• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2017ء کی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے۔آئندہ عام انتخابات کے بر وقت انعقاد کیلئے اِس مسئلے کا حل ناگزیر ہے ۔ اس مقصدکیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بھی ہوئے مگر اِس حوالے سے کوئی اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن تاخیر کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سےحکومتی جماعت کو 10 نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم اِس ڈیڈ لائن میں ایک ہفتے یا دس دن کی گنجائش کا عندیہ دے دیا گیا ۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ڈیڈ لاک کے بعد پی پی پی کو راضی کرنے کیلئے 13نومبر کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اُنکے آفس میں ہو گا جبکہ اجلاس میں کونسل کے ممبران اسحٰق ڈار، ریاض حسین پیرزادہ، غلام مرتضیٰ جتوئی اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ شامل ہوں گے۔تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے اِس اجلاس کے حوالے سے اپنی حکمت عملی وضع کرلی ہے ۔اِس سے قبل وفاقی وزیر قانون نے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی کو بتایا کہ 2017ء کی مردم شماری صوبوں کی طرف سے فراہم کی گئی شہری حد بندیوں کے مطابق کی گئی ہے۔ لاہور میں ضلع قصور کی چند یونین کونسلز شامل ہونے اور لاہور میں شرح پیدائش کراچی کی نسبت زیادہ ہونے کی وجہ سے لاہور کی آبادی کراچی سے زیادہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نادرا نے مردم شماری کے دوران ادارہ شماریات کی خصوصی معاونت کی اور 6.2 ملین مشکوک افرادکا ڈیٹا نادرا سے تحقیقات کے بعد مردم شماری کے اعداد و شمار میں شامل کیا گیا۔نئی حلقہ بندیاں اور انتخابات کا بر وقت انعقاد آئینی تقاضا ہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور جمہوریت کا پہیہ رواں رکھنے کیلئے مزید تاخیر کئے بغیر حلقہ بندیوں کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

تازہ ترین