ملک میں ناامیدی اور مایوسی پھیلانے والے عناصر شب وروز پاکستان کو ایک ناکام ریاست کی حیثیت سے پیش کرنے میں دل و جان سے مصروف ہیں۔ ایسی ہی ایک تاریک تصویر معروف امریکی اسکالر اسٹیفن پی کوہن نے بھی یہ کہتے ہوئے پیش کی ہے کہ پاکستان انتشار کی سمت جارہا ہے کچھ عرصے کے لئے پاکستان سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملے گی کیوں کہ ریاست میں موجود بنیاد پرست عناصر یا تو ناکامی سے دو چار ہورہے ہیں یا ان کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس کا اطلاق دونوں پریکساں ہوتا ہے یعنی نظریہ پاکستان اور نظریہ ریاست یعنی ریاست کے قیام کا اصل اور حقیقی مقصد کیا تھا؟؟؟۔ پاکستان پہلے ہی اپنی ریاست سے بہت کچھ گنوا چکا ہے جس کامطلب‘ان خصوصیات کو گنوانے سے ہے‘ جو ایک جدید ریاست کو موثر کارکردگی کے قابل بناتی ہیں۔
اس امر میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے کہ صورت حال خاصی مایوس کن ہے۔ تاہم اس صورت حال کے تجزیئے میں ان مثبت رجحانات کو قطعاً فراموش کردیا جاتا ہے جو ابھی تشکیل پذیر ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم اس بات کے اسباب اور وجوہ تلاش کریں کہ آتش فشاں پہاڑ کا لاوا پہاڑ کی بلندی پر کیسے پہنچ پایا؟؟؟۔ یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ لاوا بہنے کی حقیقی وجوہ آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہیں اور کئی سو فٹ نیچے ہونے کی وجہ سے آپ اس کے اصل اسباب کو سمجھ نہیں سکتے!!!!۔ بالکل اسی طرح کسی بھی ریاست کی اصل صورت حال کا اندازہ اور معاشرے کا احوال‘ کسی اخبار میں شائع شدہ شہ سرخی میں پوشیدہ بحران سے نہیں بلکہ اس کی بنیادوں کی صورت حال سے سمجھا جاسکتا ہے‘ جو مستقبل کی تعریف کا تعین کرتی ہیں۔ ملک میں موجودہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور فوجی آمریت کے ورثے نے ہمارے وژن کو اس قدر دھندلادیا ہے کہ ہم ان دور رس تبدیلیوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوچکے ہیں جو ایک درخشاں مستقبل کی نوید ہیں۔ ہم اکثراوقات حکومت کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کے مابین فرق کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ وہی فرق ہے جو موسم اور آب و ہوا کے مابین ہوتا ہے۔ موسم کی خرابی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خراب آب و ہوا سے مستقلاً واسطہ پڑنے والا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں موسمیاتی اثرات بلاشبہ مایوس کن نظر آتے ہیں لیکن اگر ہم آب و ہوا کے عناصر کو ذرا قریب ہوکر دیکھیں تو ہمیں ایک صحت مندانہ فضا ابھرتی ہوئی نظر آئے گی۔ اگر ہم دیکھیں تو پاکستان قدرتی ذرائع اور وسائل کی دولت سے مالامال ہے جس پر کسی صورت ایک ترقی پذیر ملک ہونے کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال اس ملک کو بہت بُری طرح چلایا گیاہے بدقسمتی سے جمہوری نظام کے عدم تسلسل نے ہمارے ملک میں قومی اداروں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا تاکہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوسکتے۔ پاکستان کے بارے میں بہت سے حالیہ مطالعوں اور تجزیوں میں پاکستان کے معاشرے کی موجودہ توانائیوں سے صرف نظر کیا گیا ہے اور غیر معیاری قسم کے تبصرے کئے گئے ہیں۔ 2007ء کے بعد کا پاکستان نیا پاکستان ہے جو پھلتا‘پھولتا اور ترقی کی منازل کو طے کررہا ہے۔ ملک فی الوقت ایک عبوری اور تشکیلی دور سے گزررہاہے جو ہمیشہ بڑا درد انگیز اور غیر یقینی ہوتا ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو اس عبوری مرحلے سے گزرتا ہے‘ اُسے ان تمام قوتوں کا سامنا اور مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو موجودہ صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کی خواہش مند ہوتی ہیں جو تاریخ کا پہیہ الُٹی سمت میں گھمانا چاہتی ہیں لیکن آخر کار ترقی پسند قوتیں فتح یاب ہوکر رہتی ہیں۔
