• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ، سیاست اور حکمرانوں کی ’’بے توقیری‘‘ کے بعد ملک میں صرف دو قومی ادارے بچے ہیں جن کا وقار محفوظ ہے اور لوگ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اول فوج، دوم عدلیہ۔ اب یہ دونوں ادارے انتقام اور سیاست کی بھینٹ چڑھتے نظر آتے ہیں اور اگر موجودہ انتقامی سیاست کارخ نہ موڑا گیا تو ہماری آنکھوں کے سامنے یہ دو قومی ادارے بھی اپنا وقار کھو بیٹھیں گے جس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں اور رئوسا کو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ہمیشہ بلند فضائوں میں اُڑتے رہتے ہیں۔ ان کے مقامات ِ’’آہ و فغاں‘‘ بھی بہت سے ہوتے ہیں اور ان کے اصل ٹھکانے بھی بیرون ملک خوبصورت مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ فرق پڑتا ہے تو عوام کو، جن کی قلبی تسکین اور قوم و ملک پر اعتماد بلکہ ملک کےروشن مستقبل پر ایمان کے سوتے قومی اداروں کے اعلیٰ وقار سے پھوٹتے ہیں۔ آپ اس قوم کی بے بسی، ذہنی پریشانی، مایوسی اور ملک کے حوالے سے بے یقینی کا اندازہ نہیں کرسکتے جس قوم کے قومی ادارے بے وقار ہوجائیں، اپنااعتماد کھو بیٹھیں اور عوام کے لئے کوئی نشانات منزل ہی باقی نہ رہیں۔ خواص کی محفلوں کی رونق بڑھانے والے بالائی طبقوں کی رعونت اور سطحی سوچ سے مستفید ہونے والے اور اپنی ذات کے گنبد میں گم رہنے والے نہ کبھی عوام سے ملتے ہیں، نہ ان کی رسائی عوامی سوچ تک ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں علم ہے کہ غربت، بے کاری، جہالت اور دوسری سہولیات کی کمی کے باوجود عام پاکستانی اپنے ان دو قومی اداروں کی عظمت اور وقار کی وجہ سے قدرے مطمئن رہتا ہے اور اس کا ملک کے مستقبل پر یقین ڈانواں ڈول نہیں ہوتا۔ میں دیہات میںجاتا ہوں، گردش ایام کےدوران ہر قسم کے اور ہر طبقے کے لوگوں سے پالا پڑتا ہے، اس لئے مجھے ان کے جذبات اور خیالات کا بھی کچھ اندازہ ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے طلبا کے کچھ حلقوں میں جانے کاموقع ملا تو ان کی گفتگو سے علم ہوا کہ عالمی سیاست کے تناظر اور ملک کو درپیش بے پناہ خطرات کے باوجود نوجوان قومی حوالے سے ذرا بھی فکرمند یا پست حوصلگی کا شکار نہیں۔ طلبہ کی اس محفل میں امریکہ، بھارت کے عزائم اور افغانستا ن کے حوالے سے پاکستان کو درپیش خطرات اور عالم اسلام کی اندرونی کشیدگی زیربحث تھی۔ امریکی دھمکی، اسٹریٹجک اسٹرائکس کے خطرات، بھارت کی سازشیں اور دہشت گردی کی مالی امداد اور اسلحے کے ذریعے حوصلہ افزائی کا ذکر ہوا تو نوجوانوں کو ان خطرات کی کچھ پرواہ نہ تھی کیونکہ انہیں اپنی فوج کی اہلیت پر اندھا یقین تھا۔ ان کے باطنی اطمینان کی وجہ ایک ہی تھی کہ ہماری عسکری قوت ان تمام چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک شہری بھی جب صدر ٹرمپ کی دھمکیاں سنتا ہے تو اس احساس کے باوجود کہ امریکہ ایک اندھا ہاتھی ہے، جو جسے چاہے کچل سکتا ہے ،انہیں معمولی تشویش بھی نہیں ہوتی کیونکہ انہیں اپنی فوج کی قوت پر حد درجہ یقین ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باوجودقوم کے حوصلے پست نہیں ہوتے کیونکہ انہیں ضرب ِ عضب سے لے کر ردالفساد تک ہر کارروائی کی کامیابی کا یقین ہے اور اس تیقن میں ہمارے سپاہیوں اور جواں سال فوجی افسران کی ہر روز شہادتیں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ یقین کیجئے میں دیہات میں نیم خواندہ اور عام لوگوں سے ملتا ہو تو ان سے گفتگو کرکے احساس ہوتا ہے کہ یہ لوگ حکمرانوں، سیاستدانوں یا دانشوروں کی وجہ سے ملک کے مستقبل پر اندھا یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کو اگر قومی اتحاد اور ملکی استحکام پر یقین ہے تو وہ فوج کی وجہ سے ہے۔ انہیں اگر امریکہ اور بھارت سے ڈر نہیں لگتا تو صرف اپنی عسکری قوت کی وجہ سے۔کیا ہم ایسے اہم اور عوامی نگاہ میںمقدس ادارے کو بے توقیر کرنا افورڈ کرسکتے ہیں؟ بلاشبہ لوگ انصاف سے مایوس، عدالتی نظام سے شکستہ دل اور حصول انصاف میں تاخیر سے بیزار ہیں لیکن کچھ عرصے سے اعلیٰ عدلیہ کے دلیرانہ فیصلوں سے عوام کو امید کی روشنی دکھائی دینے لگی ہے۔ میڈیا کے طفیل ہر خبر بہت جلد ہر شہری تک پہنچ جاتی ہے۔ کوڑے کے انبار سے روزی کمانے والے سے لے کر کھیتوں میں ہل چلانے والے تک ماضی کی نسبت زیادہ باخبر ہوچکے ہیں۔ ان میں تیزی سے یہ احساس ابھرا ہے کہ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور بااثر طبقوں نے ملک کو لوٹا ہے۔ انہیں بے پناہ کرپشن کا بھی احساس ہے۔ ایک عام شہری اور خاص طور پر دیہاتی کو تھانے، تحصیل اور پٹواری سے پالا پڑتا ہے۔ اگرچہ وہ نظام کے ہاتھوں بے بس ہیں لیکن وہ بلاخوف کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران رشوت ستانی اس قدر بڑھی ہے کہ کوئی جائز سے جائز کام بھی رشوت دیئے بغیر نہیں ہوتا۔ جوں جوں مہنگائی بڑھتی ہے انتظامیہ کی رشوت کے ریٹ میں بھی اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ صوبائی سیکرٹریٹ سے لے کر ضلع، تحصیل اور تھانے کی سطح تک کوئی کام مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہوتا۔ ہوشیار سرکاری اہل کار رشوت لیتے ہوئے ’’اعلان‘‘ کرتے ہیں کہ انہیں اوپر تک ’’منتھلی‘‘ پہنچانی ہے۔ دوسری طرف عدالتوں میں جائیں تو ایک نسل انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو دوسری نسل عدالتی فیصلہ سنتی ہے۔ نچلی عدلیہ نہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ نے اپنی آزادی (INDEPENDENCE) کا پیغام دے کر عام شہریوں کی نگاہوں میں عزت کمائی ہے اور انہیں امید دلائی ہے کہ عدلیہ کرپشن، لوٹ مار اور قومی دولت کی بیرون ملک منتقلی کا احتساب کرے گی اور اس کاراستہ روکے گی۔ گویا عام شہری انتظامیہ کی کرپشن، بے حسی اور بددیانتی سے بیزار ہے، بے انصافی کے ازالے یا انصاف کے حصول کے لئے عدالت میں جانےسے پرہیزکرتا ہے۔ اکثر و بیشتر سیاستدان اور سیاسی ادارے بمعہ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں عام شہری کی نگاہ میں اعتبارکھو بیٹھی ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ ادارے صرف بالائی طبقوں کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں،انہیں عام شہری سے ووٹ لینے کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں۔ اس کے برعکس عام شہری کو اپنی فوج پر فخر اور اندھا یقین ہے۔ وہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کو ناپسند کرتا ہے لیکن موجودہ جمہوریت سے بھی شاکی ہے۔ اسے لوئر عدلیہ سے مایوسی اور ہائر عدلیہ سے خوشگوار امیدیں ہیں۔ کسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر قابل غور بات اتنی سی ہے کہ پاکستانی عوام کے اعتماد اور قومی و ملکی مستقبل پر یقین کے سوتے صرف ان دو قومی اداروں سے پھوٹتے ہیں جنہیں ہم انتقام اور سیاست کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ حکمران، سیاستدان اور میڈیا کی جانب سے ان دونو ںپرپتھر برسائے جاتے ہیں اور تجزیات کی آڑ میں بدگمانی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ تجزیات کیا ہیں محض اندازے اورٹامک ٹوئیاں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب عدلیہ کےخلاف تحریک چلانے کی صدا بھی سنائی دے رہی ہے اور فوج بھی لامحالہ اس کی لپیٹ میں آئےگی۔ ذرا رک کر اور ٹھنڈےدل و دماغ سے سوچئے کیا ایسی تحریک ملکی و قومی مفاد میں ہے؟ ان کے وقار اور اعتماد میں نقب لگا کر بالآخر آپ کو ملے گا کیا؟ صرف ذاتی انا کی تسکین؟؟ کیاآپ اپنی مجروح انا کو قومی مفاد پر قربان نہیں کرسکتے؟؟

تازہ ترین