• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں وطن عزیز میں بددلی، بے یقینی اور مایوسی کی فضا دھند سے کہیں زیادہ چھائی ہوئی ہے۔ ہر دوسرا شخص یہ پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ یہ لوگ شریف آدمی کو اگلے انتخابات میں آنے دیں گے بھی یا نہیں؟ جب نظریں اٹھا کر الٹا سوال داغا جاتا ہے کہ ’’کون لوگ؟‘‘ تو ایک نوع کی پریشانی درمیان میں آجاتی ہے ’’جی یہ نادیدہ قوتیں‘‘ ’’وہی جو اصل حکمران ہیں‘‘ ’’ملک کے اصلی مالک‘‘۔ کئی کھسیانی بلیاں رازدارانہ اسلوب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ دیکھیں جی ہمیں اداروں کو خواہ مخواہ ملوث نہیں کرنا چاہیے اداروں کا تو کسی معاملے میں کوئی رول ہی نہیں ہے۔ یہ تو سیاستدانوں کی اپنی کرپشن ہے جو سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ یہ تو ملک کی اعلیٰ عدالتیں ہیں جو لوٹ مار کے خلاف کھل کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ جب یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ ’’احتساب کا دائرہ اتنا تنگ کیوں ہے؟ ہر دو مقدس اداروں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ تو جواب ملتا ہے جی ہاں شامل تو سب کو کیا جانا چاہیے اصولی طور پر آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن چلیں یہ بھی غنیمت ہے کہ اس ملک میں کسی کا احتساب تو ہو رہا ہے۔ پہلا موقع ہے کہ بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ پھر بحث چھڑ جاتی ہے کہ جن بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے ان بڑے مظلوموں کا احتساب تو پچھلے 70برسوں سے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا جا رہا ہے آخر تمام برائیاں سیاستدانوں میں ہی کیوں گردانی جاتی ہیں؟ کب وقت آئے گا جب سب کا احتساب ہو گا؟
اس کے بعد بات احتساب سے انتخابات کی طرف چلی جاتی ہے یہ بتائیں کہ کیا انتخابات وقت پر ہو پائیں گے؟ کیا سینیٹ میں حلقوں کے حوالے سے حکومت اور پی پی میں مطلوبہ سمجھوتہ ہو جائے گا؟ سیاسی دانش کا جعلی دعویدار اس کی کیا قیمت وصول کرنا چاہتا ہے؟ وہ اپنے سینیٹرز کو جب یہ کہتا ہے کہ آپ لوگ اجلاس میں مت جایئے گا تو اس کی اصل چال کیا ہوتی ہے؟ اینٹ سے اینٹ بجانے والے نے کیا واقعی بھٹے پر نوکری تلاش کر لی ہے؟
بے لگام گھوڑے کو محض ہنہنانے کے لیے رکھا جائے گا اصل کاٹھی تو آپ پر ڈالی جائے گی کیونکہ آپ کبھی کبھار ہنہنانے کا شوق فرمانے کے باوجود ہمیشہ اصیل نسلی گھوڑا ثابت ہوئے ہیں۔ اتنی جانی قربانیوں اور مالی وصولیوں کے باوجود آپ کتنے حوصلے والے ہیں کہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے راستے کی اُس طرح دیوار نہیں بنے جس طرح یہ منتقم مزاج خود کو پاپولر لیڈر سمجھنے والا بار بار بنتا ہے، منہ کی کھاتا ہے، گرتا ہے مگر اپنی عادت سے مجبور ہے باز پھر بھی نہیں آتا پاؤں میں بیٹھے ہوئے بھی جونہی موقع ملتا ہے گریبان کو پکڑنے تک پہنچ جاتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اس کے خلاف جعلی دانا کھڑا کیا جائےجو باتوں کی حد تک خواہ اینٹوں کا ذکر بھی کر جاتا ہے لیکن اصل موضوعات پر ہمیشہ ہم سے تعاون کرنے پر تلا رہتا ہے، دفاعی ہو یا خارجی کسی بھی پالیسی سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہے صرف دہاڑی لگانا اس کا منشور ہے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے خلاف وقتاً فوقتاً وہ ویسا ہی اظہارِ خیال کرتا رہتا ہے جو ہم ہمیشہ سیاسی لوگوں سے سننا چاہتے ہیں یہ جیسا بھی ہے اس نام نہاد شریف جیسا وطن دشمن یا سیکورٹی رسک تو نہیں ہے۔
