• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں کرپشن میں لتھڑی گورننس اور اس کے انسداد و احتساب کا پیدا ہوا، اب بڑھتا احساس، قومی سیاست کا نیا اور اہم حوالہ بنتا معلوم دے رہا ہے۔ اس سے قبل کہ اس نئے خبری موضوع پر کوئی رائے زنی کی جائے، ہماری ثابت شدہ کاہل، نااہل مگر مکار پارلیمنٹ میں آئین پاکستان میں، مسلم اراکین کے عقیدہ ختم نبوتؐ کے حلف کے مندرجات میں قطع و برید کی خطرناک جسارت اور اس پر ملک گیر عوامی ردعمل پر ذاتی رائے بھی بھڑکتے حالات حاضرہ کا تقاضا ہے۔
اس پر اب مفصل تبصرے و تجزیے کی ضرورت نہیں کہ میڈیا کی دو روزہ بندش کے باوجود بہت کچھ عوام پر واضح ہو چکا، پھر اب پیدا کیا گیا بحران مینیج ہوتا معلوم دے رہا ہے۔ جن یا جس بھی دیدہ دلیر شریر دماغ یا دماغوں میں یہ گہری سازش تراشی کی گئی، اسے یا انہیں اور ابلیسی محفل کو اب تو خوب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان اور عقیدہ ختم نبوتؐ کتنے لازم و ملزوم ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اس پر احتجاج کیسے اور کتنا ہونا چاہئے؟ کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اتنی بڑی شرانگیزی کے بعد یہ قومی غور و خوص ضروری ہوگیا ہے کہ پورے ملک میں آگ لگا دینے والی مہلک شرارت کے ارتکاب کی سزا کتنی ہو؟ اب اس حوالے سے جلد سے جلد فراہمی انصاف تقاضا کرتا ہے کہ انتظامی اور عدالتی سرگرمی کے لئے بھی قانون سازی ہو۔
حیرت ہے کہ وزارت قانون و پارلیمانی امور میں پیش ہونے والے کسی بھی بل کو کسی بھی حساس حوالے سے فلٹر کرنے کا میکنزم ہی موجود نہیں کہ اس کے مندرجات میں کچھ آتش گیر تو موجود نہیں۔ اگر یہ لازمہ بھی نہیں تو وزارت ختم نہیں کردینی چاہئے یا پھر ایسے ’’فلٹر‘‘ کا اہتمام اس اسٹرکچر میں لایا جائے۔ موجود ہے تو تحقیق ہو کہ متذکرہ آتشی قانون سازی میں یہ کیسے مائنس ہوگیا؟
اور یہ جو پیمرا نے پورے پاکستانی قومی میڈیا سے زیادہ خود کو ذمے دار سمجھنے کے خناس سے دو روز تک نیوز چینلز کو بند کئے رکھا، تقاضا کرتا ہے کہ پیمرا کی سربراہی کا ایک مکمل مطلوب کیپسٹی کے سربراہ کی تقرری کو یقینی بنانے والا TOR تیار کیا جائے۔ جس کی اتنی کیپسٹی ہو کہ وزیراعظم بھی غیر مطلوب حکم دے تو لیٹ نہ جائے اسے سمجھائے اور اپنے مشورے کو منوائے یا مستعفی ہو جائے۔ پیمرا نے جو کچھ کیا وہ مخصوص ن لیگی جاری بیڈ گورننس کا ہی شاہکار ہے۔ ثابت یوں ہوتا ہے کہ نیوز چیلنجز کھلنے پر بحران ختم ہونے میں مدد ملی اور کوئی غیر ذمے داری کامظاہرہ نہیں ہوا۔
سکھر روہڑی میں پیپلز پارٹی کے مقابل سندھ کی سیاسی جماعتوں کے قائم ہوئے گرینڈ نیشنل الائنس کے سربراہ پیر پگاڑا صبغت اللہ شاہ راشدی اور اتحادی رہنمائوں غوث علی شاہ، ارباب رحیم، ذوالفقار مرزا، مرتضیٰ جتوئی، ایاز پلیجو، غوث بخش اور دیگر نے موجودہ سندھ حکومت کی سب سے بڑی پہچان، کرپشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صوبے کو کرپٹ گورننس سے نجات دلانے کے عزم کا اظہا رکیا۔ اتحاد میں شامل کتنے ہی افراد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دوسری قومی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔ اسی اتحاد میں سندھی سیاسی رہنما بھی شامل ہیں، پیپلز پارٹی کے عروج میں بھی اس کے خلاف بیڈگورننس کی نشاندہی اور اس کے خلاف مزاحمت کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔
