• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈائری کر دریا میں ڈال!...آفتابیاں… آفتاب اقبال..مولانا فضل الرحمن

خداکرے کہ یہاں کی پوشیدہ قوتوں کا بیڑہ غرق ہو جائے کہ جنہوں نے ہمیں خواہ مخواہ کی ہلاشیری دی اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے دُم پر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ جس آرام اور سکون کے فساتھ زرداری صاحب ”گٹوں پر سواہ“ یعنی راکھ مل کر بیٹھے ہوئے ہیں، اس حساب سے تو لگتا ہے یہ اگلے پانچ سو سال بھی کہیں نہیں جاتے۔ اب سوچتا ہوں کہ وزارتیں چھوڑ کر نہایت فضول فیصلہ کیا۔ سواتی بتا رہا تھا کہ اڑھائی سے تین کروڑ روزانہ کا نقصان ہو رہا ہے اور اگر ہم دو چارماہ لگاتار اقتدار سے باہر رہے (اس کے منہ میں خاک) تو پارٹی بیٹھے بٹھائے اربوں روپے سے محروم ہو جائے گی۔ اس بھیانک صورت میں ہمیں باطل قوتوں سے نبردآزما رہنے کے لئے اب بھاری قرضے لینے پڑیں گے۔ لیکن اس مشکل گھڑی میں ہمیں قرضہ تو کیا، کوئی اُسترا بھی نہیں دے گا۔
بہرحال قصور ہمارے سواتی کا بھی ہے کیونکہ اس نے بھی بیچارے حامد سعید کاظمی کی وہ خبر بینی کی ہوئی تھی کہ توبہ ہی بھلی چنانچہ اب جو کچھ بھی ہوا بھگتنا تو پڑے گا ہی البتہ یوسف رضا گیلانی کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس اللہ کے بندے نے کیا سوچ کر ہمارے ساتھ پنگا لے لیا۔ میں نے بھی برصغیر پاک و ہند کے تمام باشعور مولویوں کو مطلع کر دیا ہے کہ اس شخص کے ساتھ کوئی تعلق خاطر مت رکھیں۔ اس کی سیاسی اور مالی اعانت سے کماحقہ  اجتناب کریں۔ اس کے خاندان میں سے کسی شخص کا نکاح تک پڑھانے سے بھی پرہیز برتا جائے حتیٰ کہ اگر یہ اپنے لئے بھی درخواست کرے تو معذرت ہی کی جائے۔
انشاء اللہ کل صبح پہلی فرصت میں ہی میں یہاں کی پوشیدہ قوتوں کے ساتھ فون پر رابطہ کرکے ان کی حسب ِ توفیق لعن طعن کروں گا تاکہ کچھ اطمینانِ قلب محسوس کرسکوں۔
شجاعت حسین
مونس الٰہی کے دفترپر چھاپہ مروا کر حکمرانوں نے جس کمینگی کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال پوری کائنات میں اور کہیں نہیں ملتی البتہ افریقی ممالک میں اگر ایسا ہوتا ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
نواز شریک رحمتہ اللہ علیہ کو بھی ہر ٹھیک بات ہمیشہ غلط وقت پر ہی یاد آتی ہے۔اب بندہ پچھے کہ یار ملک کو تو دیکھو کن حالات کا شکارہے اور تمہیں اس انتہائی پچھلی عمرے اصولی اور نظریاتی کا بخارچڑھنے لگا ہے۔ کچھ خیال کرو یار ابھی چندروز پہلے ہی تم نے اپنی ساٹھویں سالگرہ منائی ہے۔ اس عمر میں تو بڑے سے بڑا بیوقوف بھی سیانا ہو جاتا ہے، تمہیں عقل پتہ نہیں کب آئے گی۔ یار بیچ میں سے رپھڑ نکالو اور صلح کرو ہمارے ساتھ تاکہ ہم سب مسلم لیگی مل ملا کر ایک بار پھر اس وطن عزیز کو شاہراہ ِ ترقی پر گامزن کرسکیں۔ مگر افسوس کہ یہ شخص سمجھتا ہی نہیں لگتا ہے کسی دشمن نے اس کی عقل پر کالا علم پڑھ کر ”پھوک“ ما دی ہے۔
یوسف رضا گیلانی
یہ جو میرے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جارہا ہے میں اسے خوب سمجھتا ہوں۔ پوری پلاننگ کے تحت مجھ سے استعفیٰ لیا جارہا ہے۔ یہ جو ذوالفقار مرزا نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کی نوید مسرت دی ہے، وہ دراصل میرے لئے ایک پیغام ہے جو بڑے بھائی صاحب سلمہ کی طرف سے آیا ہے۔ مولوی فضل الرحمن تو مجھے پہلے دن سے ہی برا لگتا ہے۔ پہلے دن سے مراد ہماری حکومت کاپہلا دن ہے، اس کی پیدائش کادن نہیں کیونکہ اس وقت تو یہ بھی خاصا معقول ہوتا ہوگا۔ بس جی، انسان کی صحبت اور نیت اسے اچھے سے برا اور برے سے اچھا کردیتی ہے۔ اب یہ حج سکینڈل اور کنسٹرکشن کمپنی کیس میرے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر اللہ تو دیکھ ہی رہا ہے ناں کہ میرا دامن عصمت ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ میرے یا میرے خاندان کے کسی فرد پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ویسے تو میں پہلے ہی سیاست چھوڑ کر واپس پیری مریدی کی طرف جانے کا مصمم ارادہ کرچکا ہوں بس صرف چند ماہ کی تاخیر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نیا دربار شریف میں نے لندن میں بنانا ہے کیونکہ اقتدار پر لعنت بھیجتے ہی میں وہاں شفٹ ہو جاؤں گا۔ تمام انتظامات مکمل ہیں۔ آپ چاہیں تو خفیہ ایجنسیوں سے پوچھ لیں۔
تازہ ترین یہ ہے کہ میری وزارت ِ عظمیٰ پر عنقریب ڈاکہ مارا جانے والا ہے کیونکہ مولوی فضل الرحمن جس کے اشاروں پر ناچ رہا ہے میں بخوبی جانتاہوں۔ ویسے مولوی صاحب کو ناچتے وقت اپنے منصب کا نہیں تو کم از کم جثے کا خیال تو ضرور رکھنا چاہئے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ متحدہ والے بھی خواہ مخواہ کی رنگ بازی کر رہے ہیں اور حسب ِ سابق کچھ لے دے کر پھر سے وہیں جا بیٹھیں گے جہاں سے اُٹھ کر آئے ہیں۔ ملتانی اسلوب میں اس صورتحال کے لئے نہایت موزوں الفاظ ہیں کہ:
جتھاں دی کھوتی ، اُتھاں آن کھلوتی!
ملتان سے یاد آیا کہ میری جگہ جس نئے گھوڑے کو تیار کیا جارہا ہے وہ بھی بدقسمتی سے ملتانی ہی ہے۔ جی ہاں، میری مراد شاہ محمود قریشی سے ہی ہے کیونکہ گھوڑوں جیسی چال ڈھال اور شکل و شباہت اسی کی ہے۔ البتہ میں اسے اتنا ضرور بتانا چاہوں گا کہ جس وزارت ِ عظمیٰ کے خواب تم دیکھ رہے ہو بچو، یہ کانٹوں کا بسترہے، پھولوں کی سیج نہیں۔ دیکھئے پھولوں کی سیج کا ذکر آتے ہی دھیان لامحالہ ملک غلام مصطفی کھر کی طرف جا نکلا ہے۔ حد ہوگئی یار۔

تازہ ترین