتنی بے بس ہے کہ کالعدم تنظیموں کی دھمکی کے بعد ہاکرز کو تحفظ مہیا نہیں کرسکی، وہ لوگ جو کہتے ہیں بلوچستان کے حالات بہت اچھے ہوگئے ہیں ان کیلئے کالعدم تنظیموں نے ایک چیلنج پیدا کردیا ہے۔
سینیٹر تاج حیدر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی خاتون ایم پی اے کی طرف سے اسلحہ کی نمائش کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے، سیاسی جماعت نظریے اور تنظیم سے بنتی ہے، ان دونوں میں سے ایک چیز بھی کمزور ہے تو آپ عوام میں نہیں جاسکتے، چیئرمین نیب سے سندھ اور پنجاب کے درمیان توازن رکھنے کی توقع رکھتے ہیں، ہر ملزم کا وقار ہوتاہے اسے ملحوظ خاطر رکھا جائے، میں پرویز مشرف کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، ہمیں فوجی آمروں کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے،مریم نواز کو عدالتوں میں ہمت ہونے کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی، ہمیں عدالتوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، اگر سیاستدان عدالتوں کی عزت نہیں کریں گے تو کون کرے گا، آمریت سے جمہوریت کا سفر پلک جھپکتے نہیں ہوسکتا،دونوں کو طویل عرصے تک ساتھ چلنا ہوتا ہے۔طلال چوہدری نے کہا کہ ن لیگ اپنی مقبولیت کے دعوے پر قائم ہے، این اے فور میں ن لیگ پہلے کے مقابلہ میں زیادہ ووٹ حاصل کرے گی، ن لیگ تسلسل کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کررہی ہے، این اے فور میں وہ رکاوٹیں نظرنہیں آئیں جو این اے 120میں تھیں، پاناما پیپرز کے عروج کے دنوں میں ن لیگ پشاور میں ضمنی انتخاب جیتی۔
طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان عادی مجرم ہیں پہلے بھی کئی دفعہ معافی مانگ چکے ہیں، الیکشن کمیشن کے انہیں معاف کرنے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی، عمران خان نے الیکشن کمیشن سے لے کر چیف جسٹس، پارلیمنٹ اور میڈیا تک کی تضحیک کی، عمران خان آکسفورڈ سے پڑھ کر بھی جس زبا ن میں بات کرتے ہیں ایسا لگتا ہے وہاں تربیت نہیں صرف تعلیم دی جاتی ہے، عمران خان نے میرے جیسے نوجوانوں کی زبان خراب کردی ہے۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالتیں جو حکم منوانا چاہیں وہ منوالیتی ہیں، حکم منوانے کیلئے یہاں وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو بھی نوٹس دیدیا جاتا ہے، اس ملک میں وزیراعظم ایک خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کے نوٹس میں نکالا گیا، ہمیں دہشتگردی کی جنگ میں اداروں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، اداروں اور وہاں بہت سے لوگوں کے تحفظات دیکھنا پڑتے ہیں اس کے باوجود ہم نے پرویز مشرف کیخلاف کیس لڑا، اگر میری وزارت یا کوئی محکمہ پرویز مشرف کو گرفتار نہیں کررہا تو عدالتوں کو اس پر زور دینا چاہئے، پرویز مشرف جھوٹا بہانہ بنا کر ملک سے باہر گیا۔
احمد اویس نے کہا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ کر قانون کا احترام کیا، سب کو احساس ہونا چاہئے کہ جلد یا بدیر ہر شخص کو قانون کے سامنے جھکنا ہے ،عمران خان ابھی ملزم ہیں ان کیلئے مجرم کا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا، نوازشریف کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی اور ان کا ٹرائل شروع ہوچکا ہے، نواز شریف نے جی ٹی روڈ مارچ میں سپریم کورٹ، جج صاحبان اور فوج کیخلاف غلط زبان استعمال کی، تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے شخص کو اداروں کیخلاف ایسی زبان زیب نہیں دیتی ہے۔
احمد اویس کا کہنا تھا کہ حکومت نے دانستہ طور پر پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے دیا، عدالت کو اپنے احکامات منوانے کیلئے تمام درکار اقدامات کرنے چاہئیں، پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ پاکستان سے جاری ہونے چاہئیں،پرویز مشرف کو اپنے باہر جانے میں فوج جیسے ادارے کو ملوث نہیں کرنا چاہئے تھا، اس پر پرویز مشرف کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہونا چاہئے، پرویز مشرف کے گھر کو سب جیل قرار دے کر وہیں ان کیخلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلا کر حتمی فیصلہ کیا جانا چاہئے تھا، یہ تاثر غلط ہے کہ فوج پرویز مشرف کوبچالیتی، وہ وقت ایسا تھا کہ کوئی نہیں بچاسکتا تھا۔