• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے بابے اوربابوئوں کا موضوع چھڑا ہے اس پر کئی ایک کالم پڑھے ۔اس بابت صحافی برادری کے ورسٹائل سہیل وڑائچ صاحب کا کالم ’’ الٹے ہور زمانے آئے‘‘ایک ایسا تجزیہ تھا جس کا آہنگ توتمثیلی تھا مگر وہ معروضیت اور غیر جانبداری کے صحافتی اصولوں سے مزین تھا ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بابے وڈے اور سچے لوگ ہوتے ہیں جبکہ دعویداروں نے بابو کا کردار نبھایا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ معاشرے میں سچائی ،اصول پسندی اور ایمانداری دیومالائی خصوصیات کی شکل اختیار کرکے اعلیٰ اقدار قرار پاچکی ہیں۔ یہ بنیادی انسانی خصوصیات عوام سے لے کر قائدین تک ناپید ہیںلیکن پھر بھی ہمارا اصرار ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ،پائندہ قوم ہیں۔سچے اور وڈے بابوں کا ذکر کریں تو باباگورونانک ،بابا فرید،رحمان بابااور بابابلھے شاہ کے کردار ہمارے معاشرے کے سنہری اصول قرار پائے تھے۔کیاسچے اور وڈے بابوں کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ہم بڑے بابوں جیسی نعمت سے مالامال ہیں ؟ اس حقیقت کا کھوج لگانے سے قبل وڈے بابوں کے عمل کی بات کرلیتے ہیں۔ بابابلھے شاہ نے کہاتھاکہ۔۔جس ٹھانے دامان کریں توں ،اوہنے تیرے نال نہ جانا۔۔ظلم کریں تے لوک ستاویں ،کسب پھڑیو لٹ کھانا۔۔اس کافی میں بلھے شاہ نے سرکاری اہلکاروں اور اثر ورسوخ یا فتہ طبقات کی طرف سے عوامی حقوق غضب کرنے والوں کے خلاف احتجاجی آواز بلند کرتے ہوئے کہاتھاکہ تکبر مت کرو،ظلم کرتے اور لوگوں کوستاتے ہواورتم نے لوٹ کھسوٹ کو پیشہ بنارکھاہے ،یاد رکھو یہ سب کچھ تمہارے ساتھ نہیں جائیگا۔بابوں اور بابوئوں کے کردار کی بات کریں تو یہ بنیادی اصول طے پاتا ہے کہ بابے اصول ،آئین اور قانون پسند ہوتے ہیں جبکہ بابوان اصولوں سے بے بہرہ رہتے ہیں۔
نوازشریف نے 2018کے لئے وزیر اعظم کے طور پر شہبازشریف کا نام تجویز کیاہے۔ نوازشریف کاستارہ ایک عرصہ سے گردش میں ہے نااہل ہونے کی وجہ سے وہ آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ان کی دخترمریم نواز کو بھی مقدمات کا سامنا ہے اور یہ تاثر بھی بھرپور انداز سے پایاجاتا ہے کہ نوازکی بجائے شہباز اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہیں لہٰذا شہبازشریف کو قبل از وقت وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے لانا ایک Smart Move ہے جس سے بلائیں قدرے ٹل جائیںگی،مسائل کم ہوںگے ۔ بھارتی فلم ’’ددھاتا‘‘ میں پدمنی کولہاپوری سے بھی ڈائریکٹر سبھاش گھئی نے ایسا ہی ایک اسمارٹ موو کروایا تھا جس کا کوڈ ( اُڑی بابا) تھا ۔ مذکورہ فلم میں دلیپ کمارنے انڈر ورلڈ بابا یعنی گاڈفادر کا کردارنبھایاتھااور ہیروئن پدمنی کولہاپوری اپنے باپ کے قاتلوں کو تلاش کرنے کے لئے کبیرے ڈانسر کے روپ میں ڈانس کرتے ہوئے جو گیت گاتی ہے اس کی استھائی میں (اڑی بابا) جیسی ترکیب نمایاں رہتی ہے۔ودھاتا کے ہیرو سنجے دت بھی بابا ہی کہلاتے ہیں وہ بھارت کی ورسٹائل اداکارہ نرگس اور سنیل دت کے بیٹے ہیں اور بالی وڈ میں سنجو بابا کے نام سے مشہور ہیں۔