برے دنوں میں ماں کی دعا کے ٹھنڈے سائے جیسی سرما کی پہلی بارش…
زندگی کی پہلی یاد رہ جانے والی تند و تیز خواہش جیسی سرما کی پہلی بارش…
لمبی پیاس کے بعد ٹھنڈے پانی کے پہلے گھونٹ جیسی سرما کی پہلی بارش…
پہلے بچے کی پہلی آواز جیسی سرما کی پہلی بارش…
پہلی محبت کے ٹوٹنے پر پہلے آنسو اور پہلی سسکی جیسی سرما کی پہلی بارش…
آخری توبہ کی طلب پرماتھے سے طلوع ہونے والے ندامت کے پہلے قطرہ جیسی سرما کی پہلی بارش…
سیپ کی کوکھ میں نازل کی گئی پہلی بوند جیسی سرما کی پہلی بارش…
رند کے ٹوٹے جام کے کسی ٹکرے میں چھپے گھونٹ جیسی پہلی بارش…
موت کی آخری ہچکی کے ساتھ لہو کی جم جانے والی آخری بوند جیسی بارش…
موسم بہار میں کوئل کی پہلی کوک، مور کے پہلے رقص اور جنگلی کبوتر کی پہلی الٹ بازی جیسی بارش…
کچی قبر پر پانی کے پہلے چھڑکاؤ جیسی موسم سرما کی پہلی بارش…
جلا اور پگھلا دینے والی گرمی میں اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرنے والے بچے کے پسینے جیسی بارش…
وارث شاہ کی ہیر کے سراپے ،گور کی کی ماں، منٹو کے افسانے، پوشکن کی نظموں، منیر نیازی کی شاعری، ایملی برونٹے کی ”ودرنگ ہائٹس“ ،سقراط کے پیالے کے زہر، سپارٹکس کی قربانی ،پورس کی مزاحمت، ٹیپو سلطان کے آخری زخم، ہومر کے اندھے پن، کنفیوشس کے اقوال، کالی داس کی شکنتلا،سعدی کی گلستان، چیخوف کی کہانیوں، حافظ کے دیوان، مائیکل جیکسن، بٹیلز،ایلوس اور فرینک سناٹرا کے گیتوں، رفیع کی تان، مکیش کی گنگناہٹ، ہیمنت اور مناڈے کی گھمبیرتا، لتا کی ریشمی آواز، عمر خیام کی رباعیات، ہڑپہ اور موہنجوڈارو کے کھنڈرات، خورشید انور ، نوشاد، شنکر جے کشن، ماسٹر عبداللہ اور بابا چشتی کی دھنوں، موپساں، ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم کی محبت، مارلن منرو کی مسکراہٹ، سدھارتھ کی تپسیا، ویواز پاٹا کی جی داری، مدر ٹریسا کی انسان دوستی، نیوٹن کے رتجگوں، آئین سٹائن کے وائلن، گمناموں کی الف لیلیٰ اور بچھڑے ہوئے دوستوں کی بھیگی ہوئی یادوں جیسی موسم سرما کی اس پہلی بارش کے لئے میں نے باقاعدہ بہت دعائیں مانگیں کیونکہ پودے ،پتے، بچے، بوڑھے، سب بہت ہی بری طرح مرجھائے اور کملائے ہوئے تھے سو طارق محمود کے مقبول ناول کا عنوان میری زبان پر ورد کی طرح جاری رہا۔
اللہ میگھ دے
اللہ میگھ دے
اللہ میگھ دے
خشک سردی بغیر بارش کے خود چٹخنے لگی تھی، پوری فضا آلودگی میں لپٹی آسمانی غسل کی منتظر تھی…گندم اور چارہ کی فصلوں سے لے کر مال مویشی تک کون دعاگو نہیں تھا۔ ایسی خشک سردی محروم طبقات کے معصوم بچوں اور معمر بزرگوں کے ساتھ کس سفاکی سے پیش آتی ہے؟شہروں کے معزز اور مہذب اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ قوت خرید صفر، ڈاکٹر غائب سو مختلف موسمی بیماریوں کے نرغے میں آئے یہ لوگ ٹونے ٹوٹکوں یا عطائیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
