• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحقیقی ادارے فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اکتوبر میں جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق بطور ووٹر رجسٹرڈ ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تقریباً ایک کروڑ 22لاکھ کم ہے ملک بھر میں مجموعی طور پر 9کروڑ 70 لاکھ 22 ہزار 591شہری بطور ووٹر درج ہیں جن میں سے 5 کروڑ 45 لاکھ 98 ہزار 173 مرد جبکہ 4 کروڑ 24 لاکھ 24 ہزار 418 خواتین ہیں اس تفاوت کی بظاہر ایک بڑی وجہ خواتین کے شناختی کارڈز کا اس رفتار سے نہ بننا ہے جس رفتار سے مردوں کے شناختی کارڈ بنتے ہیں دوسری وجہ نادرا کے رجسٹریشن مراکز پر شہریوں خاص طور پرخواتین کے کوائف درج کرنے کے انتظامات اتنے ناکافی ہیں کہ عملہ ان پر پوری توجہ نہیں دے پاتا الیکشن کمیشن نے نادرا کے تعاون سے 30 اپریل 2018ء تک اس حوالے سے خصوصی مہم شروع کی ہے جس سے توقع ہے کہ خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے میں آسانی ہو جائے گی یہ امر خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ اول تو خواتین کے ووٹ ہی کم درج ہوتے ہیں اکثر مقامات پر مرد انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی نہیں دیتے جو صنفی امتیاز کی افسوسناک مثال ہے مردم شماری کے مطابق ملک میں عورتوں اور رمردوں کی تعداد تقریباً برابر ہے خواتین ملکی معاملات میں نہایت فعال کردار ادا کر سکتی ہیں اور کر بھی رہی ہیں اگر وہ پارلیمنٹ اور دوسرے جمہوری اداروں کے لئے اپنے نمائندے منتخب نہیں کریں گی تو یہ ادارے کسی طور پوری قوم کے نمائندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن خواتین ووٹروں کے اندراج پر خصوصی توجہ دے اور نادرا کے اشتراک سے اس نے جو مہم شروع کی ہے اس کی کامیابی کے لئے حکومت سیاسی جماعتیں،ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں اپنا بھر پور کردار ادا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی اہل خاتون ووٹر کا نام اندراج سے رہ نہ جائے، خواتین کو انتخابی عمل میں شریک کئے بغیر منتخب ادارے خواتین کی صحیح طور پر نمائندگی نہیں کر سکتے ۔

تازہ ترین