• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ رشید، عمران خان اور الطاف حسین... چوراہا … حسن نثار

چھٹی حس کیا ہوتی ہے؟
طویل غور و فکر کے بعد میں عرصہ پہلے اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب انسان کی پانچ بنیادی حسیں (حواس حمسہ) ایک دوسری کے ساتھ مکمل سرتال میں آ جائیں اور مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جائیں تو چھٹی حس (6Th Sense) اک خود کار نظام کے طور پر خود بخود معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ میں نے بڑی محنت اور یکسوئی کے ساتھ اپنے حواس خمسہ کے درمیان اک آئیڈیل رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی اور اس حد تک کامیاب رہا کہ ہمیشہ نہ سہی اکثر معاملات میں میری چھٹی حس مجھے بروقت خبردار اور الرٹ کر دیتی ہے سو اسی چھٹی حس کے تحت گھر بیٹھے مجھے اندازہ تھا کہ عمران خان کے کچھ کوتاہ اندیش ساتھی شیخ رشید کے ساتھ اس کی قربت کی مخالفت کر رہے ہیں اور یہ مخالفت سراسر ذاتی وجوہات اور تعصبات کی بناء پر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میری چھٹی حس مجھے یہ بھی بتا رہی تھی کہ کھلاڑی + شکاری عمران خان ان سب کو ”اوور رول“ کر دے گا… وہی ہوا اور بہت ہی ٹھیک ہوا کہ شیخ رشید بالواسطہ یا بلاواسطہ عمران خان کا ساتھی قرار پایا اور یہ ”کومبی نیشن“ مستقبل میں بہت ہی لیتھل ثابت ہو گا۔ شیخ رشید وہ ”صفر“ ہے جو کسی ”ایک“ کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو چشم زدن میں اسے ”ایک“ سے ”دس“ کر سکتا ہے۔
میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک تحریک انصاف میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو شیخ رشید کے ”ذہن“ اور ”زبان“ کی زرخیزی کا عشر عشیر بھی ہو۔ شیخ رشید دھرتی کا بیٹا (Son Of The Soil) ہے۔ تھڑا ہی اس کا ڈرائینگ روم اور یہی اس کی اصلی اسمبلی ہے۔ رہ گئی فوج کی ”سپوکس مینی“ تو یہ باقی کس باغ کے امرود اور کس کھیت کی مولیاں ہیں؟ مختصراً یہ کہ شیخ رشید کی عمران خان کے ساتھ ”ہتھ جوڑی“ کو میں پاکستان اور اس کے عوام کے لئے بے حد اچھا شگون سمجھتا ہوں۔ بعض اوقات لوگ دوسروں کو اپنے کام کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے کام سے روکنے کے لئے ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ معرفت کا کلام ہے جو کسی فکری کمی کو سمجھ نہیں آ سکتا۔ شیخ رشید اب تحریک انصاف کے لئے کچھ ”لکھے نہ لکھے“ یا بولے نہ بولے… کسی اور کے لئے نہ ”لکھ“ سکے گا نہ بول سکے گا۔ ن لیگ کو چوہدری برادران سے لے کر شیخ رشید تک ”تکبر“ کی وہ سزا ملنے والی ہے کہ لوگ ان کے زوال کی مثال دیا کریں گے۔ قائدین اپنے قد نہیں فراخدلی کی حد سے پہچانے جاتے ہیں۔ شریفوں کو یہ سوچنے سمجھنے کی توفیق ہی نصیب نہ ہوئی کہ خود تو نیویں نیویں ہو کر ”سرور پیلس“ پہنچ گئے، باقی بیچارے اپنے سروائیول کے لئے کدھر جاتے؟ کیا کرتے؟ سوائے اس بین الاقوامی اصول اور نصیحت کے کہ "If You Cant Fight Them, Join Them" دوسری طرف جنہوں نے جنگ لڑی، پاگلوں کی طرح تشدد برداشت کیا، ان سے اس لئے نفرت اختیار کر لی کہ یہ تو ”اپنی لیڈری“ چمکانا چاہ رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے اس بات کو رتی برابر اہمیت نہیں دی کہ ماضی میں شیخ رشید کا رویہ کیسا تھا کیونکہ تب ویسا ہی ہونا چاہئے تھا جو عمران جیسا حقیقت پسند بخوبی جانتا ہے۔ آج زمینی حقائق تبدیل ہو چکے تو شیخ رشید کی سوچ بھی تبدیل ہو گئی اور خود عمران خان کی بھی۔ زمینی حقائق … انسانی کیا حیوانی زندگی کی بھی آخری حقیقت ہیں۔ ان کے سامنے گردن نہ جھکانے والوں کی گردنیں توڑ دی جاتی ہیں کہ یہی قانون قدرت ہے… ہاں انبیاء اس سے ماورا ہوتے ہیں کہ زمینی حقائق کو ہی تبدیل کر دیتے ہیں لیکن معاف کیجئے… میں پیغمبروں نہیں پاکستانی سیاستدانوں کی بات کر رہا ہوں۔ آخر پر ایک ذاتی سے دکھ کا اظہار کہ گزشتہ سے پیوستہ شام ”پاکستان تحریک انصاف“ کی ”افطاری“ ٹی وی پر دیکھی جو اتنی ہی شرمناک تھی جتنی پی پی پی اور ن لیگ کی ہوتی ہے لیکن MQM کی کبھی نہیں کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کا قائد صرف ایک روایتی لیڈر ہی نہیں… ایک ٹیچر بھی ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ زیادہ تر سیاست اپنے ساتھیوں کے سپرد کر کے اپنے ورکرز کی ”تربیت“ پر کام کرے، وہ ڈسپلن قائم کر کے دکھائے جو MQM کا طرئہ امتیاز ہے کہ ہر بڑا لیڈر دراصل ٹیچر ہوتا ہے…اور تاریخ میں زندہ صرف ”ٹیچرز“ رہتے ہیں جو اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ بھوک سے بدن بھی ٹوٹ رہا ہو تو کھانے پر بھوکے کتوں کی طرح حملہ آور نہیں ہوتے!
تازہ ترین