کبریائی اللہ کی چادر ہے ۔جب بھی کسی نے شعار کرنے کی کوشش کی تو برباد اور خاک بسر ہوا ۔دیکھنے والے جلد ہی دیکھ لیں گے۔
کل فقط آٹھ سو ووٹوں سے ہارنے والے حافظ عبدالکریم آج عبرت ناک شکست سے کیوں دوچار ہوئے؟ 2008ء میں چالیس ہزار ووٹروں کی حمایت سے جیتنے والے شبیر لغاری کی تائید آدھی سے بھی کم کیسے ہو گئی؟ تکبر میں مبتلا دونوں بڑی پارٹیاں ناکامی اور رسوائی کے راستے پر گامزن ہیں ۔ شعبدہ بازی اور فریب کاری ترک کرنے پر مگر وہ تیار نہیں ۔
ٹی وی کا وہ مذاکرہ یاد رہے گا جب جناب لطیف کھوسہ نے سردار فاروق خان لغاری کے فرزند جمال لغاری سے توہین آمیز روّیہ اختیار کیا۔ صدر زرداری کی تقلید میں، انہوں نے علیل اور بزرگ سیاستدان کے لیے "لغار"کا لفظ برتا، ایسا غلیظ کہ ایک بلوچ اس کی صلیب اٹھا نہیں سکتا۔ ایسا ادنیٰ کہ ترجمہ کرنے کے تصور سے کوفت ہے ۔صاحب جلال سینیٹر جمال لغاری کا ہاتھ میں نے تھامے رکھا۔ وضع دار نکلے اور مجھ پر بگڑے نہیں ۔یہ ضرور کہا : ایک دن ہم حساب چکا دیں گے۔ منگل کے معرکے میں چکا دیا ۔
فرمان یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق اس کا کنبہ ہے ۔ تذلیل پر تلے رہنے والوں کو قرض چکانا پڑتا ہے۔ 2008ء کے موسم بہار میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ اچانک انہوں نے سوال کیا: آپ مجھے کس چیز کا مشورہ دیتے ہیں ؟ گزارش کی: کرایے کے اخبار نویس مت پالیے گا۔بہت صحافی حافظ عبدالکریم کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے کہ عوام سے اٹھے ہیں لیکن فتح کی بو پا کر نون لیگ کے بعض اخباری کارندوں نے ایسا تکبر روا رکھا کہ خدا کی پناہ۔ اکثر جماعتوں کے ساتھ نون لیگ کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ اس پر زعم کا یہ عالم؟ ڈاکٹر نذیر احمد شہید، جو ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں بے دردی سے قتل کر دئیے گئے، ایک عوامی ہیرو ہیں اور ہمیشہ رہیں گے؛چنانچہ پانچ سات ہزار پکے ووٹ جماعت اسلامی کے ۔ ان پر تبرے کی ضرورت کیا تھی۔ ان دانشوروں نے قارئین اور قیادت کو اندھیرے میں رکھا کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے عوام اور شرفا کھوسہ خاندان سے نالاں ہیں ۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو انہیں تھانوں اور ٹھیکوں میں تقریباً تمام گھپلوں کا ذمہ دار نہ گردانتا ہو۔بیشتر کی رائے میں اس خاندان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان تھا جو سب کچھ بہا لے گیا۔