پھر عقل کی بات ہے کہ سارے انڈے ایک ہی مرغی کے نیچے نہیں رکھ دینے چاہئیں ویسے بھی بٹا ہوا مینڈیٹ ہی بہتر ہے تاکہ کوئی بھی آنکھیں اونچی کرنے کی پوزیشن میں نہ آسکے۔ تو پھر کیا منصوبے ہیں؟ منصوبے یہ ہیں کہ اس بھولے بھالے شریف کو جس عوامی مینڈیٹ کا زعم ہے اُسے توڑ کے دکھا دینا ہے اگر یہ اپنے بھائی پر بھی اعتماد نہیں کر سکتا تو پھر یہ جان لے گا کہ پورے ٹبر کے ساتھ اڈیالہ میں کیسے چکی پیسنی پڑتی ہے جلد اس کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اپنی نااہلی، کرپشن کے نہ ختم ہونے والے مقدمات اور فیض آباد دھرنے کے بعد اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں اب پیر سیالوی کے ذریعے اس کا سادہ لوح بریلوی ووٹ بُری طرح ٹوٹے گا، استعفے آنے شروع تو ہو گئے ہیں نا۔ نجفی رپورٹ بھی آچکی ہے علامہ حضور کا دھرنا ان شاء اللہ تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دے گا کیونکہ اس کی منصوبہ بندی بڑی حکمت اور سوچ بچار سے تیار کی گئی ہے۔ چھوٹے چھوٹے تمام مذہبی گروہوں کو ہی اس میں شامل نہیں کریں گے بلکہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں بھی اس کے دوش بدوش کھڑی ہوں گی۔ پنڈی اور گجرات والے تو پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں اب کی بار مارچ سے پہلے مارچ ہوتا سب لوگ دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد تو انتخابات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ لوگ انتخاب کا ذکر کرنا ہی بھول جائیں گے۔ ایک ہی نعرہ ہو گا احتساب، بے رحم احتساب ہر وہ شخص جو اندر سے ہمارے ساتھ نہیں ہوگا اس احتسابی کرین کے نیچے کچلا جائے گا۔ عبوری حکومت اتنے دورانیے کی ہو گی کہ اس کے بعد لازماً مثبت نتائج والے ویسے ہی انتخابات ہو سکیں گے جیسے ضیاء الحق نے کروائے تھے اور من مرضی کی حکومتیں لائے تھے۔
لیکن کیا اب کی بار کہیں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ تمام تدابیر الٹی ہو جائیں۔ لوگ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو دیکھتے ہوئے شریف اور معصوم چہرے کے ساتھ اُسے مخلص لیڈر خیال کرنے لگیں یوں اسے مزاحمتی جمہوری لیڈر خیال کرتے ہوئے اس کے ساتھ اس قدر جڑ جائیں کہ وہ سینیٹ میں اکثریت کے علاوہ نیشنل اسمبلی میں بھی دوتہائی سیٹیں جیتنے تک پہنچ جائے اس کے بعد کی خیر نہیں وہ آئین میں ایسی ایسی ترامیم کر گزرے گا جس سے طاقتوروں کو بھی آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ بس یہ سوچیں ہیں جو مایوسی کی اس دھند میں بجلی کی چمک بن کر سامنے آتی ہیں۔ کیا یہ حقائق سے دور محض کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے؟ تعبیر ہو نہ ہو کسی کے سہانے سپنوں پر تو پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ خواب حقیقتوں میں بدل سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے عوام کا فکری و معاشی لیول کم از کم کسی کمزور مغربی جمہوریت جیسا ہی ہو جائے۔ اصل رونا ہی تو اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس سطح تک آ جائیں کہ ہمارے عوام اقتدارِ اعلیٰ کے حقیقی مالک و وارث بن جائیں۔

تازہ ترین