• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12 ربیع الاول کا دن پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یوم ولادت ہونے کے باعث ملت اسلامیہ کیلئے سعادت و مسرت اور درود و سلام کے انوار کی بارش کا موقع ہے۔ یہ دن ہمیں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کئے گئے اس اقرار کی یاد بھی دلاتا ہے جو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے آخری رسولﷺ سے ان کے امتیوں نے کیا تھا اور جس کا لب لباب یہ تھا کہ آپﷺ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا اور امانت ہم تک پہنچادی۔ غور کریں تو گنبد خضریٰ سے آج بھی ان الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ ’’لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ تم ان پر قائم رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوسکوگے، یعنی اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت‘‘۔ ان الفاظ کو تو مسلم امہ کیلئے بطور خاص چشم کشا ہونا چاہئے کہ ’’دیکھو! میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں گردنیں مارنے لگو۔‘‘ اللہ رب العالمین نے محمد الرسول اللہ ﷺ کو رحمۃ للعالمین قرار دیتے ہوئے نبوت و وحی کا سلسلہ تکمیل تک پہنچاکر قیامت تک بنی نوع آدم کا وہ منشورو دستور اور لائحہ زندگی عطا فرمایا جس میں دی گئی توحید کی تعلیم کی بدولت ظہور اسلام کے بعد جھوٹے خدائوں، ظالم حکمرانوں اور شعبدے باز کاہنوں کیلئے انسانیت کی تذلیل کو جائز قرار دینا ممکن نہ رہا۔طاقت کے زور پر انسانوں اور اقوام کو محکوم بنانے والے وقتی طور پر تو کامیاب ہوسکتے ہیں مگر تاریخ عالم جبر کی قوتوں کو مزاحمتوں اور مذمتوں کے سیلابوں میں کئی بار غرق ہوتے دیکھ چکی ہے اور آئندہ بھی دیکھتی رہے گی۔ رحمۃ للعالمینﷺ کی تعلیمات اور ان کے ذریعے آنے والے پیغام کے صدقے اولاد آدمؑ کو اس شرف کا درست ادراک ہوا جو فرشتوں سے سجدہ کراکے اس کے جدامجد کو عطا کیا گیا۔ اسے شعور ملا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہونے کے ناطے برابر کے حقوق رکھتے ہیںاس لئے اقوام، نسلوں، رنگوں، علاقوں اور زبانوں کے فرق کی بنا پر کسی کو کسی پر برتری نہیں سوائے تقویٰ، خداشناسی اور انسان دوستی کے۔ سماجی زندگی کی تفصیلات سے قطع نظر، جس کا ہر پہلو رسول امیﷺ کی تعلیم کے باعث دنیاکے ہر حصے میں انقلاب آشنا ہوا، نظام مملکت و سفارت کے وہ پہلو اجاگر ہوئے جنہیں عالمی امن کا پیش لفظ کہا جاسکتا ہے۔مکے سے ہجرت کے بعد وسائل سے محروم ہو کرجو مہاجرین مدینہ پہنچے ان کی بحالی و آبادکاری کیلئے مواخات کے ذریعے باوسیلہ افراد کے وسائل میں حصہ داری کیا ماہرین معیشت کیلئے چشم کشا نہیں؟ میثاق مدینہ کے ذریعہ متحارب قبائل کو ایک لڑی میں پرونا ہو، اردگرد کے قبائل سے مشترکہ دفاع و تعاون کے معاہدے ہوں، یہاں تک کہ انتہائی دشمنی پر آمادہ مشرکین مکہ سے بھی حدیبیہ کا امن معاہدہ طے پانا ہو یا مملکت مدینہ کے داخلی معاملات میں انفرادی اور قبائلی تعلقات اور نظم و نسق کی بے شمار مثالیں ہوں، وہ سب ہی ملکوں اور انتظامی یونٹوں کے بہت سے معاملات میں رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔آج کی دنیا جن پیچیدگیوں سے دوچار ہےاور کئی جہتوں سے جنگ کے بادلوں کی زد میں آتی محسوس ہورہی ہے، ان کے تناظر میں مسلم دنیا کیلئے مشکلات بڑھ گئی ہیںکیونکہ بیشتر مسلم ممالک تمام شعبوں میں انحطاط کے شکار ہیں جبکہ مسلم امّہ کے باہمی تعلقات کی صورتحال بھی قابل رشک نہیں۔ جس قوم کے لوگوں کو دوسروں کو اچھائی کے مقاصد پرتبلیغ کرنے کی تعلیم دی گئی تھی وہ اپنے موقف پر بھی غیرمسلم اقوام کو تو کجا خود اپنے برادر ملکوں کو قائل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گنبد خضریٰ سے اٹھنے والی باز گشتوں کا ادراک کریں ، اپنی ذاتی انائوں اور مفادات کے خول سے باہر نکلیں، حج بیت اللہ اور میلادالنبیﷺ کے مواقع کو باہم مل بیٹھنے کا ذریعہ بنائیںاور اپنے اختلافات دور کرنے اور عالمی برادری تک اپنے پیغامات پہنچانے کیلئے رسول اللہﷺ کی سنت اور قرآن کے اصولوں سے رہنمائی لیں۔ اس ضمن میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کو فعال کرنے، مؤثر سفارتکاری بروئے کار لانے اور عوامی بہبود کے کاموں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین