اسلام آباد (انصار عباسی) جنرل (ر) پرویز مشرف کے مبینہ غلط اقدامات حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی اب تک کی قانونی رائے یہ رہی ہے کہ ادارہ ان کیخلاف آرمی چیف یا پھر صدرِ پاکستان کی حیثیت سے کارروائی نہیں کر سکتا۔ بیورو کے ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ماضی میں پرویز مشرف کیخلاف شکایات پر کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی کیونکہ نیب کے لیگل ونگ نے یہ رائے دی تھی کہ آئینی اور قانونی پابندیوں کی وجہ سے نیب قوانین کے تحت پرویز مشرف کیخلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
حال ہی میں مقرر کیے جانے والے نیب کے نئے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تحت، بیورو کے ماہرینِ قانون کی جانب سے اس متنازع تشریح کا از سر نو جائزہ لیے جانے تک نیب پرویز مشرف کیخلاف دو وجوہات کی بناء پر شکایات ختم کرتا آیا ہے: ۱) آرمی چیف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے فوجی زمین سویلین بشمول سیاستدانوں کو دینے اور اختیارات کے ناجائز استعمال سمیت جو کچھ بھی غلط اقداماتک یے ان پر نیب ان کیخلاف کارروائی نہیں کر سکتا کیونکہ نیب کے قانون میں عدلیہ اور فوج کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال یا پھر ان کی کرپشن کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
۲) صدرِ پاکستان کی حیثیت سے جو کچھ بھی پرویز مشرف نے کیا اس پر انہیں آئین کے آرٹیکل 248؍ کے تحت استثنیٰ حاصل تھا۔ اگرچہ نیب کے قوانین میں ’’عوامی عہدہ رکھنے والے‘‘ (پبلک آفس ہولڈر) کی تشریح میں صدر مملکت کا عہدہ بھی شامل ہے لیکن نیب کے ذریعے کا کہنا تھا کہ نیب کے ماہرینِ قانون آئین کے آرٹیکل 248؍ کا حوالہ پیش کرتے ہیں جو بیورو کو پرویز مشرف کیخلاف کسی بھی طرح کی تفتیش یا تحقیقات شروع کرنے سے روکتا ہے۔ ایک اور سرکاری ذریعے نے یہ الزام عائد کیا کہ پرویز مشرف کے حامی عناصر کی بیورو میں موجودگی کی وجہ سے اقتدار سے نکال باہر کیے جانے والے آمر کیخلاف قانونی یا پھر آئینی رکاوٹوں کو وجہ قرار دے کر شکایات ختم کر دی جاتی ہیں۔
ذریعے نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 248؍ میں صدارتی استثنیٰ صرف صدارتی عہدے کی مدت تک کیلئے حاصل ہے نہ کہ تاحیات۔ کہا جاتا ہے کہ نیب کے قانون میں صدر اور گورنر کے عہدوں اور دیگر عوامی عہدوں بشمول وزیراعظم پاکستان عہدوں میں اسی بنیاد پر فرق رکھا گیا ہے۔ صدر اور گورنر کے معاملے میں قانون میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص پاکستان کا صدر یا پھر کسی صوبے کا گورنر رہ چکا ہے۔‘‘عوامی عہدہ رکھنے والوں کے حوالے سے نیب قانون میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی ہے یا رہ چکا ہے ۔۔۔۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر اور گورنر کیخلاف اس وقت تک کارروائی نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے عہدے پر موجود ہیں۔ اسی دوران، معلوم ہوا ہے کہ نئے چیئرمین کے تحت نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کا پہلا اجلاس 16؍ نومبر کو ہوگا، توقع ہے کہ اجلاس میں بیورو کی پالیسی سمت کا تعین کیا جائے گا۔
اب تک اپنے پیش رو کے مقابلے میں پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے نئے چیئرمین نے 20؍ گریڈ کے افسر کیخلاف انکوائری یا انوسٹی گیشن شروع یا ختم کرنے یا پھر ایسے کیسز میں پلی بارگین کی سہولت دینے کے بیورو کے علاقائی سربراہان (ریجنل چیفس یعنی ڈائریکٹر جنرلز) کے اختیارات واپس لے لیے ہیں۔ اب علاقائی ڈائریکٹر جنرلز کے پاس وہی اختیارات ہوں گے جو 19؍ گریڈ کے سرکاری ملازمین کے پاس ہوتے ہیں۔