بارش برستے ہی کیا پودے، کیا جانور کیا انسان … سب میں جیسے جان سی پڑگئی۔ہر شے پر چھایا ہوا میلا اور دھند لاپن دھل کر چمک اٹھا، پیلی پڑتی ہوئی گھاس کو جیسے کسی نے سبزے کا انجکشن لگا دیا ہو، ہوا میں نمی نے اسے مہربان کردیا۔
کم لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ خشک سردی کی دھند جتنی بھی گہری ہو نسبتاً جلدچھٹ جاتی ہے لیکن بارش کے بعد والی دھند جلد چھٹنے کا نام نہیں لیتی اور اگر کوئی اس کی لپیٹ میں آجائے تونہ آگے کا رہتا ہے نہ پیچھے کا۔ ایک تو میں رہتا مضافات میں ہوں اوپر سے اس سال سیلابوں نے بھی کام دوآتشہ کردیا۔ گزشتہ جمعرات ”چوراہا‘کی ریکارڈنگ سے فارغ ہو کر ماڈل ٹاؤن کلب پہنچے جہاں سے مجھے اپنی گاڑی لینا تھی۔ گھر سے وقفہ وقفہ کے ساتھ فون پر مطلع کیا جارہا تھا کہ موسم ٹھیک ہے۔ تقریباً 10بجے عاصم کی کال آئی کہ دھند پڑنی شروع ہوچکی ہے۔ ملتان روڈ تو ”صاف“ ہی ہوگی البتہ”سندر“ سے ”بیلی پور“ تک شاید ذرا مسئلہ ہو سو یا تو فوراً نکلیں یا ماڈل ٹاؤن ہی رک جائیں۔ میں نے لمحہ بھر میں فیصلہ کیا کہ نکلتے ہیں، ٹھوکر نیاز بیگ تک سب ٹھیک تھا لیکن پل اترتے ہی منظر بدلنا شروع ہوگیا جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے دھند کی چادر دبیز تر ہوتی چلی گئی۔ حال یہ تھا کہ بڑی سی بڑی روشنی بھی زیادہ سے زیادہ جگنو سے بھی کم اور سچوئشن ایسی کہ آگے جانا انتہائی خطرناک،واپس پلٹنا سرے سے ناممکن اور کسی جگہ رک جانا بھی حماقت کیونکہ چند فٹ کے فاصلہ سے بھی”بلنکر“کا جلنا بجھنا دکھائی نہ دیتا تھا…اک ایسا ایڈونچر جو مسلط ہوچکا تھا صرف ایک سپورٹ تھی کہ اپنے سے آگے کی گاڑیوں بلکہ ٹرکوں اور بڑے وہیلکز کی ٹیل لائٹس سے تیرتکے چلا رہے تھے۔ تقریباً 18کلو میٹر کا یہ سفر اعصاب شکن لیکن سندر کا موڑ مڑنے کے بعد تو جیسے بالکل ہی اندھی سرنگ میں داخل ہوگئے۔ سڑک مکمل طور پر سنسان ،نہ اپنے آگے کوئی ٹریفک نہ مخالف سمت سے آتی کوئی روشنی یعنی رہزنی کے لئے بھی پرفیکٹ اور آئیڈئل ماحول، پچھلی نشست پر بیٹھے فاضل
اور قیوم نے اسلحہ سیدھا کیا اور میں نے انہیں کہا کہ ایک سڑک کے دائیں اور دوسرا بائیں کنارے پر نظر رکھے کہ کسی طرف بھی پہیہ اتر گیا تو جیپ الٹ سکتی ہے۔ گھر سے پریشان فون…”کہاں رہ گئے؟“ تو میں نے کہا”گڈے پر آرہے ہیں وقت لگے گا اور اب کال نہ کریں“ تقریباً چار کلو میٹر کا یہ سفر چالیس ہزار کلو میٹر کے سفر سے زیادہ تھکا دینے والا تھا۔ ایک سٹیج پر فاضل اور قیوم نے کہا کہ وہ جیپ کے آگے آگے چلتے ہیں۔ میں نے رد کردیا۔ پوری یکسوئی اور چھ آنکھوں کے باوجود تین چار بار سڑک سے اترتے اترتے بچے۔ معمول کا یہ سفر یادگار بن گیا…گھر تک پہنچتے پہنچتے تھکن کی بھرمار اور یلغار تھی لیکن اس سب کے باوجود سرما کی پہلی بارش بچپن کی پہلی خواہش سے کم خوبصورت نہ تھی۔