16مارچ کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر عرفان صدیقی صاحب نے ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں جماعت اسلامی کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔میں صدیقی صاحب کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ جب سے ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی اور ڈیرہ غازی خان میں کھوسہ صاحبان سیاہ و سفید کے مالک بنے ہیں ، یہاں ٹھیکوں کی نیلامی ، ترقیاتی منصوبوں میں بدترین کرپشن ، کمیشن مافیا کی وارداتیں ، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے آرڈر ز کی خرید و فروخت جاری ہے ۔ جہاں تک حافظ عبدالکریم کی حمایت اور مخالفت کا تعلق ہے تو آپ نے خود ہی تحریر فرمادیاہے کہ ق لیگ کے علامتی ٹکٹ پر اویس لغاری جبکہ ن لیگ کے ٹکٹ پر حافظ عبدالکریم صاحب حصہ لے رہے ہیں ۔ تعلیمی خدمات اور خدمت خلق کے نیٹ ورک کے حوالے سے صدیقی صاحب کا طویل کالم ایک الگ موضوع بحث ہے تاہم جماعت اسلامی اور حافظ صاحب کے تعلقات کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ 2002 ء کے عام انتخابات میں این اے 172 پر جماعت اسلامی کے رہنما رشید احمد خان ایڈووکیٹ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر امیدوار تھے اور صوبائی اسمبلی پر راقم امیدوار تھا ۔ ایم ایم اے کے جس اجلاس میں یہ فیصلے ہوئے حافظ صاحب وہاں خود تشریف فرما تھے اور نہ صرف ان فیصلوں کی تائید کی بلکہ ان کے ساتھیوں نے اس مہم میں بھی شروع شروع میں حصہ لیا لیکن انتخاب سے صرف دس دن قبل حافظ صاحب نے قبائلی سردار فاروق لغاری کے بھتیجے سردار محمد خان لغاری کی حمایت کردی جو آزاد حیثیت میں حصہ لے رہے تھے اور دوسری طرف ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف الدین کھوسہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ایم ایم اے اور دینی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی منہ تکتے رہ گئے اور حافظ صاحب دو سرداروں کی خوشنودی کے حصول کیلئے ہر اصول کو پامال کر کے چلتے بنے ۔
2008 ء کے انتخابات میں اصولی طور پر حلقہ این اے 172 پر جماعت اسلامی دوبارہ امیدوار تھی لیکن حافظ صاحب اور ان کی جماعت کے سابقہ رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے دینی حوالے اور درویشی اور خدمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی درخواست پر یہ نشست حافظ صاحب کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے پیش کردی۔ پہلے حافظ صاحب ایم ایم اے کے امیدواربنے اور بعد میں ایم ایم اے کو الوداع کہہ کر ن لیگ میں تشریف لے گئے ۔ یہ وہی الیکشن تھا جس کے بائیکاٹ کیلئے آپ کے قلم کا دہانا دلائل کے شعلے اگل رہا تھا اور یکایک180 ڈگری کے زاویے پر گھوم کر نوازشریف کا وکیل و ترجمان بن گیا تھا۔ مجھے اس موقع پر یہ شعر یاد آیا جو آپ کی نذر کر رہاہوں
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد
اس چناؤ میں حافظ صاحب نے فاروق لغاری کا بہت شاندار اور جاندار مقابلہ کیا ۔ اب اسی نشست پر ضمنی انتخاب میں حافظ صاحب پھر ن لیگ کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان میں ن لیگ کھوسہ سرداروں کا نام ہے ۔ اس بر سراقتدار قبیلے نے ضلع بھر کے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے ۔ دوست محمد کھوسہ کی سرپرستی میں 46 گروپ نے اودھم مچایاہوا ہے ۔ پورے حلقہ میں حافظ صاحب کی جانب سے جن بڑے بڑے ہورڈنگز ، دیدہ زیب سائن بورڈز اور قیمتی بینرز کی بھر مار ہے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس پر مسلم لیگ ن ہی کے سینیٹر پروفیسر علامہ ساجد میر کی تصویر لگائی گئی ہو۔ نوازشریف ، شہباز شریف ، ذوالفقار کھوسہ ، سیف الدین اور دوست محمد کھوسہ اور ان کے 46 گروپ کے درمیان میں درویش منش حافظ صاحب ہیں ’ گھری ہوئی ہے’ شرافت‘ تماش بینوں میں “
کاش آپ اپنے دورہٴ ڈیرہ غازی خان کے موقع پر ہمیں بھی شرف میزبانی بخشتے اور یوں ہم بھی آپ کو تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے کہ یہاں اصل صورتحال کیاہے ؟ اس وقت مسلم لیگ ن کو سپورٹ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر کھوسہ سرداروں کے ہاتھوں اپنے وقار اور دستار کا سودا کر لیا جائے۔ جماعت اسلامی تو گزشتہ 8 سال سے نقش خیال میں سنگ باری اور نشتر زنی کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور اس کا جرم یہ ہے کہ آپ کے ممدوح نوازشریف کے قافلے سے اس کار استہ مختلف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ درویش منش حافظ صاحب الیکشن لڑرہے ہیں اور جے یو آئی (ف )، جے یو آئی (س)ملت جعفریہ ساجد علی نقوی گروپ ، تحریک جعفریہ موسوی گروپ ، عمران خان کی تحریک انصاف ، سرائیکستان قومی محاذ ، جے یو آئی کے صوبائی صدر سید محفوظ مشہدی ، علامہ محمد خان لغاری ، مرکزی تحریک احیائے سنت کے سربراہ علامہ عبدالقادرڈیروی یہ سب جماعتیں اور شخصیات کیوں حافظ صاحب کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئیں؟ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے قریبی او ردیرینہ ساتھی محمد حسین سابق یو سی ناظم ، محمد سلیم ترین سابق نائب ناظم ، سابق ممبران ضلع کونسل علامہ شاہ محمد ترابی اور ملک محمد خالد اور ایسے درجنوں مسلم لیگی بھی حافظ صاحب کا نہیں اویس لغاری کا ساتھ دے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ڈیرہ غازی خان کی سیاسی قوت ہے اور دوست و دشمن اس کے معترف بھی ہیں ۔ ہمارے فیصلے کے بعد سیاست نے یوں کروٹ لی ہے کہ اب حافظ صاحب مسلم لیگ کے سابق سینیٹر جناب رفیق رجوانہ کے ذریعے ہائی کورٹ میں انتخابات کے التوا کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ کھوسہ سردار اور ان کے حواری بے بسی میں دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں ۔ کبھی حافظ صاحب سے ملاقات ہو تو پوچھیے گا کہ تیس سال پہلے ڈیرہ غازی خان میں ان کے پاس ایک مرلہ زمین بھی نہ تھی ۔آپ مختصر عرصے میں اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک کیسے بن گئے۔ ذریعہ آمدن کیا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ہر پیروجواں کی زبان پر ہے۔ ایک ایک کروڑ روپے کی گاڑیاں ، کروڑوں روپے کے بنگلے ، اربوں روپے کی جائیداد ، پلازے اور زرعی رقبے اور اخراجات شاہانہ ۔ اگر جبہ و ستار کے ساتھ علامہ حامد سعید پی پی کا وزیرہو کر کرپشن کرے تو آپ نقش خیال میں اس کی خبر لیں لیکن اگرحافظ عبدالکریم صاحب ن لیگ میں ہوں تو ”لکھنے کے انداز بدلے گئے “ کے مصداق اقساط کی صورت میں کالم تحریر فرمائیں اور تحسین و آفرین کی بارش فرمائیں ۔