امریکی اسپیشل فورسز نے ایبٹ آباد کے علاقے میں آپریشن کر کے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا ہے اور ان کی لاش افغانستان لے جا کر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد شمالی بحیرہ عرب میں سمندر برد کر دی ہے آپریشن میں اسامہ کا بیٹا اور تین ساتھی بھی مارے گئے جبکہ مبینہ طورپر ان کی دو بیویوں اور 6 بچوں سمیت 12 افراد کو گرفتار کر لیا گیا امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی قوم سے خطاب میں اسامہ کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے اسے انصاف قرار دیا اور کہا کہ ہم پاکستان کے تعاون سے اسامہ کے ٹھکانے تک پہنچے اور یہ تاریخی کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ امریکہ جو چاہے کر سکتا ہے اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر امریکہ سمیت کئی یورپی ملکوں میں جشن منایا گیا اور بھارت افغانستان، اسرائیل، فرانس، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، سعودی عرب، یمن اور کئی دوسرے ملکوں نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابی قرار دیا۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق آپریشن میں چار امریکی ہیلی کاپٹرز اور امریکی میرین نے حصہ لیا ایک ہیلی کاپٹر مبینہ طور پر زمین سے فائرنگ کر کے مار گرایا گیا۔ اس آپریشن کے حوالے سے ماہرین کے تجزیوں اور تبصروں میں بعض بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا امریکی ہیلی کاپٹرز پاکستان کے اندر تربیلا سے اڑ کر یہاں آئے یا افغانستان کی دور دراز بگرام ایئر بیس سے ۔ عینی شاہدین کے مطابق ہیلی کاپٹروں کی گھن گرج سنائی دی، دھماکے ہوئے اور فائرنگ بھی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ پہلے سے ہمارے انٹیلی جنس اداروں کے علم میں تھا اور کیا وہ خود بھی اس عمل میں شریک تھے کیا ہماری حکومت بھی اس سے باخبر تھی؟ اس کارروائی کے بارے میں ساری ابتدائی رپورٹیں غیرملکی ذرائع ابلاغ نے امریکی ادارے سی آئی اے کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر جاری اور نشر کیں۔ مگر ملکی اداروں سے کوئی جواب نہیں ملا۔انتہائی تعجب خیز اور تشویشناک بات یہ تھی کہ دارالحکومت اسلام آباد کے انتہائی قریبی علاقے میں اتنی بڑی کارروائی ہوئی مگر صدر، وزیراعظم اور ذمہ دار مناصب پر فائز اہم افراد نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ کافی انتظار کے بعد وزارت خارجہ نے ایک مبہم سا بیان جاری کیا جو ضروری معلومات اور تفصیلات سے عاری تھا۔ گومگو اور بے یقینی کی یہ کیفیت طول پکڑ گئی تو وضاحتیں آنا شروع ہوئیں اور پتہ چلا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم نے اس کارروائی اور اسکی کامیابی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کارروائی امریکیوں نے اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق کی۔ ہمارے جوان اس میں شریک نہیں تھے ۔ جبکہ بعض اہم دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر اتنی دور سے پاکستانی سرحد کے اندر آ کر اس طرح کا حساس آپریشن کرنا ممکن ہی نہیں ۔بعض کا خیال ہے کہ امریکیوں نے پاکستان کے راڈار جام کر دیئے تھے اور ایسے خودکار انتظامات کئے تھے کہ پاکستانی فورسز کو ان کی آمدکا پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ریٹائرڈ جرنیلوں اور عسکری تجزیہ نگاروں کے نزدیک قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ غیرملکی فورس نے ہماری خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے ہمارا دفاعی حصار اس طریقے سے ناکام بنا دیا ہو اور دارالحکومت کے اتنا قریب پہنچ گئے ہوں۔ ایسا کام کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے عملی اشتراک اور تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ حکومت کے موقف سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اور اسکے متعلقہ ادارے عوام کو دانستہ اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں حیرت ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت اور اس کے ذیلی ادارے جو عوام کے دلوں کی دھڑکنوں میں بستے ہیں ،قوم کو اس مسئلے پر اعتماد میں لینے کے قابل نہیں سمجھتے۔ یہ بات بھی سنجیدہ فکر حلقے قبول نہیں کریں گے کہ اسامہ کو کسی ملک نے اپنے ہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی اس لئے اس کی میت سمندر برد کر دی گئی ۔