• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق کی عہد ساز شخصیت .....سید یوسف رضا گیلانی…وزیراعظم پاکستان

27دسمبر ایک انتہائی غمناک اور قومی المیے کا دن ہے جس دن پاکستان بالخصوص اور دنیا بالعموم محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی ایک بلند پایہ رہنما سے محروم ہوگئی۔ شہید بے نظیر بھٹو کی زندگی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے حوصلے‘ عزم اور اہداف کی تکمیل کے لئے تربیتی عزم کاایک مثالی نمونہ تھی اور ان اہداف کا تعین انہوں نے خود کیا تھا ۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے عظیم اور مسحور کن شخصیت کے حامل والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد انتہائی مشکل حالات میں سنبھالی اور اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا اور بھرپور حوصلے کے ساتھ 11سال تک آمرانہ دور کے ظلم کا مقابلہ کیا وہ لاکھوں افراد کے لئے قابل تقلید بنیں اور طویل آمریت کے دور میں ان کی امیدوں کو زندہ رکھا۔ یہ اعزاز صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہے کہ اس کی جڑیں محنت کشوں‘ مزدوروں‘ کسانوں‘ طلبہ‘ وکلاء‘ اساتذہ‘ دانشوروں اور خواتین سمیت معاشرے کے تمام طبقات میں پائی جاتی ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے معاشرے کے ان طبقات کو بااختیار بنانے کیلئے انتھک جدوجہد کی اور اسی بنیاد پر انہوں نے پارٹی کا منشور ترتیب دیا۔ ایک ایسی لیڈر جس نے اپنی بے مثال خوبیوں کی وجہ سے اتنا نمایاں اور امتیازی کردار ادا کیا ہو تیسری دنیا کی تاریخ ایسی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اپنی سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا‘ وہ جرآت اور بہادری کا ایک ایسا نمونہ تھیں جنہوں نے اپنے عوام کیلئے ان کے ذاتی المیوں کو بھی اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔میں اس سلسلے میں اپریل 1989میں ذوالفقار علی بھٹو کی میراث کے موضوع پر منعقدہ مذاکرہ سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خطاب کے اقتباس کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں‘ جس میں انہوں نے کہا ”ناموافق حالات میں جرأت اور وقار کا مظاہرہ کسی بھی عظیم لیڈر کا طرہ امتیاز ہوتا ہے“۔ 1995میں پشاور یوینورسٹی میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ”ناموافق حالات پر قابو اور طوفان کے سامنے سر نہ جھکنے پر انحصار کسی بھی مرد اور عورت کی اپنی قابلیت پر ہوتا ہے۔“ انہوں نے اپنے عملی کردار سے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ایسی لیڈر تھیں کہ جو انہوں نے کہااس پر خود عمل کرکے بھی دکھایا ۔کوئی بھی چھوٹا یا بڑا ایسا المیہ نہیں جس کا انہوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کی شہادت‘ اپنی زندگی کو لاحق خطرات اور جلاوطنی اور قید و بندکی صعوبتوں کی صورت میں سامنا نہ کیا ہو۔ ہر سانحہ کے بعد وہ اپنے عوام کی خدمت کیلئے ایک نئے عزم‘ حوصلے اور زیادہ جرأت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ مجھے یاد ہے شہید بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں ”اپنے دکھ کو اپنی طاقت بنالو‘ آپ اس طاقت سے دنیا فتح کرلو گے۔“دنیا میں وہ لوگ نایاب ہیں جو اپنی موت کے بعد لافانی ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ شہید بے نظیر بھٹو اس صف سے تعلق رکھتی ہیں‘ وہ کروڑوں لوگوں کے دل کی دھڑکن ہیں اور اپنی شہادت کے بعد بھی ان کے دلوں پر راج کر رہی ہیں۔ ان کی پوری زندگی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ دنیا کیلئے بھی نمونہ ہے۔ وہ ثابت قدمی‘ عزم اور حوصلے کا مجسمہ تھیں۔ تاریخ کے صفحات میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنی کتاب ”دختر مشرق“ میں لکھا ہے کہ ”میں نے اپنے لئے یہ زندگی منتخب نہیں کی بلکہ اس زندگی نے مجھے اپنے لئے منتخب کیا ہے“۔
تاریخ شہید بے نظیر بھٹو کو تین باتوں کیلئے یاد رکھے گی‘ اول اپنے عوام تک پہنچنے کیلئے غیر متزلزل عزم‘ دوم بڑے اور کٹھن چیلنجوں سے نمٹنے کا حوصلہ اور سوم اپنے دشمنوں تک کو معاف کرنے کی خوبی۔
جسمانی طور پر وہ آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگر ان کے نظریات اور تصور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ جن اصولوں اور اقدار کیلئے وہ زندگی بھر لڑتی رہیں اور ان کیلئے اپنی جان بھی دے دی وہ آج بھی اتنے ہی قابل عمل ہیں جتنے ماضی میں تھے۔ یہ اقدار آج ہمیں درپیش مختلف نوعیت کے چیلنجوں کے خلاف ہماری لڑائی میں بنیادی نکتہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو نے انسانی آزادی‘ عام آدمی کو بااختیار بنانے اور ایک فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا۔ مئی 1995ء میں سپریم کورٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ”افراد کو تو مارا جا سکتا ہے مگر نظریات کو نہیں‘ نظریات لوگوں کے دلوں اور دماغ میں بستے ہیں“۔ اگرچہ ان کی متاثر کن زندگی کے کئی پہلو ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث میں خود کو چند ایک تک محدود رکھوں گا۔ پہلا اور اہم ترین پہلو ان کا عسکریت پسندی‘ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔ انہوں نے 1994ء میں کاسا بلانکا میں او آئی سی کے ساتویں سربراہ اجلاس سے اپنے کلیدی خطاب میں ہمیں اس لعنت کے بارے میں واضح طور پر خبردار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”آج انتہاپسندی ایک چیلنج ہے‘ اس سے پہلے کہ یہ چیلنج ہم پر حاوی ہوجائے اور اپنے پیچھے تباہی چھوڑ جائے ہمیں مل کر اس کو سمجھا اور اس پر قابو پالینا چاہیے“۔
