گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
ہزاروں سال پرانا قصہ جو گزرے برسوں کہیں پڑھا تھا یونیورسٹی کے زمانے سے ہمارے دوست لطیف چشتی آف پاکپتن حال مقیم لاہور نے پھر سے دہرایا ہے۔ یہ قصہ آج کے لئے بھی تازہ ہے اور حالات کے مطابق بھی۔
یہ قصہ مقدس بائبل کی کتاب دانیال میں یوں رقم ہے کہ تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ بابل کا آخری بادشاہ بیلشضر اپنے درباریوں کے ساتھ محل میں محفل نشاط سجائے بیٹھا تھا۔ یروشلم کے معبد سے لوٹے ہوئے مقدس طلائی برتنوں میں شراب پی جارہی تھی کہ اچانک غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے دیوار پر چند لفظ لکھے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ غیبی ہاتھ نے چار لفظ لکھے اور پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ الفاظ یہ تھے۔"MENE, MENE, TAKEL, PERES"یہ کسی اجنبی اور نامانوس زبان کے الفاظ تھے بادشاہ اور درباریوں نے انہیں سمجھنے کی تمام تر کوشش کی مگر ناکام ہونے پر انہوں نے بابل کے بڑے بڑے عالموں، نجومیوں اور روحانی پیشوائوں کو بلوایا۔ بادشاہ نے پیش کش کی کہ جو اس عبارت کو پڑھ کر اس کا مطلب سمجھائے گا اسے سونے میں تولا جائیگا۔ کاہن اور نجومی کوشش کرتے رہے مگر وہ ان الفاظ کا راز نہ جان سکے۔ بادشاہ کی راتوں کی نیند اڑ گئی وہ ہروقت سوچتا رہا کہ اس غیبی ہاتھ نے آخر کیا پیغام دیا ہے؟ ایک دن ملکہ نے مشورہ دیا کہ بابل میں دانیال نامی ایک شخص رہتا ہے جس کا جسم تو انسان کا ہے لیکن غالباً روح کسی دیوتا کی ہے۔ اسے بلایا جائے یہ شخص حضرت دانیال تھے اپنے عہد کے سب سے برگزیدہ شخصیت، بادشاہ نے حضرت دانیال سے کہا، سنا ہے کہ تم ہر قسم کی گتھی سلجھا سکتے ہو۔ اگر تم دیوار پر لکھی اس عبارت کا مطلب مجھے سمجھانے میں کامیاب رہے تو خلعت فاخرہ کے ساتھ تمہارے گلے میں سونے کی مالا ڈالی جائیگی اور تمہیں سلطنت کا تیسرا سب سے بڑا عہدہ بھی سونپ دیا جائیگا۔ حضرت دانیال نے کہا کہ مجھے تمہارے سونے چاندی کی ضرورت نہیں مگر میں یہ مسئلہ حل کر دیتا ہوں۔ انہوں نے چند لمحوں کیلئے غور کیا اور پھر بادشاہ سے کہا کہ تمہارا باپ بھی اس سلطنت کا فرمانروا تھا لیکن اس نے عیش و عشرت کا راستہ اپنا کر خود کو تباہ کر لیا اب تم نے بھی اس کی پیروی کی۔ اس لئے تباہی اور بربادی تمہارا مقدر ہے، اس کے بعد حضرت دانیال نے بتایا، ’’MENE‘‘ کا مطلب ہے کہ تمہاری بادشاہی کے دن پورے ہوگئے ہیں۔ ’’TAKEL‘‘ کا مطلب ہے کہ تمہیں کسوٹی پر پرکھا گیا لیکن تم ناقص اور ہلکے نکلے۔ ’’PERES‘‘ کا مطلب ہے کہ تمہاری سلطنت عنقریب دشمنوں میں تقسیم ہوجائیگی۔ اس کہانی کے مطابق اسی رات بادشاہ قتل کر دیا گیا اور جلد ہی اس کی سلطنت دو دشمن ریاستوں کے قبضے میں چلی گئی اس کہانی میں انگریزی میں ضرب المثل "Writing On The Wall" وجود میں آئی۔ اردو میں اسے ’’نوشتہ ء دیوار‘‘ (دیوار پر لکھا ہوا) کا نام دیا گیا۔ ویسے یہ ضرب المثل دنیا کی بہت سی زبانوں میں مختلف ناموں سے موجود ہے۔ بائبل کی کہانی تو ختم ہوچکی مگر تاریخی قصوں کے اثرات صدیوں تک برقرار رہتے ہیں۔ پچھلے دو اڑھائی ہزار سال کی تاریخ کا جائزہ لے کر مورخین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر سلطنت اور حکمران کو خواہ وہ جس قدر عظیم ہو ایک نہ ایک دن ضرور نوشتہ ء دیوار سے واسطہ پڑتا ہے۔ مورخ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس کا انجام واضح دکھائی دینے لگتا ہے مگر بدقسمتی سے بیشتر حکمران دیوار پر لکھے تقدیر کے اٹل اور نہ بدلنے والے فیصلے کا درست ادراک نہیں کر پاتے۔