سعودی عرب، مصر اور پاکستان کے جید علماء نے واضح کیاہے کہ جس مسلمان کی موت زمین پر واقع ہو اسلامی اور شرعی نقطہ نظر سے اسکی میت سمندر بردنہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے اندر مذکورہ کارروائی سے ہماری حکومت کی اہلیت اور اداروں کی مستعدی سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو مزیددباؤ میں لانے کی امریکی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور بھارت کو ایک بار پھر یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ افغانستان کا ردعمل بھی جارحانہ ہے اس پس منظر میں غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں اسکے ارد گرد سازشوں کا جال بن رہی ہیں۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایبٹ آباد میں جس شخص کو مارا گیا ہے ضروری نہیں کہ وہ اسامہ بن لادن ہی ہو ۔کیونکہ یہ کسی طور ممکن نہیں کہ اسامہ یہاں دس سال سے بیٹھا ہو اورکسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی ہو۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ایبٹ آباد کا واقعہ جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کام صرف پاکستان کو نئی مشکلات میں پھنسانے اور ڈرانے کے لئے کیاگیا ہے۔ انہوں نے قطعیت کے ساتھ کہا کہ اسامہ بن لادن دس سال پہلے تورا بورا پہاڑوں میں مارا جا چکا ہے۔ حالیہ آپریشن کو بنیاد بنا کر اب امریکہ پاکستان سے ڈومور کے مزید مطالبے کرے گا ۔دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اس طرح کے کام وہ پہلے بھی کرتا رہا ہے ۔کئی سال پہلے ایک امریکی خاتون کو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا تھا پھر اسے رہا کرانے کے بعد امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اسے امریکی کمانڈوز نے آپریشن کر کے چھڑایا۔ لیکن چند ماہ بعد ایک معتبر مغربی نشریاتی ادارے نے اس دعوے کی قلعی کھول دی اور ثابت کیا کہ یہ محض ایک ڈرامہ تھا۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی آگے چل کر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال اس نازک صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہمارے حکمران سیاسی قائدین اور دفاعی اداروں کے ذمہ دار لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کی پالیسی پر حقیقت پسندانہ غور و خوض کے بعد اسے قومی مفادات کے مطابق بنائیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے تعاون کرتے ہوئے ہم اب تک 68 ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھا چکے ہیں اور ہمارے 34 ہزار سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔ ہماری معیشت اتنا بڑا نقصان اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے امن و امان کی حالت ابترہے ۔مہنگائی اور بیروزگاری نے عام آدمی کی زندگی اجیران کر کے رکھ دی ہے ادھر امریکہ کھلے بندوں کہہ رہا ہے کہ اسامہ کے مرنے سے دہشت گردی کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ہم یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک آخری دہشت گرد کو بھی ختم نہیں کر دیتے ۔پاکستان کے اکابرین کو اس امریکی طرزعمل کے خطرناک نتائج کا پورا پورا ادراک ہونا چاہئے اور ملک و قوم کو ان سے بچانے کیلئے مثبت اور ٹھوس پالیسی اپنانی چاہئے ۔
کراچی میں بدامنی کی تازہ لہر!
کراچی میں بدامنی کی تازہ لہر نے کئی روز سے عملاً شہری زندگی مفلوج کر رکھی ہے۔ پیر کے روز متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنما سمیت 6/افراد قاتلوں کا نشانہ بن گئے ۔ قبل ازیں چند ماہ کے دوران تقریباً تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو لقمہ اجل بنایا گیا۔ ان حالات میں عوامی سطح پر پائے جانے والے یہ شکوک وشبہات بے وزن نہیں ہیں کہ وطن دشمن عناصر ایک جانب قتل و غارت کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے تجارتی و صنعتی شہر میں خوف اور افراتفری کی کیفیت پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو راستے سے ہٹا کر شہریوں کو منظم کرنے والی قوتوں کو کمزور کررہے ہیں۔ پیر کے روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد شہر میں جس انداز سے افواہوں کے ذریعے کشیدگی کی فضا پیدا کی گئی اور نامعلوم افراد نے فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے خوف و دہشت کی فضا پیدا کی وہ حد درجہ تشویشناک ہے ۔چند گھنٹوں کے دوران 40سے زیادہ گاڑیوں کا نذر آتش کیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس سے ایک جانب ٹرانسپورٹروں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا تو دوسری جانب ٹرانسپورٹ کی کمی سے دوچار شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ کاروباری مراکز کی بندش اور سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام نے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر گزارنے پر مجبور کردیا۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ متعلقہ حکام حالات کا درست طور پر تجزیہ کریں۔ ارباب حکومت سمیت تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت بطور خاص بڑھ گئی ہے۔ تاکہ کراچی کی سماجی و کاروباری زندگی کا پہیہ رواں رکھا جاسکے۔ کیونکہ اس شہر کے امن و امان پر ہی قومی معیشت کا دارومدار ہے۔