• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چمن تک آگئی دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے...طلوع … ارشاد احمد عارف

پارلیمینٹ ہاؤس کے ملازمین ، ریکارڈنگ کے ذمہ داراہلکاروں اورکلاسیفائیڈ ریکارڈکی حفاظت پر مامور عملے سے بازپرس ضروری ہے، ہو رہی ہوگی، ہو بھی جائے گی کہ معاملہ سنگین ہے۔ اگر فوج کی نگرانی میں پارلیمینٹ کااِن کیمرہ سیشن محفوظ نہیں، قوم کو تاحال کچھ معلوم نہیں مگر امریکیوں کو اجلاس کی تمام تفصیلات ازبر ہیں، کس نے کیاکہا اور کس بات کا کیا جواب ملا؟ حرکات و سکنات تک معلوم، تو اس کا مطلب ہے کہ ہماراکوئی راز، راز نہیں اور بند کمرے کے اجلاسوں کا کوئی فائدہ نہیں، اس سے بہتر ٹی وی چینلز کے ٹاک شوہیں جن سے کم از کم قوم کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا ہے۔
ایبٹ آباد سانحہ کے بعد پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس اس لئے بلایا گیا تھا کہ منتخب عوامی نمائندوں کو دفاع اور سلامتی کی اصل صورتحال کا علم ہو ، وہ قومی جذبات و احساسات اور ملکی معاملات کی روشنی میں کوئی حل تلاش کریں اور قوم جس دلدل میں پھنس چکی ہے اس سے نکلنے کی کوئی آبرومندانہ تدبیر کی جائے مگر اجلاس میں جو قرار داد منظورہوئی اس کی کسی ایک شق پر عمل نہیں ہوا۔ ٓآج تک کمیشن نہ بن سکا جو بنا وہ مذاق تھا۔ وہ غنچہ جو بن کھلے مرجھاگیا، نیت اور ارادہ نہ ہو تو ہر قدم؟ آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی۔
امریکی عہدیداروں نے اسلام آباد آ کروہ باتیں بتائیں جوبند کمرہ اجلاس میں ہوئی تھیں اور پاکستان کا غیرمعمولی طور پر فعال اور تیز طرار میڈیا معلوم نہیں کرسکا تھا مگر اب پچھاوت کیا ہووت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت، لگتا ہے بند کمرہ اجلاس صرف امریکیو ں کی معلومات میں اضافے کی غرض سے منعقد کیا گیا اوروہی اس سے استفادہ کرسکے لیکن ضروری نہیں کہ یہ حرکت نچلے عملے نے کی ہو۔ امریکہ امداد کے پردے میں عرصہ ٴ دراز سے پاکستان کے مختلف اداروں اور افراد میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہاہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں وزیر خزانہ محمد شعیب پر شک کیا جاتا تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاسوں کی کارروائی کے دوران امریکی موقف کی وکالت اور اہم راز افشاکرتے ہیں، ان کے مدمقابل وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے دوران امریکی وزیر خارجہ کو پیشکش کہ کہ وہ خروشچیف اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتوں میں حاصل ہونے والی معلومات سے انہیں آگاہ کرسکتے ہیں۔ گوہر ایوب خان نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ جب فیلڈ مارشل نے اپنے وزیرخارجہ سے پوچھا تو جواب تھا ”امریکی ہمارے اتحادی ہیں آخر انہیں خوش کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟“
وکی لیکس نے اب کوئی راز، راز نہیں رہنے دیا کہ کس طرح ہمارے حکمران، سیاستدان اور فوجی و مذہبی رہنما امریکی سفیر سے ہرمعاملہ ڈسکس کرتے اور اپنی وفاداری ، امریکی نوازی کا یقین دلاتے ہیں۔
ان کے سامنے کوئی گوری چمڑی والاخاکروب آ جائے تو قابو میں نہیں رہتے۔ امریکی سفیر، قونصل جنرل اور ڈیفنس اتاشی کے روبرو ہوش و حواس برقرار رکھنا آسان نہیں سو ایک تو یہ پہلو نظرانداز نہ کیا جائے۔ امریکی سفارتخانہ اور فضاؤں میں موجود سیٹلائٹ جاسوسی کے کن جدید ترین آڈیو، ویڈیو آلات سے لیس ہے اورکہاں تک رسائی کے قابل، اس کا علم بھی ہمارے حساس اداروں کو ہونا چاہئے۔ خود پارلیمینٹ ہاؤس کاریکارڈنگ سسٹم کس قدر محفوظ ہے؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ اسے یو ایس ایڈ کے تعاون سے نصب کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کسی نے جوش وفاداری میں اپنے موبائل فون کا ریکارڈ کیمرون منٹرکے حضور پیش کر دی ہو کہ مائی باپ اپنے پرائے میں تمیز ضرور روا رکھیں۔
یو ایس ایڈ نے اکیس (21)ملین ڈالر مالیت کا منصوبہ ترتیب دے کر گورننس اینڈ ڈویلپمنٹ کی فیلڈ میں کام کرنے والے نجی اداروں کا تعاون طلب کیا ہے۔ موروثی اور خاندانی قیادت کی خوگر جماعتوں میں جمہوری اقدار و روایات کا فروغ پاکستانی عوام کی خواہش ہے لیکن یو ایس ایڈ کم و بیش 2 ارب روپے کی یہ سرمایہ کاری کس مقصد کے لئے کر رہی ہے اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کا احساس شاید کسی کو نہیں؟ ابھی تک کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کسی قسم کا منفی ردعمل سامنے نہیں آیا حالانکہ آغاز کار ہوچکا۔
اونٹ کو خیمے میں داخل کرنے سے قبل تو سوچا نہیں گیا، اس وقت سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے دل و دماغ کو ڈالروں کی ریل پیل اورچمک دمک نے ماؤف کر دیا تھا، کسی کو یہ ہوش ہی نہ رہا کہ ڈالراکیلے نہیں آئیں گے امریکہ سے وفاداری، معلومات تک رسائی اور ضمیر فروشی کا کلچر بھی ساتھ لائیں گے۔ یہ جو ہمارے سرکاری افسروں، منتخب عوامی نمائندوں اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو شبینہ محفلوں میں بلا کر تھپکی دی جاتی ہے، انہیں غیرملکی دورے کرائے جاتے ہیں اورترقی درجات کی ضمانتیں فراہم کی جاتی ہیں بے سبب تو نہیں، امریکی کسی کو ایک پیالی چائے مفت نہیں پلاتے کروڑوں ڈالروں کی سرمایہ کاری بلاوجہ کر رہے ہیں؟ اتنے احمق تو نہیں جب کسی نے اعتراض کیا تو سازشی تھیوری قرار دے کر رد کردیاگیا لیکن اب ؟ بدو خیمے کے باہر کھڑا احمقانہ انداز میں سو چ رہا ہے کہ اونٹ کو وہ بھی معلوم ہے جسے قوم سے چھپانے کے لئے اتنے جتن کئے گئے؟ کیا خبر اسے اور کیا کیامعلوم ہے؟
تازہ ترین