وہ جانتی تھیں کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ان کے موقف کے باعث ان کی زندگی کوخطرات لاحق ہیں لیکن اس قوم کا مستقبل اور فلاح و بہبود انہیں انتہائی عزیز تھا اور وہ پاکستان کے تحفظ کیلئے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار تھیں۔ مایوسی پھیلانے والوں نے ایک فرد کو تو شہید کر دیا مگر وہ اس نظریہ کو خاموش نہیں کر سکے جس کیلئے انہوں نے ہمیشہ جدوجہد کی۔ دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف مختلف طبقہ ہائے فکر کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونا شہید بینظیر بھٹو کی قربانی کا مرہون منت ہے۔ انہوں نے اندھیرے کی پجاری قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان مہلک خطرات کی حقیقت سے قوم کو آگاہ کیا‘ اس طرح دہشت گردی کے ہاتھوں شہادت کا انتخاب کرکے انہوں نے وطن عزیز کے مستقبل کا تحفظ کیا ہے۔ ہمارے عظیم وطن نے انتقام کی سیاست کی بناء پر بہت نقصان اٹھایا ہے‘ کم سے کم قومی ایجنڈے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے کے فقدان کی وجہ سے جمہوریت بار بار پٹڑی سے اترتی رہی اور آمرانہ دور کا دروازہ کھلا جس سے متعدد مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کے ساتھ ان کا تاریخی ”میثاق جمہوریت “ پر دستخط کرنا ملک کے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے کی مخلصانہ کاوش کا عکاس ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر قوم کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے تو یہ صرف جمہوری نظام کے تسلسل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اگست 1989ء میں پورٹ قاسم کراچی میں اپنے خطاب میں کہا ”تشدد کی سیاست ہمارے عوام کی امیدوں‘ خوابوں اور امنگوں کی کٹر دشمن ہے“ لہٰذا انہوں نے مفاہمت اور ہم آہنگی کی سیاست کی روایات کی بنیاد رکھی۔ انہیں یقین تھا کہ عام آدمی کی بہتری جمہوریت کے تسلسل اور بہتر اسلوب حکمرانی کے قیام میں ہے۔ انہوں نے اس وقت نیشنل ڈیفنس کالج میں اپنے خطاب میں کہا ”بنیادی عناصر جو پاکستان کے میرے تصور کا تعین کرتے ہیں وہ وفاقی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ایک جدید‘ روشن خیال سماجی جمہوریت ہے“۔
شہید بے نظیر بھٹو کے وژن کی رہنمائی میں موجودہ جمہوری حکومت نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم اصلاحات کی ہیں۔ اڑھائی سال کے مختصر عرصہ میں ہم نے میلوں کا فاصلہ طے کیا ہے‘ میری حکومت کی متعارف کردہ اصلاحات میں عام آدمی جو حقیقی فریق ہے کے مفاد میں ریاستی پالیسی کی تشکیل نو پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ آغاز حقوق بلوچستان کا اقدام‘ 7ویں این ایف سی ایوارڈ کی منظوری‘ 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری‘ گلگت بلتستان سیلف گورننس اینڈ ایمپاورمنٹ ایکٹ‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ خواتین کے استحکام کیلئے متعدد اقدامات اور دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف کامیاب جنگ جیسی تاریخی کامیابیاں ہماری شہید بے نظیر بھٹو کی یاد اور وژن سے منسوب ہیں۔ ان کٹھن ذمہ داریوں کی انجام دہی کی کاوش کے دوران ہماری اتحادی حکومت اور میں نے اپنی شہید رہنما کی مفاہمت اور ہم آہنگی کی سیاست سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ اتحادی حکومت کے تحت وطن عزیز میں تاریخ رقم کی جا رہی ہے جیسا کہ ہم طرز حکومت اور اصلاحات کے تنظیمی مسائل کے ساتھ کامیابی سے نبرد آزما ہوتے ہیں جو ماضی میں حل طلب رہے تھے۔ یہ محض ایک نرم آغاز ہے’ یہ پہلا قدم ہے جو اٹھانا مشکل ہوتا ہے اور شکر ہے کہ اس مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ ابھی وہ دن نہیں آیا کہ ہم اپنے پچھلے کارناموں پر مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں‘ ہم مطمئن ہوکر بیٹھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ کیونکہ ہم نے وہ عظیم ذمہ داریاں ابھی نبھانا ہیں جو ہمارے شہید راہنماؤں نے ہم پر ڈالی ہیں۔ وفاق پاکستان کو مضبوط بنانا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔
آئیے ملک کو سنگین چیلنجوں سے نکالنے کیلئے ہم مفاہمت‘ ہم آہنگی اور دوستی کے جذبے کے تحت ایک دوسرے سے مل کر کام کریں جب ہم آگے بڑھیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں آئندہ مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے ‘لیکن ان پر قابو پانے کا ہمارا عزم عظیم تر ہونا چاہیے‘ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان کے بارے میں خواب پر اختتام کروں گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھتی ہوں جہاں ہم اپنے سماجی وسائل کو انسانی زندگی کی ترقی کیلئے خرچ کرنے کا عزم کر سکیں اس کی تباہی کیلئے نہیں۔“

تازہ ترین