یہ مطالبہ مغرور اور خود پرست امریکہ کا نہیں بلکہ محب وطن پاکستانیوں کا ہے جو پے در پے حادثات کی زد میں، خونریز اور بے رحم واقعات سہنے کے باوجود اب بھی ڈرے تو نہیں ہیں لیکن انہیں مستقبل کی تشویش نے آن گھیرا ہے، وہ جو مشرقی پاکستان سے جدائی کا شعور رکھتے ہیں ان پر تشویش کے ساتھ جھنجھلاہٹ طاری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم پیہم خونی واقعات کو رونما ہوتے دیکھ کر بھی محض ان کی تعداد میں کمی سے مطمئن ہیں حالانکہ ہماری رگِ جاں سے لہو مسلسل بہہ رہا ہے۔ حادثات کم ضرور ہوئے ہیں مگر ختم تو نہیں ہوئے۔ خون بہنا کم ہو گیا لیکن رکا تو نہیں، قلیل مقدار میں مسلسل لہو بہے جانے سے جان سلامت نہیں رہ سکتی، ہاں جان کنی کی اذیت ضرور بڑھ جاتی ہے۔
خونخوار درندے موسم کی شدت سے گھبرا کے اپنے بھٹ میں جا سوئیں تو کیا جنگل پُرامن ہو جائے گا؟ رت بدلتے ہی سب درندے پھر سے نکل آئیں گے اور بھوک کی شدت انہیں زیادہ دلیر اور خونخوار بنا دے گی۔ جنگل کا قانون شاید پھر بھی ہمارے شہروں سے بہتر ہے کہ جب درندوں کی بھوک مٹ جائے گی تو وہ کچھ دیر کیلئے بے خبر نیند کا مزہ لیتے رہیں گے۔ اس دوران شیر کی دھاڑ، بھیڑیے کی ہوک اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بند ہوجائیں گی تو چرندے سبز گھاس چگنے نکل کھڑے ہوں گے۔ جنگل امن اور سکون کی جگہ بن جائے گا اگرچہ یہ امن مختصر مدت کیلئے ہے، مگر ہے تو سہی۔ ہمارے شہر درندوں سے اٹے جنگل سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہیں یہاں چند لمحوں کا سکون بھی میسر نہیں آتا۔ صرف کراچی میں ہزاروں لوگ قتل کر دیئے گئے، یہ غارتگری تو سیاسی دہشت گرد گروہوں کا کارنامہ ہے۔ سیاسی شعبدہ بازوں نے قاتلوں کے گروہوں کو ’’امن کمیٹی‘‘ اور ’’خدمت خلق‘‘ جیسے مقدس لبادوں میں ڈھانپ رکھا تھا۔ ایک ایک ملزم نے سینکڑوں بے گناہوں کا قتل کیا۔ بھتہ نہ دینے پر اڑھائی سو مزدوروں کو زندہ جلا ڈالا۔ بھارتی اسلحہ، نیٹو کنٹینروں کی چوری، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی فنڈنگ، کلبھوشن کا اعتراف، ایم کیو ایم لندن کی ایما پر پاکستان میں کام کرنے والے نام نہاد سیاسی گروہ کے علم اور ارادے کے بغیر سارے جرائم کئے جاتے رہے؟ صرف ایک شہر میں ہزاروں بے گناہوں کی لاشیں ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔ روشن دن میں کھلی آنکھوں کے ساتھ تیز رفتار ترقی کرتے کراچی کو غربت، گندگی، دھول اور دھوئیں میں بدلتے دیکھا۔ دوسری طرف بلوچستان میں ہفتے، دس دن کے اندر کتنے معصوم اور بے گناہ ہنستے مسکراتے لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 9نومبر کو ڈی آئی جی حامد شکیل سمیت تین اہلکار شہید کر دیئے گئے۔ 13نومبر کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے حملے میں کیپٹن جنید حفیظ اور سپاہی رحم داد شہید ہوگئے اس کے صرف ایک دن بعد 15نومبر کو نواں کلی کوئٹہ میں گاڑی پر فائرنگ کر کے ایس پی انویسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹے اور پوتے کو شہید کر دیا گیا اور ایک پوتی شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں پڑی ہے۔ ایک حملے نے تین نسلوں کا صفایا کر دیا۔ اسی دن تربت میں پندرہ بے گناہ پنجابی مزدوروں کی لاشیں ملیں جنہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا اور دو دن کے بعد مزید پانچ پنجابیوں کی لاشیں پائی گئی ہیں۔ اگرچہ باجوڑ چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والے دس دہشت گرد ہلاک کر دیئے گئے اور پندرہ پنجابی مزدوروں کو گولی کا نشانہ بنانے والا یونس توکلی بھی انجام کو پہنچ گیا اور سیہون مزار پر قتل عام کرنے والے سہولت کار نادر جاکھرانی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن ہم کب تک بے قیمت، بے وقعت کنکر، پتھر اور جھاڑ، جنکار کے عوض کیپٹن جنید، ایس پی الیاس، ڈی آئی جی حامد شکیل جیسے ہیرے، موتی، لعل و گوہر لٹاتے رہیں گے۔