کہا جاتا ہے کہ سندھ اور پختون خوا کی سرحدوں تک پھیلے تمام بلوچ سردار، دریشک، قیصرانی ، لُند، مزاری، گورچانی، بزدار اور کھیتران، اویس لغاری کی مدد کو پہنچے اور یہ ان کی فتح ہے ، حتیٰ کہ ذوالفقار کھوسہ کے فرزند حسام بھی تنہائی میں فاروق لغاری مرحوم کا نغمہ گاتے رہے۔ سوال دوسرا ہے، اگر 1970ء میں، کچے مکان میں مقیم، ہومیوپیتھک معالج ڈاکٹر نذیر احمد ،سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد گرامی کو شکست دینے میں کامیاب رہے تو کیا اب سرداری نظام زیادہ مضبوط ہے؟ ڈاکٹر شہید واقعی ایک درویش تھے، بہروپئے نہیں۔ غریبوں کے سچے اور بے ریا خادم۔ حافظ عبدالکریم کبھی عام آدمی ضرور تھے لیکن اب وہ ارب پتی ہیں۔ پچھلی بار وہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار تھے اور سردار گردی کے باوجود مشکل سے ہرائے جا سکے۔ اب کیوں یکسر پامال ہو ئے۔ اس لیے کہ ہم نفسوں سے بے وفائی کی،نون لیگ میں جا شامل ہوئے، زعم بہت ہو گیا اور ہر مسئلہ دولت سے حل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ کہ بریلوی، وہابی، دیوبندی اور شیعہ تعصبات بھی جاگے اور انہیں خاک چاٹنا پڑی۔ تبدیلی کا نقیب لیڈر وہ ہوتا ہے ، جو تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو۔ یہ دعویٰ احمقانہ ہو گا کہ قاف لیگ فاتح رہی ۔ اس تحلیل ہوتی پارٹی کو پوچھتاکون ہے ۔ چوہدری پرویز الٰہی درمدح خود قوالی کرنے اور شہباز شریف کو برا بھلاکہنے کے سوا خال ہی کوئی نکتہ بیان کرتے ہیں۔ شیخ رشید خطیب ضرور ہیں لیکن ولولہ کہاں سے لاتے؟ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ اویس لغاری ہر اعتبار سے ایک آزاد امیدوار تھے ۔ انہیں ہمدردی کے ووٹ بھی ملے۔ خواتین کے پولنگ اسٹیشنوں پر ہجوم زیادہ رہا کہ وہ زیادہ ترس کھانے والی ہوتی ہیں۔ پھر یہ کہ فاروق لغاری مرحوم کا تاثر جناب زرداری اور بادشاہ سلامت نواز شریف سے بہرحال بہت بہتر تھا۔ آخری برسوں میں ان سے رابطہ رہا۔ اپنی کوتاہیوں پر ملال بہت تھا۔ دعائیں بہت پڑھا کرتے۔ سیلاب کے ہنگام جمال لغاری کو عامیوں کی خدمت پر مامور کیا حالانکہ اس تیماردار کی ضرورت انہیں زیادہ تھی۔
نون لیگ کا حال پتلا ہے ۔ پنجاب اور پختون خوا کے اکثر علاقوں میں پیپلز پارٹی لیکن اور بھی تیزی سے ڈوب رہی ہے ۔ بظاہر بدنام مگر بانکے اور بڑبولے قیوم جتوئی کی موجودگی میں پارٹی کے کارکنوں نے رو کر کہا کہ ذوالفقار مرزا سمیت ، زرداری کے فدائین ان کی بربادی کا باعث ہیں۔ نومبر 2010ء کو پنجاب کے گورنر ہاؤس میں سندھ کے آئی جی فیاض لغاری کے بھائی شبیر لغاری کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا ۔کارکنوں کا کہنا یہ تھا: اگر شبیر لغاری 2008ء میں چالیس ہزار ووٹ حاصل کر سکے تو محترمہ کی شہادت پر ردّعمل کی فضا میں ، وگرنہ جماعت سے وہ مخلص نہیں۔ لغاری سرداروں سے وہ دب کر رہیں گے۔ ان کا اثاثہ صرف ذوالفقار مرزا ہیں کہ فیاض اعوان کے سرپرست ہیں ، جو کبھی ارباب رحیم کا دایاں بازو تھے۔ سیلاب کے دنوں میں وفاقی حکومت کی مدد سے وہ بروئے کار نہ آئے۔ جب کہ جمال لغاری، جعفرلغاری اور ان کی قابل احترام اہلیہ مینا لغاری متحرک رہیں۔ شاید ان سے زیادہ حافظ عبد الکریم۔ ڈیرہ غازی خان شہر کھداپڑا ہے،بڑی شاہراہیں بھی ۔ صوبائی حکومت نے پروا کی اور نہ مرکزی سرکار نے ۔ وطن کارڈ سفارش پر بٹے ، استحقاق پر نہیں۔ وزیر اعظم گیلانی دو ماہ قبل صرف ایک بار گئے اور وہ بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تقریب میں۔ وہاں بھی لغاری خاندان کے ساتھ اپنی رشتہ داری کا ذکر فرماتے رہے۔ جلال پور پیر والا میں ، مجو سائیں کے حلقے میں انہوں نے جان لڑا دی تھی اور اربوں کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ۔ پیپلز پارٹی کے ایک باوفا کارکن نے رنج سے کہا: زرداری صاحب ، محترمہ فریال تالپور اور ذوالفقار مرزا ہارے ہیں کہ وہی شبیر لغاری کے حامی تھے یا ہم لاچارلوگ۔ کھوسہ خاندان جیت گیا اور گیلانی صاحب ۔۔۔ "کھوسہ خاندان کیسے؟" ان سے پوچھا گیا ۔ جواب یہ تھا"شریف خاندان کا ڈر نہ ہوتا تو شاید وہ گھروں سے باہر بھی ہرگز نہ نکلتے" حیرت سے میں نے سوچا: کم از کم دس بار اس کالم میں ، میں نے کھوسہ سرداروں کی چیرہ دستیوں کا ذکر کیا تھا۔ آزاد صحافت کا راگ الاپنے مگر عملاً اس سے نفرت کرنے والے نون لیگ کے بزر جمہر ۔ہرکسی کی تحقیر پر تلے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلّمہ طور پر کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا سب سے بڑا کپتان اور پاکستان میں اس کا معمار بھارتی ایجنٹ ہے۔ اپنی آمدن کا بڑا حصہ کینسر کے مریضوں اور نمل کالج کے غریب بچوں کی نذر کر دینے والا۔ محب وطن فقط نواز شریف ہیں ، عربوں اور برطانیوں کے سائے میں ، بیشتر سرمایہ جو ملک سے باہر لے جا چکے اور ایک عام اخبار نویس جتنا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔
صحافت، وکلا، سیاسی کارکن، طلبہ اور دانشوروں میں نون لیگ کے سب سے معتبر لیڈر جاوید ہاشمی نے ڈیرہ غازی خاں جانے سے گریز کیا۔ کیوں جاتے؟ ایک بار خواجہ آصف اور دوسری بار رانا تنویر نے نواز شریف کی موجودگی میں ان کا تمسخر اڑایا اوربدترین انداز میں ۔ میاں صاحب خاموش رہے۔ایسے لوگ انہیں خوش آتے ہیں اور جاوید ہاشمی ناپسند۔ اس قدر ناپسند کہ پارٹی کے لیے چار برس کی اسیری اور تین نشستیں جیت کر گھر واپس گئے تو خیر مقدم کے لیے مخالف تھانیدار متعین پائے۔
ضمنی الیکشن پرغور کرنے والوں کے لیے نشانیاں بہت ہیں۔ تکبر اور غرور میں مبتلا لوگ مگر ذہنی مریض ہوتے ہیں۔۔۔خود فریب! خوشامدیوں کے جلو میں ، رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے، لمحہ بہ لمحہ وہ موت کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کارندے پالتے اور خیر خواہی سے مشورہ دینے والوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔چلن یہی رہا تو آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ پر ایسے زخم لگیں گے کہ مفکرین منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ کبریائی اللہ کی چادر ہے۔ جس کسی نے شعار کرنے کی کوشش کی، برباد ہوا ۔وہ خاک بسر ہوا۔ دیکھنے والے جلد ہی دیکھ لیں گے ۔