پھل لے لو ،سبزی لے لو،دالیں لے لو ،دیگراجناس، گوشت ،ہر قسم کا کپڑا،جوتے ،گھریلو ضروریات کی تمام اشیاء ،غرض کوئی بھی چیز آپ لینا چاہتے ہیں تو آپ کواس کے معیار کے بارے میں انتخاب کرنا پڑے گا ،ناقص و گھٹیا یا بہتر و اعلیٰ!!!مگر اسی طرح یہ بھی آپ نے طے کرنا ہے کہ آپ اپنے لیے کس طرز ِزندگی کا انتخاب کرتے ہیں ،یہ معاملہ سراسر آپ کے انتخاب پر منحصر ہے ،آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں مجبور کردیا گیا کہ ہم گھٹیا اشیاء خریدیں ،پسماندہ علاقوں میں رہیں،ذلت آمیز رویہ برداشت کریں، اگر چہ انسانی شرف اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے انفرادی واجتماعی طور پر تبدیلی کے لیے جدو جہد کرے مگر پھر بھی کوئی وقتی طوپرر مجبوری کا اظہار کر سکتا ہے لیکن سوچ پر کوئی جبر نہیں، ان گنت لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے دشمن کی طرف سے اذیت جسمانی کے تشدد کے باوجود اپنی سوچ کو تبدیل نہیں کیا، اونچی اونچی جیلوں کی دیواریں بھی آزاد لوگوں کی سوچ کو قید نہیں کرسکتیں، شام و سحرکے چکر سے آزاداندھیری کال کوٹھری کے اندر بھی برس ہا برس یقین کا چراغ منور رہا،دنیا بارہا تسلیم کرچکی ہے کہ زنجیر وں کے پہناوے سوچ کو باندھ نہیں سکتے ،جلا وطنوں کے دلوں سے مٹی کی محبت کھرچی نہیں جاسکتی ،بے گناہوں کے خون سے ظلم کو امن نہیں لکھا جاسکتا،نہیں ،نہیں ،نہیں لکھا جا سکتا خون کی سرخی سے سیاہ کو سفیدنہیں لکھا جا سکتافاسق و فاجر کو راہبر و پیشوا،غنڈے کو والی ،مفادات کے غلام اور مصلحت کے شکار شخص کو قاضی اور کسی آمر کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔کچھ لوگ کبھی بھی قید نہیں ہو پائے ۔کچھ لوگ ہمیشہ سچ کی علامت بنے۔خر یدے ہوئے لوگوں کے ہجوم میں کوئی آزاد آدمی ضرور چیختا ہے ،بکے ہوئے لوگوں کی اکژیت اصل آواز کو کبھی ختم نہیں کر سکی،ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے لوگوں کے مرنے سے چند لمحے پہلے زندہ رہنے کے لالچ کو قبول نہیں کیا ،ایسی بھی آوازیں سنی گئیں جوکٹے ہوئے گلو سے بلند ہوئیں۔الغرض کوئی اعلیٰ و ارفع سوچ کو ختم نہیں کر سکتا مگر یہ انتخاب صرف اور صرف آپ کا ہے کہ آپ اعلیٰ سوچ کو اپناتے ہیں یا پھر گھٹیا سوچ کو جگہ دیتے ہیں،افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ ہماری حکمرانوں کی اکثریت نے دوسرا راستہ اختیار کیا ،یہ ان کا انتخاب تھا، پرویزمشرف کو میں ہر گزنیا تو نہیں کہوں گا مگر اس نے نئی سیاسی جماعت کا اعلان ضرور کیا ہے،ہر شخص کو حق ہے کہ وہ سیاسی کردار ادا کرے مگر ہرمجرم کو اس کے جرائم کی سزا بھی ملنی چاہیے ،چور ڈاکوں کو کسی طور حق نہیں کہ وہ قوم پر حکمرانی کریں،اسی طرح کسی آمر کو حق نہیں کہ کوئی بھی بہانہ بنا کر وہ قوم و سلطنت پر قابض ہوجائے،پھر ایک دھتکارے ہوئے بدنام زمانہ سابق آمر کیسے جمہوری لبادہ اوڑھ کر عوام کی صفوں میں داخل ہوسکتا ہے ،اب بس پچھتاوا ہی پچھتاوا ہے ،وہ کھا ل جو اتر گئی سو اتر گئی۔پرویز مشرف لاکھ جھوٹ بولے کہ سردار بگٹی کو اس نے قتل نہیں کروایامگر اس ان کے وارث پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ پرویز مشرف ہی ان کا اصل قاتل ہے ۔ڈاکٹر عافیہ کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے والا کون ہے ،ان کی ماں سے پوچھو۔ اور اب مشرف یہ کھولاجھوٹ بول رہا ہے کہ میں نے ڈاکٹراے کیو خان صاحب کو تحفظ دیا ،ان کو غیر ملکیوں سے بچایا، یہ بات محسن ِپاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان سے پوچھو کہ ان کو تحفظ دیا گیا تھا یاقید کر دیا گیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بے شرمی کی کوئی حدنہیں ہوتی ۔جھوٹ ،جھوٹ، جھوٹ پھرجھوٹ پر جھوٹ ،یہ کیسا آدمی ہے یار!اب یہ کھلاجھوٹ کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے زیر نگرانی بننے والے شاندار دفاعی ہتھیار غوری مزائل کاتجربہ ناکام ہو گیا تھا،یہ تو سراسر ملک دشمن کی زبان ہے جو دفاعی کامیابی کو ناکامی کہہ رہا ہے صرف اس لیے کے یہ ڈاکٹر صاحب کی ان تھک محنت کا نتیجہ تھا ،کس قدر چھوٹی سوچ ہے ،میں پوچھتا ہوں کوئی ادارہ ایسا ہے جو اس شخص کو گرفت میں لا سکے یا پھر ہمیشہ سچ کی آواز کو ہی دبانے کے فارمولے پر ہی عمل ہوتا رہے گا،خداجانے ایسے لوگ کس طرح اس طریقے سے ترقی حاصل کرتے رہتے ہیں، اور یہی نہیں پھر طریقے سے اسے قانونی جواز مہیا کر دیا جاتا ہے ،پھر بڑے ہی عجیب طریقے سے ایسے آمر و قاتل کو ملک سے باہر جانے دیا جاتا ہے، وہاں سے وہ بڑے ہی گھٹیا بیان دے رہا ہے ،جس کی وجہ سے اس کا سیاسی کردار بڑھنے کی بجائے گھٹ رہا ہے ۔