پاکستان کے مستقبل کے امکانات کو بھر پور طریقے سے سمجھنے کے لئے ہمیں پاکستانی ریاست اور پاکستانی معاشرے کی گہرائیوں میں جانا ہوگا جن میں سے اہم ترین قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی ہے۔ ساٹھ برس بعد‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پوری قوم قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے لئے اٹھ کھری ہوئی۔ آج تیونس‘ مصر اور لیبیا کا ذکر اخبار کی شہ سرخیوں میں کیا جاتا ہے لیکن 16/مارچ 2009ء کو پاکستانی قوم نے بھی اس وقت تاریخ بنائی تھی جب 2007ء میں شروع کی گئی جج صاحبان کی بحالی کی پرامن تحریک شہریوں کے تاریخی لانگ مارچ میں بدل گئی تھی۔ سیاسی کارکن‘ وکلاء‘ مرد‘ خواتین‘ نوجوان اور معاشرے کے تمام طبقات نواز شریف کی قیادت میں جنرل پرویز مشرف کے برطرف کردہ جج صاحبان کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ آج آزاد عدلیہ‘ آزادانہ طور پر کام کررہی ہے‘ کرپٹ افراد کا احتساب کررہی ہے اور قومی اداروں کو قانون کے روبرو جواب دہ بنانے میں مشغول ہے۔ ابھرتی ہوئی آزاد عدلیہ کسی بھی ریاست کو ناکامی سے بچانے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہے۔
دوسری اہم چیز آئین اور آئینی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ آئین بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتے ہوئے طاقت اور اقتدار کی حدود کا تعین کرتا ہے تاکہ کوئی ریاست اپنے امور کو ہموار طریقے سے سر انجام دے سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین اور آئینی سرگرمیوں کی تاریخ بے حد داغدار رہی ہے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی نے 1952ء میں آئین تشکیل دیا تھا جسے بعد ازاں گورنر جنرل نے نامنظور کردیا کیونکہ اس آئین میں گورنر جنرل کو اس بات کے صوابدیدی اختیارات نہیں دئیے گئے تھے کہ وہ پارلیمینٹ کو جب چاہے تحلیل کرسکتا ہے۔ بالآخر 1956ء میں نیا آئین منظور ہوگیا جسے بعد میں 1958ء میں صرف اس لئے منسوخ کردیا گیا تھا تاکہ ایوب خان کے مارشل لاء کیلئے راستہ ہموار ہوسکے… بہرکیف ایوب خان نے 1962ء میں ایک اور آئین متعارف کرایا جو اقتدار سے ان کی علیحدگی کے بعد دم توڑ گیا۔ آخرکار 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ اور متفقہ طور پر 1973ء کا آئین منظور کرلیا۔ تاہم 1977ء اور 1999ء میں، فوجی انقلابات کے بعد نئے آئین کی تشکیل کو ایک مشکل کام سمجھ کر، 1973ء کے آئین ہی کو برقرار رہنے دیا گیا لیکن اس میں متعدد متنازع ترامیم کردی گئیں تاکہ آئین کے وفاقی پارلیمانی کردار کو بدل کر صدر مملکت کے اقتدار اور اختیارات میں اضافہ کیا جاسکے۔ لیکن 2010 میں تمام سیاسی جماعتوں نے باہم اتفاق رائے سے مل جل کر اٹھارویں آئینی ترمیم کو یقینی بنایا تاکہ ماضی کے آمر حکمرانوں نے جتنی ترامیم آئین میں کی تھیں انہیں منسوخ کرکے صوبائی خودمختاری کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم بھی منظور کرلی گئی چنانچہ جب تک آئین کے بارے میں اتفاق رائے موجود ہوگا کوئی ریاست کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوگی۔
