• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دولت اور اقتدار کی طاقت عارضی اور ناپائیدار ہے جبکہ اُمید کی طاقت بے پایاں اور لافانی ہے۔ محکوم قومیں آزادی عزم اور اُمید کی طاقت سے حاصل کرتی آئی ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوؤں نے تقسیمِ ہند کے نظریے کو ایک جرم قرار دیا تھا اور قائداعظم کو ایک فرقہ پرست سیاست دان ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگا دیا تھا۔ خود مسلمانوں کے اندر بھی ایسے عناصر موجود تھے جو پاکستان کو ایک مجنوں کا خواب سمجھتے تھے، لیکن نوجوانوں اور متوسط طبقوں نے قائداعظم کا ساتھ دیا اَور اُن کا پیغام لے کر علی گڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ پورے ملک میں پھیل گئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے نوجوانوں کو جدید علوم سے آراستہ کیا اَور پاکستان کو قیادت فراہم کی۔ اس کے علاوہ راجہ صاحب محمود آباد جو بیس برس کی عمر میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 1946ء تک اس ذمہ داری پر فائز رہے۔ لاہور سے جواں سال حمید نظامی بھی اُن کے شریکِ سفر تھے جو نوجوانوں کے سینوں میں اُمید کی قندیلیں روشن کرتے رہے۔
پھر ذرا اُن دنوں کا تصور کیجیے جب پاکستان نے انتہائی کربناک حالات میں جنم لیا تھا۔ چاروں طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھ بھیڑیے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اُس وقت پاکستان کے پاس انتہائی کم فوجی یونٹ تھے جو کانوائے کی صورت میں فسادیوں کے اندر گِھرے ہوئے مسلمانوں کو نکال کر لاتے اور محفوظ مقامات پر پہنچاتے۔ مجھے یاد ہے کہ سرسہ کے دو اڑھائی ہزار کے قریب مسلمان جس ٹرین کے ذریعے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے، اس کے آدھے ڈبے خون اور لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ہماری ٹرین کو بٹھنڈہ جنکشن پر پانی لینے کے لیے آدھا گھنٹہ ٹھہرنا تھا۔ یہ ریلوے جنکشن ریاست پٹیالہ میں واقع تھا جس کے مہاراجہ نے مسلمانوں کے قتل عام اور عورتوں کی آبروریزی میں ابلیسی کردار ادا کیا تھا۔ یہ خبر عام تھی کہ جو ٹرین مسلمانوں کو لے کر بٹھنڈہ جنکشن سے گزرتی ہے، اسے ویرانے میں روک لیا جاتا ہے اور پٹیالہ کی فوج مسافروں کو اُتار کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ ہماری ٹرین بھی ایک ویرانے میں رات کے وقت رک گئی۔ ایک بزرگ کی آواز سنائی دی، وہ کہہ رہے تھے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے کے بجائے اسی سے مدد طلب کریں۔ ہم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر بعد ٹرین میں حرکت پیدا ہوئی۔ ہم صبح سویرے پاکستان کی سرحد کے قریب پہنچے، تو ہم نے بلوچ رجمنٹ کے چند فوجی دیکھے جو ہماری حفاظت کے لیے آئے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر ہمیں ناقابلِ بیان خوشی اور اطمینان حاصل ہوا تھا۔
وہ بڑے ہی عجیب و غریب دن تھے۔ ایک طرف قیامِ پاکستان کی سرشاری تھی اور دوسری طرف لاکھوں مہاجرین کی تباہ حالی تھی۔ ہر شہر فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر اور بدامنی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ سرکاری محکمے بند پڑے تھے کہ ان میں کام کرنے والے سرحد پار جا چکے تھے۔ حکومت ان وزرا پر مشتمل تھی جن کو کاروبارِ مملکت چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ ہماری صفوں میں جو ففتھ کالمسٹ موجود تھے، وہ سرگوشیوں میں یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ یہ تقسیم عارضی ہے اور ہمیں منت سماجت کر کے بھارت ہی میں ضم ہونا پڑے گا۔ شادمانی بھی بے حساب تھی اور مایوسی بھی بے حساب۔ ان کیفیتوں میں ہمارے اکابرین، ہمارے عوام اور ہمارے نوجوانوں نے اُمید کا دامن پوری قوت سے تھامے رکھا اور اپنے ایثار، اپنے ایقان اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل ایمان سے مواخاتِ مدینہ کا عہد تازہ کر دیا۔ مقامی لوگوں نے آنے والوں کے لیے اپنے گھروں اور دِلوں کے دروازے کھول دیے۔ اتحاد اور جفاکشی سے چند ہی برسوں میں پاکستان بھارت کے مقابلے میں اقتصادی طور پر مستحکم ہو گیا۔ 1949ء میں برطانیہ نے پاؤنڈ اسٹرلنگ کی قدر کم کر دی اور اس کے مطابق بھارت نے بھی اپنے روپے کی قدر میں تخفیف کر دی، لیکن پاکستان نے اپنے روپے کی قدر برقرار رکھی۔ بھارت نے پاکستان کا تجارتی بائیکاٹ کر دیا اور طاقت آزمانے کی دھمکی بھی دی جو آگے چل کر ایک ناکام حربہ ثابت ہوئی۔
ہمارے آج کے حالات بعض پہلوؤں سے حددرجہ تشویشناک دکھائی دیتے ہیں کہ حکومت کی رِٹ غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور بعض اوقات ریاستی اداروں کے مابین کشیدگی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وقت پر انتخابات کے امکانات مدھم پڑتے جا رہے ہیں اور بعض بیرونی طاقتیں پاکستان سے دھمکیوں کے لب و لہجے میں مخاطب ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور تعلیم و صحت کے مسائل اوّلین ترجیحات میں شامل نہیں کیے گئے، لیکن جب میں آج کے حالات کا 1947ء کے واقعات سے موازنہ کرتا ہوں تو میرے اندر اُمید کا شعلہ لپکتا ہے اور میرا یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ ہم قوتِ ارادی، ژرف نگاہی اور حقیقت پسندی سے کام لیتے رہے، تو مسائل کے گرداب سے باہر آ سکتے ہیں۔ ساری خرابی حد سے بڑھی ہوئی خودپسندی اور اناپرستی ہے۔ اس وقت حالات سنوارنے کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلم لیگ نون کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ جناب نوازشریف نے عدلیہ کا فیصلہ قبول کر کے ایک اچھی روایت قائم کی ہے اور اب وہ جمہوریت اور ووٹ کا تقدس قائم کرنے کے لیے تحریکِ مزاحمت کی قیادت کر رہے ہیں۔ اب انہیں پاکستان ہی میں قیام کرنا اور پارلیمنٹ کو اساسی اہمیت دینا ہو گی۔ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف پر یہ لازم آتا ہے کہ بروقت انتخابات کے لیے جلد سے جلد آئینی ترمیم کی منظوری کا فریضہ ادا کریں۔ فوج جو پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے، اس کی قیادت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ہو گا۔ اسی طرح ہماری عدلیہ کو بھی اپنے وقار اور فیصلوں میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھنا ہو گا۔ عدالت ِعظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے وزیراعظم نوازشریف کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا اور نظرثانی کی رِٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے رہزنی اور رہبری کے مباحث چھیڑ دیے۔ ان مباحث کے نتیجے میں عدالت ِعظمیٰ پر نئے نئے سوالات اُٹھا دیئے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو غیر اخلاقی اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے بجائے مکالمے کے کلچر اور سیاسی گرم جوشی کو فروغ دینا ہو گا۔ اسی طرح اسلام آباد میں دھرنوں کو روکنے کے لیے اسپیچ کارنر قائم کرنا اور سیاسی جماعتوں کو عدلیہ پر غیر ضروری بار ڈالنے سے گریز کرنا ہو گا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان اب فوجی اعتبار سے بہت مستحکم ہے اور اس کا انفراسٹرکچر ترقیاتی منصوبوں کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ متوسط طبقہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور سی پیک کے ذریعے پورے جنوبی ایشیا میں ایک عظیم اقتصادی انقلاب لا سکتا ہے۔

تازہ ترین