یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قیام پاکستان میں مشیت ایزدی شامل تھی۔ مطالبہٴ پاکستان تو مسلم لیگ کے قیام سے ہی چلا جا رہا تھا لیکن عملاً اس کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ اور اس میں بھی 27ویں لیلة القدر کی وہ شب جو ہزار راتوں سے افضل تھی، 14/اگست 1947ء کو جب گھڑی نے 12بجائے، 21توپوں کی گھن گرج سے پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا۔ نماز فجر کے بعد قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، گورنر غلام حسین ہدایت اللہ اور عمائدین شہر کی موجودگی میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے دست مبارک سے پاکستان کا جھنڈا بلند کیا گیا۔ قومی ترانہ بجایا گیا، عالم اسلام کی سلامتی، فلسطین، کشمیر کی باریابی کی دعا کی گئی۔ قائداعظم نے فرمایا میں عالم اسلام کو قیام پاکستان کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج میرے تمام جذبات ان بہادر مجاہدین کی طرف لگے ہیں جنہوں نے خندہ پیشانی اور استقامت سے اپنا سب کچھ اور اپنی زندگی تک کو قربان کر دیا۔
ہمارے وہ بھائی جو ہندوستان میں اقلیت میں ہیں انہیں ہم یقین دلاتے ہیں کہ نہ تو انہیں نظرانداز کریں گے اور نہ فراموش کریں گے۔ ہمارے دل ان کیلئے دھڑکتے ہیں اور ان کی مدد، فلاح اور بہبود کیلئے ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ اس برصغیر میں ان اقلیتی صوبوں کے مسلمان تھے جو پیشرو تھے اور جنہوں نے ہمارے عزیز مقصد پاکستان کے حصول کیلئے تنہا پرچم اٹھایا تھا۔ مسلمانان ہند نے دنیا کو دکھایا ہے کہ وہ ایک متحد قوم ہیں، ان کا نصب العین صحیح، نیک اور انصاف پر مبنی ہے۔ آئیے اس نعمت کے لئے ہم عاجزی اور انکساری سے خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائیں اور دعا کریں کہ ہمیں اس نعمت کے لائق بنا دے۔ 15/اگست کو قائداعظم نے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ سات وزراء پر مشتمل پہلی کونسل قائم ہوئی۔ لیاقت علی خان کو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ پاکستان کا پہلا گزٹ شائع ہوا۔ قائداعظم نے فرمایا اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست، معاشرے میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ حکمت و دانائی، رشد و ہدایات کا یہ مخزن ہی اصل میں پاکستان کا نصب العین، نظریہ پاکستان کی اساس تھا۔ آج وطن کی حالت زار دیکھ کر غالب کا شعر یاد آتا ہے :
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
آیئے اس سیاہ بختی کے عالم میں آپ کو تحریک پاکستان کے چند دلچسپ واقعات سناتا ہوں۔ دسمبر 1945ء میں سینٹرل اسمبلی کا الیکشن ہوا۔ کانگریس نے مسلم لیگ کو ناکام بنانے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ بمبئی کی کانسٹی ٹیونسی سے قائداعظم محمد علی جناح کے مقابلے میں ایک نیشنلسٹ مسلمان حسین بھائی لال جی کو کھڑا کیا۔ قائداعظم کی اہلیت کا تو یہ عالم تھا کہ وہ جب انگلستان میں سکونت پذیر تھے تو 1935ء کے آئین کے تحت الیکشن میں غائبانہ ان کی کامیابی عوام میں مقبولیت کی واضح دلیل تھی۔ 1945ء کے الیکشن میں حسین بھائی لال جی کے 126ووٹوں کے مقابلے میں قائداعظم کو 3602 ووٹ ملے۔ جداگانہ طرز انتخاب کا مطالبہ تو مسلمان سر سلطان محمد آغا خان کی قیادت کے زمانے سے کر رہے تھے لیکن کمیونل ایوارڈ 1932ء میں آیا مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو بھی جداگانہ طرز انتخاب کا حق ملا۔ مہاتما گاندھی نے وائسرائے کو خط لکھا کہ جداگانہ طرز انتخاب کے تحت اونچی ذات کے ہندو اسمبلیوں میں شودروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر جداگانہ طرز انتخاب کا قانون منسوخ نہ کیا گیا تو وہ مرن برت رکھ کر اپنی جان ہلاک کر دیں گے۔ چند سادہ لوح مسلمان بھی مخلوط طرز انتخاب کے حامی بن گئے۔ بہرحال دہلی میں سر سلطان محمد آغا خان سوم کی صدارت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی۔ سر سلطان محمد آغا خان ابھی جلسہ گاہ تشریف نہیں لائے تھے، اسٹیج پر مہاتما گاندھی بیٹھے تھے مختلف سیاسی جماعتوں کے ممبران کی موجودگی میں جیسے ہی سر سلطان محمد آغا خان جلسہ گاہ میں داخل ہوئے، گاندھی جی اپنی لٹھیا ٹیکتے ہوئے جلسہ گاہ سے باہر چلے گئے۔ جلسے کے اختتام پر لوگوں نے سر سلطان محمد آغا خان سے دریافت کیا، سر یہ کیا وجہ ہوئی کہ آپ آئے تو مہاتما گاندھی چلے گئے۔ سر سلطان محمد آغا خان نے فرمایا ”حق آیا اور باطل گیا اور باطل تو جانے والا ہی تھا“۔ بنی اسرائیل کی یہ آیت ضمیموں کی سرخی بن گئی۔مجموعی حیثیت سے پورے ہندوستان میں سینٹرل اسمبلی کی 30مسلم نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں۔ نتیجہ 100فیصد کا اس عظیم الشان کامیابی پر دہلی پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کیا گیا۔ ٹھیک 4بجے شام قائداعظم جلسہ گاہ تشریف لائے، لاکھوں کا مجمع تھا۔ اس زمانے میں جنگ عظیم دوم ہو رہی تھی۔ جرمنی میں نازی پارٹی کا بڑا چرچہ تھا۔ آپ نے قائداعظم کی تقاریر انگریزی میں سنی ہوں گی، آج میں آپ کو قائداعظم کی پہلی اردو تقریر سناتا ہوں۔ فرمایا! آپ لوگوں نے دہلی کا اردو سنا ہو گا، لکھنوٴ کا اردو سنا ہو گا، آج میں آپ کو گجراتی کا اردو سناتا ہوں۔ جرمنی میں جب نازی پارٹی نے الیکشن لڑایا تو اس کے پاس توپ تھا، بندوک تھا، گیسٹاپو تھا اور ہمارے پاس فقط اللہ کا کلام اور محمد کا حکم، آگے آگے گدّار مسلمان اور پیچھے ہندو کانگریس اس کو رسد پہنچاتا تھا تو ہم کو 100فیصد کامیابی ہوا ہے اور ابھی ہم نے سینٹرل میں اپنی چمکی دکھایا ہے اب پروونشل میں اپنی چمکی دکھائے گا اور ہماری کامیابی پر تو دنیا میں عجب ہو رہا ہے۔ قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ ایک اور لطیفہ سنئے۔ بہرائچ کے ضلع میں ٹھاکر اصغر علی کے انتقال سے ایک مسلم نشست خالی ہوئی۔ مسلم لیگ کی پوزیشن ذرا کمزور تھی، رضاکاروں نے فیصلہ کیا کہ دہلی چل کر مولانا ظفر علی خان کو دعوت دی جائے کہ وہ آ کر موقع کو سنبھال سکتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان جیسے ہی بہرائچ پہنچے رضاکاروں سے سوال کیا، کانگریسی مسلمان کا نام کیا ہے اور وہ کیا پیشہ کرتا ہے؟ لوگوں نے بتایا اس کا نام حسین احمد ہے اور اس کا اینٹوں کا بھٹہ ہے۔ مولانا نے فی البدیہہ ایک نظم لکھ کر دی اور رضاکاروں کو ہدایت کی کہ اسے کورس کے ساتھ گلی، کوچوں میں پڑھ آؤ۔ اس نظم کا ایک شعر تھا:
اگر مینہ زور سے برسا تو گر جائیں گی دیواریں
کہ اینٹیں ساری کچّی ہیں حسین احمد کے بھٹّے کی
خدا کا کرنا حسین احمد کی ضمانت ضبط ہو گئی اور مسلم لیگ کا امیدوار کامیاب ہو گیا۔
قائداعظم کے رعب کا ایک واقعہ سنا کر کالم ختم کر رہا ہوں۔ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کا اجلاس لیاقت علی خان کی کوٹھی 8B ہارڈنج ایونیو گل رعنا میں ہونے والا تھا۔ تمام ممبران بڑے ہال میں جمع تھے، قائداعظم برابر والے کمرے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے کو انٹرویو دے رہے تھے۔ قائداعظم خود وقت کے بڑے پابند تھے لیکن ممبران نے آپس میں مشورہ کیا کہ کوئی قائداعظم کو جا کر میٹنگ کی یاد دلا دے۔ قرعہ فال لیاقت علی خان کے نام نکلا۔ لیاقت علی خان نے معذرت کر لی کہ خواجہ ناظم الدین سینئر ممبر ہیں وہ تشریف لے جائیں۔ خواجہ صاحب نے جیسے ہی پردے کا کونا اٹھایا فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ بولے میاں! وہ تو ادھر ہی دیکھ رہے ہیں۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ دوستو! یہ رعب کسی ڈکٹیٹر کا نہیں تھا، کسی بادشاہ کا نہیں، کسی آمر کا نہیں تھا، یہ رعب تھا اس عظیم ہستی کے اوصاف حمیدہ کا ۔امانت، دیانت، صداقت کا۔ میرے سینے میں، ذہن میں یادوں کی جو بارات ہے اسے سناتا جاؤں گا لیکن کالم میں جگہ نہیں۔ افسوس تو یہ ہے پاکستان کی تشکیل جتنی خوش آئند تھی اس کی تکمیل تشنہ گام ہی رہی۔