• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ کے28جولائی کے نااہلی کے فیصلے کے بعد میاں صاحب پہلے جے آئی ٹی اور پھر نیب کورٹ کی تواتر پیشیاں بھگتنے کے بعد بلاآخر عوامی میدان میں اپنی نئی سیاسی اننگز کھیلنے کیلئے کھل کر سامنے آگئے ہیں، آغاز پی ٹی آئی کے پایہ تخت سے کرتے ہوئے ایبٹ آباد کو اپنا پہلا ہدف بنایا ہے، اپنی چار سالہ حکومت کے کارنامے گنوائے، پھر خود کو ’’انقلابی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسی شخص کو یاد کیا جس نے 99ء میں ان کو طاقت ور اور بااختیار وزیراعظم بننے کی کوشش پر بے اقتدار کر کے غریب الوطن کر دیا تھا۔ میاں صاحب جوش خطابت میں یہ بھی بھول گئے کہ ان کا آج کا میزبان بھرپور سج دھج سے انکے اسی رقیب کے لئے بھی اسی جگہ میلہ سجایا کرتا تھا، بےپروا ہو کر بولے کیا مشرف سے کوئی گلہ کیا گیا، آپ نے تو اس سے کوئی سوال بھی نہیں پوچھا! ظاہر ہے میاں صاحب کا مخاطب میزبان یا حاضرین جلسہ ہرگز نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اشارتاً کہا کہ آپ نے تو راہزنوں کو رہزنی کا جواز فراہم کیا اور ان کے ہاتھ بیعت کی اور آئین پاکستان پھینک کر وفاداری کا حلف بھی لیا، یہ سب سن کر تھوڑی سی عقل اورسمجھ بوجھ رکھنے والا اندازہ لگا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے ابھی تک ایک ہی شخص کو محبوب کیوں بنا رکھا ہے، وہی ایک شخص ہی کیوں ذہن و دل پر ابھی تک سوار ہے، شاید میاں صاحب مشرف کی نامزدگی، تعیناتی کرنے اور دھڑن تختہ ہونے کے بعد پیش آنے والے تحقیر آمیز اور بہیمانہ سلوک کو اب تک نہیں بھولے، حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب 2013میں اقتدار سنبھالتے ہی اپنے دشمن کو آرٹیکل 6کے تحت پھانسی کی سزا دلوا کر نشان عبرت اور آمریت کی تاریخ کا تاریک باب ہمیشہ کیلئے بند کرنا چاہتے تھے،، مجھے یاد ہےکہ ایک اہم موقع پر ان کے ایک قریبی ساتھی نے میرے سامنے انکشاف کیا تھا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے ملزم پر31 مارچ 2014 کو فرد جرم عائد کرنیکے فیصلے کے بعد میاں صاحب بہت زیادہ ایکسائیٹڈ تھے اور اپنے اقتدار کا بڑا مقصد سابق ڈکٹیٹر کو ہر صورت سزا دلوانا سمجھتے تھے لیکن طاقتوروں کی چال نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور خواب ڈراونی تعبیر بن گیا۔ اسی دوران میں نے مشرف کے انتہائی قریبی ساتھیوں، وزرا اور ہم نوالہ و پیالہ کی ن لیگ اور نواز کابینہ میں موجودگی کی طرف توجہ دلائی جو مبینہ جرائم میں اس کے برابر کے شریک تھے اور سوال پوچھا کہ کیسے ممکن ہوگا کہ آج آپکے دائیں بائیں کھڑے لوگ مشرف کو سزا دلوانا چاہیں گے تو میاں صاحب کے قریبی ساتھی گویا ہوئے، آپ سچ کہتے ہیں لیکن شاید اب یہ واقعی بدل چکے ہوں، مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ نااہلی کے بعد میاں صاحب کا بے بسی سے بھرپور جوش خطابت دیکھ کر یاد آیا کہ میاں صاحب انہی کے ہاتھوں یرغمال بن کر نااہل ہوئے جنہوں نے مشرف سے ایمرجنسی لگا کر رسوائی کے گڑھے میں ڈالا تھا۔ میاں صاحب کو روکنے اور سمجھانے کی بجائے مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنا ہی وہ چال تھی جس کا نتیجہ آج میاں صاحب کو نااہلی اور موجودہ حالات سے دوچار ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، میاں صاحب کی رخصتی کے بعد ان کی حکومت کے ماتھے پر ختم نبوت کے حلف کے بارے میں تحریف کے کالنک کا ٹیکا لگانے کا سہرا بھی شاید انہی کے سر ہے۔ مشرف کے قریب سمجھے جانے والے معروف تجزیہ نگار ہمایوں گوہر نے بھی لکھا تھا کہ نوازشریف نے قومی گفت گو کے دھارے کا رخ ملکی مسائل سے موڑ کر مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے مقدمے کی طرف موڑ دیا ہے جس سے انہوں نے خود کو ایک مرتبہ پھر لائن آف فائر میں کھڑا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ The Tamasha (Circus) will never end.