امر واقع تو یہ ہے کہ 1988ء سے لے کر 1997ءتک بحالی جمہوریت کے عشرے میں پیپلز پارٹی اور جناب نوازشریف کی سربراہی میں مسلم لیگ کی باری باری جو حکومتیں عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئیں بحیثیت مجموعی ان کا ریکارڈ غیر جمہوری حربوں، نااہلیت، کنبہ پروری اور سب سے بڑھ کر مالی کرپشن اور اختیارات کے بے رحمی سے بدترین استعمال سے اٹا پڑا ہے۔ اسی کا شاخسانہ تھا کہ یہ مستحکم نہ ہو پائیں اور محتاط ہوتے ہوئے بھی فوجی اقتدار کے لئے جگہ پھر بن گئی، جس کے اپنے ڈیزاسٹر ہیں۔ اس پس منظر میں 2007-8سے بحالی جمہوریت کا جو عشرہ شروع ہوا جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو بطور مسلم لیگ اپنا تشخص بالکل ہی کھو بیٹھی، کے باری باری اقتدار کی صورت بھی برقرار رہی اور گورننس کا معیار پہلے سے بھی بدتر ہوگیا اور ہر دو باریوں میں کرپشن کے نئے اور تباہ کن ریکارڈ قائم ہوئے، خصوصاً سندھ میں پی پی کی دونوںہی منتخب حکومتوں نے جناب آصف زرداری کی سربراہی اور مکمل کنٹرول میں کرپشن اور بدنظمی کا جو بازار گرم کیا، اس پر سندھی حکومت کرپشن اور نااہلی کی علامت بن گئی، جس سے عوامی خدمات کے ادارے زمین سے لگ گئے۔ سندھ کے پسماندہ ترین علاقوں خصوصاً تھر میں دو مصنوعی قحط پیدا ہوئے جس کے سب سے بڑے متاثر نومولود بچے بنے، کم غذائیت کے باوجود جن کی مائوں کی چھاتیوں میں دودھ تھا نہ انہیں کمرشل ملک میسر تھا۔ کرپشن کا عالم یہ رہا کہ ایمبولینسز کے فلیٹ، کمرشل بس فلیٹ بنا دیئے گئے۔ کراچی میں واٹر سپلائی تک کو کرپشن میں رنگ دیا اور اندرون سندھ میں پولیس کی نااہلیت اور بدعنوانی کی انتہا بڑے شہروں میں بھی منتقل ہوگئی۔ اس سے قبل کراچی میں ایم کیو ایم کی نمائندگی اور غلبے سے بھتہ سسٹم اور ٹارگٹ کلنگ کی فسطائیت سے قومی سوچ کے باشعور شہریوں، تاجروں اور خود پارٹی کارکنوں پر جو مظالم توڑے گئے اس نے کراچی کی سیاست و معیشت کا تشخص پہلے سے متصادم کردیا۔
سندھ میں نیشنل گرینڈ الائنس کا قیام تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ امید ہے یہ بےبس و لاچار سندھ بھائیوں کو کرپشن کے خلاف اور احتساب کی قومی ضرورت کے خلاف بیدار و متحرک کرنے میں مثبت کردار ادا کرے گا جو سب سے پہلے اپنی اسمبلی سے قیام پاکستان کی تائید کرنے والے صوبے کو اس کے خوشحال اور پرامن صوبے کے طور اپنا تاریخی تشخص لوٹانے میں ایک اہم سیاسی اقدام ہے، جس پر جناب پیر صاحب پگاڑا شریف سید غوث علی شاہ، جناب ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، سید مظفر شاہ، ڈاکٹر صفدر عباسی، جناب شہریار مہر، جناب عرفان اللہ مروت، جناب فقیر عنایت برڑو اور ان کے دیگر اتحادی ساتھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ یقین ہے کہ ان کا اتحاد اور کرپشن و احتساب نہ صرف اسٹیٹس کو کی جانب سے تحفظ نظام بد کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوگا بلکہ پیپلز پارٹی کی جزوی بھولی بھالی قیادت کی آنکھیں بھی کھولے گا، جنہیں بڑے اپنی ڈگر پر چلانے کے لئے محنت کررہے ہیں، اگر گرینڈ نیشنل الائنس ، سندھ کی حد تک بھی، اسٹیٹس کو کو توڑنے میں سرگرم قومی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اتحادی بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اس سے ناصرف ان کے قومی سیاسی دھارے میں کردار بڑھنے کے امکانات ہوں گے بلکہ خود بڑے صوبے پنجاب میں محدود قومی کہلاتی یا سمجھی جانے والی جماعتیں بھی حقیقی معنوں میں خود کو ملک گیر بناسکیں گی، جو پاکستان کے سیاسی و معاشی استحکام کے لئے، اور ملک سے دولت(ناجائز) دیوتائوں کا راج ختم کرنے میں معاون ہوگا۔

تازہ ترین