• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایبٹ آباد آپریشن اور کابینہ میں توسیع...سویرے سویرے…نذیر ناجی

بڑا عجیب دن تھا۔ 2 مئی کی صبح کو امریکی‘ ایبٹ آباد میں اپنا سرجیکل آپریشن کر کے جا چکے تھے۔ حکومت پاکستان خاموش تھی۔ آئی ایس پی آر چپ تھی۔ علاقے کے فوجی کمانڈر کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ لیکن پاکستان کے چند ٹی وی اینکرز ایسی ایسی ماہرانہ موشگافیاں کر رہے تھے‘ جنہیں سن کر جی ایچ کیو والے بھی دنگ رہ گئے ہوں گے۔ جن چیزوں کا پاکستان کے فوجی ماہرین کو علم نہیں تھا۔ آپریشن کرنے والے امریکی کمانڈوز کو پتہ نہیں تھا۔ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرنے والے صدر اوباما کو خبر نہیں تھی‘ وہ سب ہمارے اینکرز بتا رہے تھے۔ ہیلی کاپٹرز کہاں سے آئے؟ انہوں نے آپریشن کیسے کیا؟ اسامہ بن لادن کی موت کیسے ہوئی؟ اسامہ کے خفیہ ٹھکانے کا سراغ کیسے لگایا گیا؟ اس آپریشن میں پاکستان کے فوجی شامل تھے یا نہیں؟ بیشتر اینکرز کے پاس ہر سوال کا جواب موجود تھا۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن ناظرین اپنے چینلز کے ذریعے اتنے زیادہ باخبر ہو گئے تھے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی کمانڈ کرنے والے بھی‘ اتنا کچھ نہیں جانتے ہوں گے ‘ جتناکچھ ہمیں بتایا جا رہا تھا۔ بعض اوقات زیادہ علم اور زیادہ معلومات خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ اگر ہم اتنے ہی باخبر ہیں‘ جتنے کہ دو مئی کو اچانک ہو گئے تھے‘ تو2 مئی کے آپریشن سے پہلے چپ کیوں سادھ رکھی تھی؟ یہ کیوں نہیں بتادیا تھا کہ اسامہ بن لادن کاکول اکیڈمی کی عین ناک کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ علم کا یہی ذخیرہ پہلے دنیا کے سامنے رکھ دیا ہوتا‘ تو امریکیوں کو زحمت کیوں اٹھانا پڑتی؟ خود ہماری سکیورٹی کا کوئی ادارہ اسامہ کو گرفتار کر سکتا تھا اور ضروری سمجھا جاتا‘ تو اسے فرار ہو کر افغانستان چلے جانے کا کہا جا سکتا تھا۔ ہم اس سبکی سے تو بچ جاتے‘ جو ہماری ہو رہی ہے اور آگے ہونے والی ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے دانشوروں اور سیاستدانوں نے تو خود اسامہ کی ہلاکت کو بھی متنازعہ بنا رکھا ہے۔ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کی خبر ہی جعلی ہے۔ وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔ ان کے قتل کی خبر محض ایک ڈرامہ ہے۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ امریکی جو تصویر شائع کر رہے ہیں‘ وہ بھی جعلی ہے۔ ایک چینل پر تو دو مختلف پوز دکھا کر بتایا جا رہا تھا کہ ان تصویروں کو غور سے دیکھیے‘ کیا یہ ایک آدمی کی لگتی ہیں؟ گویا امریکیوں کو اسامہ کی ہلاکت ثابت کرنے کے لئے اس کے دو ہم شکل ڈھونڈ کر قتل کرنے پڑے تاکہ لوگوں کے سامنے اپنا دعویٰ ثابت کر سکیں۔ تحقیقاتی رپورٹنگ اور حقائق کی تلاش صحافیوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے حقائق سامنے آتے جائیں یا دریافت ہوتے رہیں‘ انہیں عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ مگر خیالی گھوڑے دوڑانے کا نام صحافت یا دانشوری نہیں ہوتا۔ خیالی گھوڑے دوڑانا بری بات نہیں مگر انہیں بتا کر دوڑانا چاہیے ۔ یہ تاثر پیدا کرنا مناسب نہیں کہ یہ خیالی گھوڑے بھی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔ مجھ سے رات کے 10بجے کے بعد بھی یہ سوالات ہوتے رہے کہ کیا واقعی اسامہ زندہ نہیں رہا؟ مجھے تنگ آ کر کہنا پڑا کہ جہاں تک اسامہ کی ہلاکت کا سوال ہے‘ اس کی خبر ایک سپر پاور کے صدر نے خود ٹیلی ویژن پر آ کر اپنی قوم اور ساری دنیا کو سنائی۔ وہ صرف پاکستانی عوام سے مخاطب نہیں تھے۔ دنیا کے جن ملکوں میں القاعدہ نے دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں‘ ان سب کے متاثرین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وہاں کی حکومتیں جدید ٹیکنالوجی پر دسترس رکھتی ہیں۔ امریکی کانگریس اور اس کی سب کمیٹیاں ہر محکمے کا ریکارڈ دیکھ سکتی ہیں۔ معلومات کے تمام ذرائع تک پہنچ سکتی ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن اندھیروں میں نہیں ہو رہا تھا۔ امریکہ میں ناسا کے ہیڈ کوارٹر‘ پینٹا گون اور سی آئی اے کے مراکز اور وائٹ ہاؤس میں یہ آپریشن لائیو دیکھا جا رہا تھا۔ جس کی سیٹلائٹ کے ذریعے عکسبندی کی جا رہی تھی اور جب ہیلی کاپٹرز گراؤنڈ پر اترے‘ تو وہاں سے ایک یا دو ماہر کیمرہ مین‘ مقام واردات کے مناظر دکھانے لگے اور یہ کیمرے مکان کے اندر تک گئے‘ جہاں سے باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ناساکے ہیڈکوارٹر میں اسامہ بن لادن کی ایک بہن کا ڈی این اے سیمپل تیار رکھا ہوا تھا۔ کمانڈوز نے وہیں پر اسامہ کا ڈی این اے لیا۔ سیمپل کوایک تجزیاتی مشین میں جانچا گیا اور نتیجہ کمپیوٹر کے ذریعے ناسا کو بھیجا گیا۔ ناسا نے موازنہ کرنے کے بعد تصدیق کر دی گئی کہ تحویل میں آیا ہوا شخص اسامہ بن لادن ہی ہے۔یہ ساری کارروائی صدر اوباما اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ وہیں سے حکم دیا گیا کہ اسے ہلاک کر دیا جائے۔ اسامہ کی طرف سے کسی طرح کی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ انہیں صرف دو گولیاں ماری گئیں‘ جو امریکی کمانڈو نے چلائی تھیں۔ اسامہ کے کسی گارڈ کی گولی انہیں نہیں لگی ۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اس کی پوری ریکارڈنگ امریکہ کے کئی محکموں میں محفوظ کر لی گئی ہے۔ کبھی نہ کبھی اسے عام لوگ بھی دیکھ سکیں گے۔ مگر یہ سب کچھ جو امریکی صدر اور حساس محکموں کے سربراہوں نے انتہائی رازداری کے عالم میں دیکھا ہے‘ ہمارے بعض جید ساتھیوں نے اس کی منظر کشی کر کے بھی سنا دی۔ ہمارے ایک مبصر نے تو ہیلی کاپٹر کی تباہی کی کہانی بھی بتا دی۔ ان کے مطابق ہیلی کاپٹر میں خرابی آ گئی تھی‘ جس کی وجہ سے کمانڈوز نے خود اپنا ہیلی کاپٹر اڑا دیا تاکہ اس کی کوئی مشین یا پرزہ پاکستانیوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ انہوں نے یہاں تک بتایا کہ امریکی کمانڈوز کس طرح لپک کر ٹیک آف کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں چڑھے اور یہ اطلاع بھی دی کہ ہیلی کاپٹر‘ دو نہیں چار تھے۔یاد رہے خود امریکی اپنے آپریشن کی تفصیل منظر عام پر نہیں لائے اور پاکستان کے کسی خفیہ ادارے نے اس آپریشن کے بارے میں ایک لفظ نہیں بتایا۔ جتنے عینی شاہدین نے اپنے مشاہدات بیان کئے‘ ان میں بھی صرف تین ہیلی کاپٹرز کا ذکر ملتا ہے۔مگر یہ پاکستانی میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے آپریشن کرنے والے سکواڈ میں چوتھا ہیلی کاپٹر بھی داخل کر دیا۔ تربیلا کے مقام پر ایک سے زیادہ امریکی ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کسی ہیلی کاپٹر کو زور تصور سے ٹیک آف کرا کے‘آپریشن کرنے والی ٹیم کے سپرد کر دیا گیا ہو۔
کل شام پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے والی پارٹی مسلم لیگ (ق) کے وزرا کابینہ میں شامل ہو گئے۔ بیشتر تبصرہ نگار اس اتحاد پر ہی سیخ پا ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ردعمل تو قابل فہم ہے۔ لیکن مبصرین اور دانشور اتحاد بنانے والوں کی باتوں پر کان دھرے بغیر یہ ثابت کرنے پر لگے ہیں کہ یہ گٹھ جوڑ‘ محض بجٹ پاس کرانے کی خاطر کیا گیا ہے۔ کچھ حضرات اسے سینٹ کے آئندہ الیکشن سے بھی جوڑ رہے ہیں اور بعض دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سارا کھیل چودھری مونس الٰہی کو بچانے کے لئے رچایا جا رہا ہے۔ انہیں ہرگز اس حقیقت میں دلچسپی نہیں کہ مونس کا کیس عدالت میں جا چکا ہے اور موجودہ عدلیہ میں اگر صدر زرداری کا کوئی بس چلتا تو وہ خود اپنے کیس ختم کرا لیتے۔ اپنے ایک وفاقی وزیر کی ضمانت ہی کرا لیتے جو ابھی تک جیل میں پڑے ہیں۔ چودھری برادران آسمانوں سے تو اترے نہیں‘ جو وہ آصف زرداری کی مدد پر بھروسہ کرکے مونس الٰہی کی رہائی کی توقع کرتے۔ مونس الٰہی کا کیس عدالت میں جا چکا ہے۔ اب وہ قانونی تقاضے پورے کر کے ہی رہا ہو سکتے ہیں۔ اس موضوع پر کالم تو بعد میں لکھوں گا‘ آج صرف یہ عرض کر دوں کہ مذکورہ اتحاد محض بجٹ اور سینٹ کے الیکشن کے لئے نہیں ہوا۔ یہ کم از کم سات سالوں کے لئے کیا گیا ہے۔ جس میں بلدیاتی‘ صوبائی‘ قومی اور سینٹ کے کئی انتخابات آئیں گے‘ جو دونوں جماعتوں کو مل کے لڑنا ہیں۔ایک مبصر نے پیش گوئی کی ہے کہ اتحاد کرنے والے دونوں لیڈر ایک دوسرے کو دھوکہ دے دیں گے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دھوکہ دینے کے بعد کریں گے کیا؟ ظاہر ہے وہی کچھ کریں گے‘ جو اتحاد سے پہلے کر رہے تھے۔ فرق کیا پڑے گا؟

تازہ ترین