یہ فلمی ا سکرپٹ ہرگز نہیں ہےبلکہ وہ حقیقی کہانی ہے جو براہ راست دل پر اثر کرتی ہےاوربے اختیارآنسو بہتے چلے جاتے ہیں ۔واقعہ کے پی کے ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع 12 دیہات پر مشتمل اس یونین کونسل کا ہے جوآج بھی بجلی ، پانی، گیس ، تعلیم اورصحت کی سہولتوں سے محروم ہے۔ گائوں گراں مٹ کی معصوم بیٹی شریفاں کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھما ئے جانے کی خبر سامنے تھی خیبر پختون خوا پولیس نےاسکے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ۔اس سے عوام کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔واقعہ کا پس منظر گائوں کے جرگہ کا ایک فیصلہ تھا ۔ مقامی جرگہ نے ایک سماجی معاملے کی سماعت کی تھی جس میں شکایت کنندہ لڑکی والے اور ملزم لڑکے والے دونوں پیش ہوئے۔بعد از سماعت لڑکا سجاد لڑکی سے تعلق میں ملوث پایا گیا اور سجادکے خاندان پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپے جرمانہ کردیا گیا ۔تاہم بااثر لڑکی والے اس سزا پر مطمئن نہیں تھے اس لئے انہوں نےاپنا غصہ اتارنے اور خود بدلہ لینےکی منصوبہ بندی شروع کردی۔ 27اکتوبر2017کے دن ڈیرہ اسماعیل خان کے گائوں گراںمٹ میں لڑکے سجاد کی بہن سولہ سالہ شریفاںپینے کا پانی بھر کر گھر لوٹ رہی تھی کہ اس پر قیامت ٹوٹ پڑی، نومسلح افراد نے گھیرے میں لےلیا۔ ذرا چشم تصور میں لائیے کہ کیسا خوفناک منظر ہوگاگھر سے چند میل دور شرفاء کے بھیس میں مسلح بھیڑئیے تنہا لڑکی کو کھیت میںگھیرلیتے ہیں حالات کی نزاکت جان کر وہ لڑکی عزت و جان بچانےکیلئے بھا گ اٹھتی ہے لیکن کہاں تک بھاگتی آخر گر جاتی ہے اور انسان نما بھیڑئیےاسے آلیتے ہیں ،مظلوم لڑکی انکے شکنجے سے نکلنے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئےآگے بھاگ رہی تھی وہ اسے گھر کی طرف دھکیلتے ہوئے خوب شور مچا رہے تھے۔ انسانیت خون کے آنسو رو پڑی ہوگی جب ایک جانور نما انسان کمزور بیٹی کوبندوق کا بٹ مار کر نیچے گرادیتا ہے دوسرا جانور قہقہے بلند کرتا ہے ۔ اس مظلوم لڑکی کا محض یہ قصور تھا کہ وہ سجاد کی بہن تھی؟اسکی چیخیں آسمان تک پہنچ رہیں تھیں لیکن اس گڑیا جیسی بچی کی آہ و بکا کا ان ظالموں پر رتی برابربھی اثر نہیں ہوا۔ یقیناً اس وقت اس مظلوم بچی نےیہ دعا کی ہوگی اے خدایا یہ زمین شق ہو جائے اور میں اس میں سما جائوں ۔بے شرمی اور بے غیرتی کا یہ کھیل ایک گھنٹہ تک جاری رہا ظالموں نے حوا کی بیٹی کو گائوں کی گلیوں میں گھمایااس پر آوازے کسے۔گائوں میں ایک بھی ایسا غیرت مند نہ نکلا جو ان مسلح غنڈوں کے سامنےکھڑا ہوتا۔شریفاں کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں تک یہ خبر پہنچتی ہے تو وہ ویوانہ وار جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں، منظر دیکھ کر آہ و بکا کا طوفان مچ جاتا ہے ہر آنکھ نم ہوجاتی ہےاور پورا ماحول ماتم زدہ اورسوگوار ہوجاتا ہے۔بعد ازاںماں ، بیٹی اور دیگر تھانے میں رپورٹ کرتے ہیںتوکے پی کےکی انصاف دینےوالی پولیس داد رسی کرنے کی بجائے الٹا لڑکی شریفاں کے بھائی سجاد کے خلاف پرچہ کاٹ دیتی ہے ۔ تھانیدار ماں بیٹیوں کو گالیاں د یکر وہاں سے نکال دیتا ہے۔سلام ہے شریفاں اور اسکے ماں باپ کی ہمت و حوصلے پر جنھوں نے ظالموں کے خلاف لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔انھوں نے تھانے کے باہر دھرنا دے دیا آہستہ آہستہ گائوں والے بھی انکی حمایت میں نکلنا شروع ہوگئے۔ میڈیا پر یہ واقعہ فلیش نہ ہوسکا۔دو صحافیوں نے اس واقعہ کے بعد لڑکی اور دیگر نے ویڈیوزکو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا۔جس کے بعد ریحام خان سمیت دوسری خواتین ممبران اسمبلی اوراور این جی اوز نے اس واقعہ پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کردی۔دبائو بڑھا تو آئی جی کے پی کومنظر عام پرآ کر کہنا پڑا کہ سجاد کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر منسوخ کرکے نو افراد کے خلاف دفعہ A354 کے تحت پرچہ کاٹ دیا گیا ہے۔آج کی تاریخ میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ نواں شخص اب تک مفرور ہے۔واقعہ کے پچیس دن بعد آئی جی صاحب کا یہ بیان نہایت ہی مضحکہ خیز ہے کہ ہم پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ گائوں والوں اور تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی نے بیان دیا کہ تحریک انصاف کے وزیر مال اس واقعہ میں ملوث اپنے ماموں و دیگران سمیت ملزمان کی نہ صرف پشت پناہی کررہے ہیںبلکہ انھیں پناہ فراہم کررہے ہیں۔علی امین گنڈاپور نے گائوں میں جاکر اپنی صفائی میں بڑا ہی عجیب بیان دیا کہ میں وکیل کا خرچہ، لڑکی کی شادی مع جہیز کرائوں گا نوکری بھی دوں گا۔ ہر بات پر بڑے بڑے بیان جاری کرنے والےتحریک انصاف کے سربراہ کو تو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس واقعہ کی مذمت ہی کردیتے۔نہ وہ متاثرہ خاندان سے ملے اور نہ ہی وزیر اعلیٰ وہاں گئے۔نہ ایک بیٹی کو انصاف دے سکےنہ وزیر مال کو ہٹایا گیا اور نہ ہی ایس ایچ او کو برطرف کرکے نشان عبرت بنا یا گیا بلکہ شریفاں کی حمایت کرنے پر اپنے ہی ممبر قومی اسمبلی کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر کے ثابت کردیا کہ وہ کتنے انصاف پسند ہیں۔ عوام جان گئے ہیں کہ آپ اگر ایک بیٹی کو انصاف نہیں دے سکتے تو پورے پاکستان کا کیا حشر کریں گے۔عوام ایک بیٹی کی بے حرمتی پر انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ماضی میں مختاراں مائی واقعہ میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی تھی ۔ اگر ہندو ریاست انڈیا اپنی بیٹی کی بے حرمتی پر قانون بدل سکتا ہے تو مسلمان ملک پاکستان میں مجرمان کو سرعام کیوں نہیں لٹکایا جاسکتا ہے ؟ عوامی سوال تو یہ بھی ہےکہ کب تک ہماری بیٹیاں لٹتی رہیں گی؟