عالمی ٹیررازم انڈیکس کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ 2016ء میں پاکستان نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں پھر بھی اس سال دہشت گردی کے 736واقعات ہوئے جس میں تقریباً ایک ہزار لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ زخمیوں کی تعداد اور مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے چار صوبوں میں سے تین میں امن و امان قائم کرنے اور خونریزی کے واقعات کو روکنے کیلئے فوج اور اس سے متعلق خفیہ ادارے سرگرم عمل ہیں۔ فاٹا اور بلوچستان میں تو گویا فوج باقاعدہ حالت جنگ میں ہے۔ پنجاب کے ساتھ ملحقہ کشمیر کی سرحد پر آئے روز ہندوستانی فوج کی گولہ باری سے شہری آبادیوں کو نقصان اور ہلاکتوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے گولہ باری کی حالیہ واقعات میں پچاس سے زیادہ شہری اور فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ جب ہم کراچی کے جرائم پیشہ سیاستدان، بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کی طرف سے خونریزی اور افغانستان سے آنے والے خود کش بمباروں کی درآمد اور گوریلا حملوں کے واقعات، ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ، جنیوا اور لندن میں پاکستان مخالف اشتہارات، پاک چین راہداری کو نقصان پہنچانے کیلئے پچاس ارب روپے کے فنڈز کی فراہمی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان سارے واقعات کی پشت پر ایک ہی نام نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور وہ ہے انڈیا کی ’’خفیہ ایجنسی را‘‘۔ اب انہوں نے پاکستان کے خلاف آپریشنز کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی چھوڑ دیا ہے آپ انڈیا کے ٹی وی چینلز پر ’’را‘‘ کے موجودہ اور سابق سربراہوں، بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں اور قومی سلامتی کے مشیروں کے بیانات اور تجزیئے سن سکتے ہیں۔ ’’را‘‘ کے سربراہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں جو دہشت گرد بارہ ملین لے کر کسی ایک گروہ کی طرف سے لڑ رہے تھے اگر انہیں اٹھارہ ملین دیئے جائیں تو وہ ہماری طرف سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سے قومی سلامتی کے مشیر ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی سر زمین کو ہم اپنے لئے ہموار کرتے جارہے ہیں۔ مارچ اپریل 2018ء میں حملہ کر کے اس کے سارے کس، بل نکال دیں گے۔ اس کے علاوہ ان کے اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے خلاف 4thجنریشن وار شروع کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور فوج کو یہ طے کرنا چاہیے کہ انہیں قومی سلامتی کی زیادہ فکر ہے یا انڈیا کے پروپیگنڈہ سے متاثرہ یورپ اور امریکہ طرف سے آنے والے سفارتی دبائو کی۔
یورپ ہمیشہ سے مسلمانوں کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا رہا ہے اور انڈیا امریکہ اور یورپ کو مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ مہلک خطرے (پاکستان) کے سدباب کا جھانسہ دے کر ان ملکوں کے سفارتی تعاون سے پاکستان کی وحدت کو ختم کرنے کا آغاز کر چکا ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اس مہلک خطرے کے خلاف جی جان سے مردوں کی طرح لڑنا ہے یا شکست و ریخت کے بعد عورتوں کی طرح آنسو بہانے ہیں جس طرح کہ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد آنسو، آہیں اور نوحہ خوانی ہمارا مقدر بنا دیئے گئے تھے جب ہم پوری طرح جان چکے ہیں کہ یہ سارے حادثات ایک ہی ’’ہیڈ کوارٹر‘‘ سے پیدا کئے جا رہے ہیں اور اس کا اصل ماسٹر مائنڈ انڈیا ہے جس نے اپنی خفیہ ایجنسی کو سی پیک ختم کرنے اور پاکستان کی وحدت توڑنے کا مشن سونپ رکھا ہے ان حالات میں کیا انڈیا کا ہاتھ ملوث ہونے کا واویلا کرنا کافی ہے یا اس ہاتھ کو توڑ دینے اور روک لینے کا کوئی علاج بھی سوچ رکھا ہے؟ آرمی ٹیررازم انڈیکس کے مطابق دہشت گردی سے متاثرہ دنیا بھر میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے جب تک انڈیا اس انڈیکس میں پہلے نمبر پر نہیں پہنچ جائے گا تب تک ہماری سلامتی خطرے میں رہے گی۔