آج پھر دیوار پر کچھ لکھا ہے لیکن یہ نوشتہ ء دیوار جلی حروف کیساتھ مقامی زبان میں لکھا گیا ہے جسے ہر کوئی باآسانی پڑھ سکے لیکن جس کے لئے لکھا گیا اس کی حالت اس شخص کی ہے، جو آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لایا گیا کہ ڈاکٹر اس کیلئے نظر کا چشمہ تجویز کرے۔ ڈاکٹر نے مذکورہ آدمی سے کہا کہ سامنے لکھے ہوئے حروف پڑھئیے، بولا کونسے حروف؟ وہ جو آپ کے سامنے چارٹ پر لکھے ہیں، کونسا چارٹ؟ وہ جو سامنے دیوار پر لٹکا ہوا ہے، مگر دیوار کہاں ہے؟ اس شخص نے استفسار کیا۔ یہ نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں میں ککرے ہوں یا جالے، خدانخواستہ وہ اندھا بھی نہیں ہو گیا تھا مگر پڑھنے کی عادت تو اسے بچپن سے تھی ہی نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ خود سے دیکھنے اور سوچنے کی عادت بھی نہ رہی۔ دوسروں کی نظر سے دیکھنا انہی کے سجھائے ہوئے راستے پر چلنے کی عادت ہی اپنا لی تھی مگر وہ سن سکتا تھا بہت ہلکی سی آہٹ بھی۔
جو سامنے کی دیوار پہ لکھا ہے وہ پڑھتے نہیں اور جنہوں نے پڑھ لیا وہ بتاتے نہیں اور جنہوں نے بتایا وہ کچھ یوں کہ، پہلے پہل وہ فیصلہ جس نے ساری بساط پلٹ کے رکھ دی رات بھر اس کے بارے سنایا گیاکہ فیصلہ پانچ صفر سے آپ کے حق میں آرہا ہے۔ فیصلہ سنائے جانے سے آدھ گھنٹہ پہلے خبر لائے کہ فیصلہ دو اور تین میں تقسیم ہو گیا ہے۔ تین ملزم کے ساتھ کھڑے ہیں تو باقی دو کی اوقات ہی کیا؟ ٹی وی پر فیصلہ نشر ہوا تو جھٹ سے پینترہ بدل کہ بولے کہ ابھی اطلاع ملی ہے کہ ’’جادو کی چھڑی نے ساری بساط الٹ دی‘‘۔ جب جادو کے ذریعے سری لنکا کی ٹیم ٹیسٹ میچ کی پوری سیریز جیت سکتی ہے تو اسی جادو سے آپ کو ہروا دیا گیا ہوگا۔ اب موصوف عنقا جادوگر اور ناپید چھڑی کی تلاش میں باولے ہوئے پھرتے ہیں اور یار لوگ پیچھے سے ٹھٹھا بھی کرتے ہیں۔
یہ تو کل کی سی بات ہے کہ پشاور کے حلقہ NA-4میں انتخاب کا معرکہ گرم تھا۔ ہر درودیوار پر لکھا صاف پڑھا جاسکتا تھا کہ اس معرکے میں کون سرخرو ہو گا اور کون کھیت رہے گا لیکن ووٹ ڈالے جانے بس دموں کی بات تھی تب عطار کے’’صاحبزادگان‘‘ ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے ان میں ایک سکہ بند دانشور بھی تھے۔ فرمایا، جناب قائد آپ کی لیگ تو سمجھئے دوگنے ووٹوں کی اکثریت سے جیت چکی ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ دوسری اور تیسری پوزیشن کس کے حصے میں آئے گی۔ دراصل یہ معرکہ صرف دوسری اور تیسری پوزیشن کا فیصلہ کرنے کیلئے بپا ہے۔ اگلی شام دوگنے ووٹوں سے جیتنے والے تیسری پوزیشن پر کھڑے داد شجاعت دے رہے تھے اور پچھلی رات ان کی بے پناہ کامیابی کا اعلان کرنیوالوں کے چہرے پر کوئی خجالت تھی نہ شرمندگی۔
سیانے کہتے ہیں، غصے، لالچ اور خوف میں کیا گیا فیصلہ کبھی درست نہیں ہو سکتا اور جلد بازی وہ تو ویسے بھی کام شیطان کا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی کہ کسی کو لالچ نے اندھا کر رکھا ہے اور دوسروں نے خوف سے آنکھیں موند لیں۔ غصے میں ویسے بھی عقل اور بصر دونوں معطل ہو جاتے ہیں۔ یوں خوف، لالچ اور غصے میں اندھوں کی پوری بستی آباد ہے۔ اندھوں کی اس بستی میں قانون کے شیشہ گراں، انصاف اور عدل کی بات کہیں تو کس سے کہیں۔