کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق وزیراعظم پاکستان ، رکن قومی اسمبلی میر ظفر اللہ جمالی نے کہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک بے اختیار وزیرا عظم ہیں،اصل ہدایت تو کوئی اور دے رہا ہے،پارلیمنٹ اور حکومت مقررہ مدت سے پہلے ختم ہوسکتی ہے ،شاہد خاقان عباسی ڈیلیور نہیں کرسکتے تو عہدہ چھوڑ دیں ۔میں تیسرے شریف کے ساتھ ہوں ، کچھ نااہل وزراء کے حوالے سے نواز شریف کو بار بار توجہ دلائی مگر میری بات نہیں سنی گئی ۔ ملک میں مارشل لاء خارج از امکان نہیں۔بھٹو کی پھانسی آرڈرپر ضیاءالحق نے بتایا کہ میں ساری رات سجدے کرتا رہا۔ وہ ہ جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے ۔ ظفر اللہ جمالی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو چاہئے کہ وہ خود شاہد خاقان عباسی کو لے کر آئے ہیں تو اپنی ذمہ ادری کو محسوس کرتے ہوئے ان کو کام کرنے دیں اگر وہ کام کرنے دیں گے تو یہ چیز اچھی ہوگی او راس سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے۔
سلیم صافی کے اس سوال کہ کیا نواز شریف کام کرنے نہیں دے رہے کہ جواب میں ظفراللہ جمالی کا کہنا تھا کہ سوچنے اور کنٹرول کرنے والا کوئی اور ہے جس کے پاس ریموٹ کنٹرول ہے میں شاہد خاقان عباسی سے کہوں گا کہ وہ آئینی وزیراعظم ہیں اپنا کام کریں ۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے ہمت کرنے او ردیکھنے میں فرق ہے عوام ہمت دیکھنا چاہتی ہے جس پر سلیم صافی کاکہنا تھا کہ کیا آپ شاہد خاقان عباسی کو اپنی قیادت سے اکسا رہے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں اکسا نہیں رہا میں خود نواز لیگ کا حصہ ہوں ، میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر عزت دو گے تو بدلے میں عزت دوں گا اس وقت ن لیگ کی حکومت بے راہ روی کے راستے پر چل پڑی ہے اور میری نظر میں اس سے بڑی بے ایمانی کوئی اور ہو نہیں سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک ہوتی ہے کچن کیبنٹ لیکن نواز شریف نے چار پانچ وزراء شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، سعد رفیق ، اسحاق ڈار ، پرویز رشید پر مشتمل ایک چکن کیبنٹ بنا رکھی تھی او روہ انہی کے قریب رہے ۔ سلیم صافی کے سوال کہ ادارے نواز شریف سے لڑے یا نواز شریف اداروں سے لڑے کے جواب میں میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ ادارے گورنمنٹ کے ہیں اور جب ادارے گورنمنٹ کے ہیں تو پھر وہ گورنمنٹ سے کیسے لڑیں گے ، ادارے تو پاکستان کے ہیں اور کام بھی پاکستان کے لئے کررہے ہیں وہ تو حکومت سے نہیں لڑیں گے ۔
اگر آپ آئین کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے تو پھر جو آؤٹ سائیڈ ڈیمانڈ ہوں گے اس کو ماننے کو تیار نہیں ہوں گے اور ایسا ہی میرے ساتھ ہوا تھا میں بھی ان کو ماننے کو تیار نہیں ہوا کرتا تھا ،میرا اپنا خیال ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت مقررہ مدت سے پہلے ختم ہوسکتی ہے ۔حکومت پارلیمان کا تسلسل جبکہ کچھ لوگ سینیٹ الیکشن سے قبل خاتمہ چاہتے ہیں ۔ سلیم صافی کے سوال کہ آپ نواز شریف کے ساتھ ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ ہیں کے جواب میں میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ میں تیسرے شریف کے ساتھ ہوں جو پاکستانی شریف ہے ۔ میرا کسی سے کوئی تناؤ یا جھگڑا نہیں ہے ، سیاست اور عہدے اپنی جگہ پر میں دونوں بھائیوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔میاں صاحبان کی بھارت کی کاروباری شخصیات سے دوستیاں ہیں ، عدالت ان سے پوچھتی ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا ، نواز شریف ڈیڑھ سال میں بھی نہیں بتاسکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ بارڈر کیا ہے صرف ایک لکیر لگی ہوئی ہے کیا وزیراعظم کو یہ کہنا چاہئے تھا بالکل بھی نہیں ، آپ پاکستانی کو انڈین کے ساتھ کیوں ملارہے ہیں ، نریندر مودی مکتی باہنی کو سپورٹ کرنے کی بات کرتا ہے او ریہ اس کے ساتھ یاری دوستیاں نبھارہے ہیں جو سب کی نظروں میں ہیں ۔ سلیم صافی کے سوال کہ اب نواز شریف پر مشکل وقت ہے تو آپ ان کے خلاف بول رہے ہیں جب وہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں گئے اس وقت آپ نہیں بولے ، جب مودی پاکستان آئے آپ نہیں بولے جس پر ظفر اللہ جمالی کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں تو میں کسی کو بھی نہیں چھوڑتا ،میں نے 98 میں ان کو آگاہ کردیا تھا آپ کے کچھ وزراء اور بیورو کریٹ غلط راہ پر جارہے ہیں جو آپ کے لئے تکلیف کا سبب بنے گی جس پر انہوں نے کہا نام لکھ کر دیں میں نے نام لکھ کر دیدیئے ۔
19ستمبر 1999ء میں میری میاں صاحب سے میٹنگ تھی اس میٹنگ میں میں نے پھر آگاہ کیا کہ غلط راہ پر جانے والے وزراء اور بیورو کریٹ کی تعداد بڑھ گئی ہے ان سب کو فارغ کریں ہم نے اپنا فرض پورا کیا تھا ۔ میں نے ڈھائی سال پہلے بھی میاں صاحب کو متنبہ کردیا تھا کہ اپنے تمام وزراء کو بلائیں جنہوں نے اچھا کام کیا ان کو کام جار ی رکھنے کا کہیں اور جو صرف منسٹری کی خاطر بیٹھے ہیں ان کو خدا حافظ کہیں جو میرا فرض تھاوہ میں نے پورا کیا ،دوست اور سجن وہ ہے جو دوست کو اس کی غلطی بتائے جو غلطی نہ بتائے وہ اس کا دشمن ہے مگر جب آپ ہی نہ سمجھیں تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے ۔ سلیم صافی کے سوال نواز شریف کے خلاف فیصلہ درست ہے عدالت سے اس کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اصل فیصلہ تو خدا کرتا ہے ، خدا کے نائبین سپریم کورٹ کے ججز ہیں، ہم کسی کے ارادے ، نیت یا شخصیت پر شک نہیں کرسکتے کیونکہ اس فیصلے کی توفیق ان کو خدا نے دی ہے ۔
سلیم صافی کے سوال بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کرنے والے ججز کوبھی تو توفیق خدا نے دی تھی اس کو بھی درست کہا جائے گا کے جواب میں ظفر اللہ جمالی کا کہنا تھا کہ میں ضیا کابینہ میں گیا نہیں بھیجا گیا تھا، پہلے پیر پگارا مجھے لے کر گئے پھر مجھے جنرل رحیم الدین اور محمود ہارون لے کر آئے، مجھے باخدا پتہ ہی نہیں تھا ، ایک دن کابینہ کی میٹنگ میں،میں نے ضیا صاحب سے صرف اتنا پوچھا کہ بھٹو کی پھانسی کا آرڈر آپ نے دیا تو آپ پر کیا گزری تو انہوں نے کہا کہ میں ساری رات جائے نماز پر سجدے کرتا رہا اور اللہ سے کہتا رہا کہ اللہ رب العزت میں نے یہ کیا ہے تو مالک ہے تو جانے تیرا کام جانے ۔ بھٹو کے خلاف عدلیہ کے فیصلے کو میں غلط نہیں سمجھتا،یہ فیصلہ قابل بحث ہے ،آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ججز غلط فیصلے کرتے ہیں ، بھٹو پھانسی فیصلے کے باوجود سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو غلط کہنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے ۔ انہیں بھی خد اکو جان دینی ہے ہم کسی کے ایمان پر کیوں اور کیا شک کریں ہمیں اس کا اختیار نہیں ہمیں پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے ۔ ہم اس قابل نہیں کہ ہم جوڈیشری کو کہہ سکیں کہ آپ نے غلط فیصلہ دیا ہے ۔