میاں صاحب کے اقتدار کے محض چند ماہ بعد دھاندلی کا شور اور الزامات پر126دنوں کا دھرنا، ملک بھر میں مذہبی تنظیموں کی طرف سے کئی بھرپور مظاہرے، عدالتوں کے ذریعے اہم وکٹوں کا اڑنا، ملک بھر میں جلسے جلوس اور دوسرا دھرنا، پھر بھارت کے ساتھ بڑھتے خفیہ تعلقات کا منظرعام پر آنا، پاناما اور اقامہ اور پھر خلد سے نکلنا! جی ہاں ان ہی معصومانہ حرکت پر میاں صاحب اس انجام سے دوچار ہوئے جس کا وہ پہلے دو مرتبہ تجربہ کر چکے تھے، اب میاں صاحب نااہلی کے بعد گھن گرج اور شدید غصے میں جنکا اشاروں کنایوں میں نام لیتے ہیں لیکن منہ سے بولتے ہوئے سخت خوف کھاتے ہیں وہی ہیں جن کا انہیں اچھی طرح معلوم ہے، پھر بھی جان بوجھ کر تیسری مرتبہ اقتدار کی مسند پر بٹھانے والے سادہ لوح عوام سے معصومیت سے پوچھتے ہیں ’مجھے کیوں نکالا‘ ..! جناب، آپ نے عوام کی حالت بدلنے، ملک کی ترقی، امن وامان اور عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کی بحالی کی بجائے ذاتی عناد اور اسکور سیٹل کرنے کو ترجیح دی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ چار برسوں میں ایک ایسا مضبوط سیاسی، پارلیمانی، معاشی، اقتصادی سمیت صحت و تعلیم کا یکساں نظام بنانے میں اپنا دماغ اور تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے تو انہی بنیادوں پر آمریت سے پاک ٹھوس جمہوری نظام ازخود معرض وجود میں آجاتا، لیکن کہتے ہیں"Bad Habits die Hard"
اب سوال یہ ہے کہ اس لاچارگی، بے بسی اور بے راہ روی کا حل کیا ہے اور یہ حل کون نکالے گا؟ عوام کی جمہوریت کی خاطر ہرقسم کی مشکلات جھیلنے کے بعد ان کا مسیحا اور چارہ گر کون بنے گا؟ قوم کے ساتھ یہ کھیل کب ختم ہوگا؟ ملک کے معاشی، اندرونی اور بیرونی سلامتی سمیت بنیادی مسائل ومشکلات کا مدوا کون کرے گا؟ کب تک ایسے ہی چلے گا؟ قلیل المدتی اقتدار کے مزے لوٹنے میں مشغول کمزور حکومت جواب دینے کے قابل تو نہیں لیکن زمینی حقائق دیکھ کر خوب اندازہ ہوسکتا ہے کہ جناب وزیراعظم کرپشن کے کیسز میں ملوث وزیر خزانہ سے استعفیٰ لینے کے قابل نہیں تو کم از کم معاشی واقتصادی صورت حال پر ہی قوم کو اعتماد میں لے لیں، پورے ملک میں امن قائم نہیں کرسکتے تو دو ملین نفوس کے ایک شہر (اسلام آباد) کے ایک داخلی حصے پر ہی اپنی رٹ بحال کر کے بتا دیں جو دو ہفتوں سے یرغمال ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر ہی عمل کر کے اپنا وجود ثابت کردیں۔ لیکن عوام جان چکے ہیں کہ آپ یہ سب کچھ کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ آپ تو اس قابل ہی نہیں؟ آپ نے ہر مرتبہ حالات نازک ہونے کا ڈھونگ رچاکر قوم پر ثابت کر دیا ہے کہ آپ نہ صرف بے اختیار ہیں بلکہ نااہل بھی ہیں، سب کچھ معلوم ہو جانے کے باوجود خود کو ہر قسم کی ذمہ داری سے مبرا سمجھنا آپ کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اب توعوام بھی جان چکے ہیں کہ یہ سب کیا، کیوں اور کس لئے ہو رہا ہے تو پھر آپ کسی دانشمند انسان سے مشورہ کر کے کوئی راست فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟ جھوٹے اقتدار اور اقدار کو ترک کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتے؟ بے دلی سے دل کی خواہشوں کی غلامی ترک کیوں نہیں کرتے؟ قوم کی مصائب سےجان چھڑانے کی ہمت کیوں نہیں کرتے؟ آزمائے ہوئوں کو بار بار آزمانے سے باز کیوں نہیں آتے؟ کیوں چار دن کی چاندنی سے دل چھڑا کر پھر روشن صبح کا سبب نہیں بنتے؟ جناب مفلوج رہنے کی بجائے اپنی اور قوم کی آزمائش ختم کریں اور چارہ گر بنیں۔ غیر یقینی صورت حال کا واحد اور قابل قبول حل یہی ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ایک بااختیار، آزاد اور مضبوط الیکشن کمیشن کے قیام سمیت اتفاق رائے سے غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کا جامع میکانزم بنایا جائے اور نئے مینڈیٹ کے لئے فوری عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے، بے اقتدار ہونا مشکل ضرور ہے لیکن قوم وملک کی بہتری کے لئے کبھی خود کو بھی آزمانا چاہئے تاکہ آپ کے دعوئوں کے مطابق چار سال سے جاری سرکس کے کرداروں کے حقیقی چہرے بے نقاب ہوسکیں!

تازہ ترین