آئین کے بعد آزادی اظہار کی باری آتی ہے۔ آزادی اظہار رائے ایک بنیادی انسانی حق ہے جو شہریوں کو علم۔ رائے، اور اپنی آواز کو پانے کے لئے بااختیار بناتا ہے۔ اظہار کی یہ آزادی ، ایک آزاد میڈیا کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہے۔حالیہ سالوں میں میڈیا کی آزادی ایک ایسا واقعہ ہے جسے اب واپس موڑنا ممکن نہیں رہا۔ بحث و مباحثے اور تبادلہ خیال کی حدود نے کافی وسعت اختیار کر لی ہے۔ جو موضوعات کبھی شجر ممنوعہ تصور کئے جاتے تھے آج میڈیا پر ان موضوعات کے حوالے سے آزادانہ تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ روزانہ تقریباً دس ملین پاکستانی باشندے حالات حاضرہ کا پروگرام دیکھتے ہیں جو ان کی آگاہی میں اضافے کا سبب ہے۔ میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کی گئیں لیکن انہیں بالآخر ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ میڈیا کی قوت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اب اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔جب تک کسی ملک میں آزاد میڈیا اور با علم شہری موجود ہیں اس وقت تک اس ملک اور معاشرے کو زوال نہیں آ سکتا ۔
آزادی اظہار رائے کے بعد سول سوسائٹی کا نمبر آتا ہے، ایک آزاد اور توانائیوں سے بھرپور سول سوسائٹی کسی بھی ملک کی جمہوریت کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے جو نہ صرف اسے مستحکم کرتی ہے بلکہ ملک میں اور ملک سے باہر اس کی ساکھ میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ لوگ آزاد ہو کر سوچنے لگتے اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بعض وجوہ کی بناء پر سول سوسائٹی کو پروان چڑھانے کا موقع نہیں مل سکا۔ آج پاکستان کی تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ ملک کے امور اور معاملات میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہا ہے۔ لہٰذا جس ملک کے امور اور معاملات میں شہری بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوں وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔
اب باری ہے کسی مخصوص گروہ کے انتشاری عمل کی۔ یعنی وہ تارکین وطن، جو اپنا ملک چھوڑنے کے بعد، کسی غیر ملک میں آباد ہو چکے ہیں ۔ آج پاکستان کے ان تارکین وطن کی تعداد ستر لاکھ نفوس تک پہنچ چکی ہے جن کی اکثریت مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہے۔ یہ سمندر پار پاکستانی سالانہ آٹھ بلین ڈالر پاکستان ارسال کر رہے ہیں اور ان میں انتہائی باصلاحیت انجینئرز، ڈاکٹرز، سائنسدان، پیشہ ور حضرات اور منتظمین شامل ہیں جنہوں نے مقابلے کے ماحول میں اپنے ملک اور وطن کیلئے عزت اور نیک نامی حاصل کی ہے۔ یہ پاکستانی تارکین وطن آج اسی انداز سے اپنے وطن کی خدمت کر رہے ہیں جس طرح کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا، چین اور بھارت کے تارکین وطن نے اپنے ملک کیلئے انجام دی ہیں۔ہمارے ملک کے مستقبل کا بہت کچھ انحصار ان ہی تارکین وطن پر ہے۔
بہرنوع پاکستان کی معیشت اور گورننس کے مابین کچھ عدم توازن ضرور موجود ہے تاہم یہاں بھی بنیادی چیزیں درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ قانون کی بڑھتی ہوئی حکمرانی، میڈیا کی آزادی اور پر جوش اپوزیشن کے شانہ بشانہ اصلاحات کے واضح ایجنڈے کے ساتھ کرپشن کے خلاف جنگ جاری ہے اور ملک میں بہتر گورننس کو بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ پاکستان کا مستقبل اتنا تاریک نہیں جتنا کہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ آج ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ دراصل ہمارے ماضی کا ورثہ ہے، لیکن جلد یا بدیر پاکستان اور پاکستانی معاشرے کیلئے ایک نیا مستقبل ملک کو براعظم ایشیاء کے تیزی سے معاشی ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل کر دے گا۔ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے، مضبوط جمہوریت ہے، اچھی گورننس ہے اور جس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ چنانچہ پاکستان کیلئے ایک بہتر اور رخشندہ مستقبل کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