• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی....طلوع … ارشاد احمد عارف

میاں شہباز شریف نے اچھا کیا بلوچستان کے ہونہار طالب علموں کو وظائف دیئے، پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی سہولت فراہم کی اور ممتاز و منتخب طالب علموں کو بیرون ملک جامعات کادورہ کرنے کیلئے بھیجا۔ گزشتہ روز بیرونی دورے سے واپس لوٹنے والے طلبا و طالبات کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان سردار محمداسلم خان رئیسانی کے علاوہ دیگر کئی زعما شریک تھے۔
بلوچستان کے غریب مگر ہونہار طلبہ جنہیں کمپیئر نور الحسن نے لعل و گوہر قرار دیا اس تقریب میں اپنی پذیرائی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وہ میاں شہباز شریف کو موجودہ دورکا سرسید کہہ کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہے تھے جبکہ میاں شہباز شریف اس بات پر نازاں کہ ان کی تعلیمی خدمات کااعتراف اپنے صوبے کے جہالت، مہنگائی، لاقانونیت اور بیروزگاری کے مارے عوام کریں نہ کریں بلوچستان کے ارباب ِ اقتدار اور ذہین طلبہ کرتے ہیں۔
شادم زندگانیٴ خویش کہ کارے کر دم
بلوچستان اپنوں اور پرایوں کا زخم خوردہ ہے۔ بلوچ سرداروں اور 1971 سے اب تک اقتدار میں آنے والوں نے اپنے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ تعلیم، صحت اور تعمیر و ترقی کے لئے فراہم کردہ وسائل عموماً کرپشن کی نذر ہوگئے۔ جو تھوڑا بہت ترقیاتی کام ہوا، سڑکیں، سکول، سرکاری عمارتیں بنیں انہیں وقتاً فوقتاً جنم لینے والی ناراض تحریکوں کے پرجوش کارکنوں نے دھماکوں سے اڑا دیا۔ آج کل استاد، ڈاکٹر اورانجینئر ان کا خصوصی ہدف ہیں۔ قبائلی سردار خود توکوئٹہ، کراچی، اسلام آباد اور لندن کے پرتعیش محلات میں رہتے ہیں، مسلح محافظوں کے ساتھ مہنگی گاڑیوں میں گھومتے او ردنیا جہان کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں مگر عام بلوچ بیچارے کی قسمت میں بھیڑ بکریاں چرانے اور چھوٹی موٹی ملازمتیں ڈھونڈنا ہے یا پھر ان سرداروں کی جوتیاں سیدھا کرنا ہے۔
سردارفاروق احمد خان لغاری ملک کے صدر تھے اور اپنے حلقہ ٴ انتخاب کی ترقی کے لئے متفکر انہو ں نے فورٹ منرو میں مختلف قبائل کے عمائدین اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو بلایا اور ان کے مسائل دریافت کئے ہر شخص نے بقدر ہمت اوست کوئی نہ کوئی مسئلہ بیان کیا، سردار صاحب نے اختتامی تقریر میں مژدہ سنایا کہ غالباً آسٹریلیا سے ایک ایسا بیج منگوایا گیا ہے جو فورٹ منرو کے پہاڑوں پر ہیلی کاپٹر سے گرایا جائے گا۔ موسمی بارشوں سے اُگے گا اور علاقے کی بھیڑ بکریوں کی خوراک بنے گا۔ ایک نوجوان کھڑا ہوا اوربولا ”سردار صاحب! صدر بن کر بھی آپ یہ اہتمام کر رہے ہیں کہ ہم بدستور بھیڑ بکریاں ہی چراتے رہیں،نہ تعلیم حاصل کریں اور نہ ڈھنگ کا کوئی کام کرسکیں۔“
بلوچستان کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور تعمیر و ترقی کے لئے مناسب وسائل فراہم نہ کرنے کی ذمہ داری یقینا اسلام آباد پر عائد ہوتی ہے۔ ممکن ہے پنجابی بیوروکریسی نے بھی روڑے اٹکائے ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سب سے بڑی رکاوٹ یہ سردار اور وڈیرے ہیں جن کے اپنے بچے تو لاہور، کراچی اورامریکہ و برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ،پاؤں میں کانٹا چھبے یا نزلہ زکام ہو تو مہنگے سے مہنگا ہسپتال حاضر اور روزگار ان کا مسئلہ ہی نہیں کہ لاکھوں ایکڑ رقبہ ایک ایک سردار کی ملکیت ہے جسے یہ اس خوف سے آباد نہیں کرتے کہ غلاموں کی معاشی حالت سدھر گئی تو اپنے بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں گے اور باشعور تعلیم یافتہ نسل یہ سو چنے پر مجبورہوگی کہ ان کے مسائل، مصائب اور پسماندگی کا ذمہ دارپنجاب، اسلا م آباد ہے یا مقامی وڈیرہ جووزیراعظم اوروزیراعلیٰ بن کر بھی صوبے کی تعمیر و ترقی کے لئے کچھ نہیں کرتا اوراقتدار سے محروم ہونے کے بعد بغاوت، علیحدگی اور دہشت گردی کی تحریکوں کے سرپرست بن جاتا ہے۔ بلوچ علاقے میں سڑک اور سکول کی تعمیر ہر سرکاری محکمے کے لئے کارِ دشوار ہے۔
90شارع فاطمہ جناح کی پارکنگ میں صحافیوں پر پولیس تشدد کی وجہ سے اخبارنویسوں نے تقریب کا بائیکاٹ کیا جس کا گلہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم خان رئیسانی نے بھی کیا لیکن تمام تر گلے شکوؤں کے باوجود تقریب کی منفی رپورٹنگ نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے لعل و گوہر اپنی خوش بختی او رپنجاب کی فراخدلی کا تذکرہ کر رہے تھے اورہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ غریب ماں باپ کے یہ لاڈلے حصول تعلیم میں مگن ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے احسان مند۔ لیکن ایسی ہی خصوصی شفقت اور توجہ کے طلبگار پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے وہ بچے بھی ہیں جو نا مساعد حالات میں غربت و افلاس اور بیروزگاری کے مارے ماں باپ کی خون پسینے کی کمائی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر اور انجینئر بننا چاہتے ہیں لیکن ظالمانہ انٹری ٹیسٹ ان کا راستہ روک لیتاہے۔ انہیں بڑے شہروں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے علاوہ مہنگی اکیڈمیوں سے خصوصی کورس پڑھنے والے بچوں کے ساتھ بٹھا کر مقابلہ کرنے کاحکم دیا جاتاہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کو خودمختاری کے نام پر کاروباری تعلیمی اداروں کی طرح فیسوں میں بے محابہ اضافے کی اجازت دے دی گئی ہے تاکہ کسی دیہاڑی دارمزدور، خوانچہ فروش ، پرائمری ٹیچر، بڑھئی، کمہاراور لوہارکا بیٹا ان اداروں کارخ نہ کرسکے۔ کاش عہدحاضر کے سرسید احمد خان اس غریب ماری کا نوٹس لیں اور سراپا احتجاج اساتذہ اورطلبہ کی آواز پرکان دھریں۔ تعلیم پرصرف مالدار والدین کے نالائق بچو ں اوربلوچستان کے ہونہار طلبہ کا حق نہیں پنجاب کے اٹک سے روجھان تک پسماندہ علاقوں کے غریب، ذہین اور بے وسیلہ بچوں کے لئے بھی کچھ ہونا چاہئے۔
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
تازہ ترین