سنجے دت اپنے آنجہانی والدین کے لاڈلے بابا ہوا کرتے تھے لیکن ہماری سیاست میں بابالاڈلے پائے جاتے ہیں۔بابالاڈلا کراچی لیاری گینگ وار کا ایک ایسا کردار تھا جو 70سے زائد وارداتوں میں ملوث تھا اور رینجرز کے ہاتھوں مقابلے میں مارا گیا تھا۔سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان کی اہلیت کے مقدمہ سے متعلق فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کپتان کو سیاسی لاڈلا قراردیاگیا۔ ثقافتی اور معاشرتی طور پر انوکھا لاڈلا کے ساتھ ساتھ سنیاسی بابا، نجومی بابا اور جوگی بابا معروف بابے ہیں۔رانجھا جوگی کا روپ دھار کر ہیر سے ملنے اس کے گائوں پہنچا تو اس موقع پر ہیر کی چالاک نند سہتی نے اس پر شک کرتے ہوئے کہاتھاکہ ۔۔سنی جوگیاں لنجڑا چہنیاں وے ٗتے بے شرم کپتیاموٹیا وے۔۔دھرنا مار بیٹھائیں وچ کواریاں دے ٗ کسے ویہلڑی بار دیا جھوٹیا وے ( ارے بے شرم چھوٹی آنکھ کے موٹے جسم والے بدمعاش انسان تم کنواری لڑکیوں میں دھرنا مار کر اس طرح بیٹھ گئے ہو جیسے اجاڑ جنگل میں بھینسا ہوتاہے) اس واقعہ سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ دھرنے کی تکنیک صرف استعفوں کیلئے ہی نہیں رانجھے نے ہیر کے حصول کے لئے بھی آزمائی تھی ۔رومانوی کہانیوں کے بابے اوردھرنے نرالے ہوتے ہیں ۔بھارتی فلم بوبی کی ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ نے ڈرتے ہوئے کہاتھاکہ ۔۔بابامجھے ڈر لگتاہے۔۔ڈمپل ڈرتی ہوئی اتنی حسین، رنگین اورنمکین دکھائی دی تھیں کہ سب کا ڈرنے کو دل کرتاتھا۔نون لیگ کی طرف سے ایڈوانس پرائم منسٹر یا قبل از وقت وزیر اعظم شہبازشریف علی بابا اور چالیس چوروںکاتذکرہ کیاکرتے تھے ۔انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ علی بابا ،چالیس چوروں کے ساتھی نہیں بلکہ ان کی اپوزیشن تھے۔سیاسی کہانیوں اور ڈراموں کے کرداروں کی طرح تھیٹر کا ایک کھیل ’’باباڈانگ‘‘ معروف ہے جس میں برادرم سہیل احمد اور جواد وسیم نے یاد گار پرفارمنس دی تھی۔ناہید خانم کےا سٹیج ڈرامہ ’’سن باباسن‘‘ سے میرا جگری دوست ببوبرال لائم لائٹ میں آگیا تھا۔ پنجابی مزاحمتی شاعری کے حوالے سے ہمارے ایک بابے نجمی کا مجسمہ بھارت میں آویزاں کیاجاچکا ہے۔فرانسیسی ادب میں ڈھائی صدیاں قبل لکھی گئی بچوں کی نظم Baa Baa Black Sheep آج تک پڑھائی جارہی ہے ۔اس نظم میں اگرچہ بابا سے مراد بزرگ یا استاد کے ہیں لیکن Black sheepکو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی کالی بھیڑیں ہی سمجھاجاتاہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ کالی بھیڑیں ہر شعبے میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ کالی بھیڑوں کے ریوڑ میں ہمیں چند ڈھب کھڑبی اورمعدود ے چندچٹی بھڑیں نصیب ہوئی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔گزشتہ چاردہائیوں میں قومی افق پر ابھرنے والے جملہ انواع واقسام کے بابوں اور ان کے کردارکا براہ راست مشاہدہ کریں۔یہاں جمہوری بابوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ایسے بابوں کو کٹہرے میں بھی نہ لایاجاسکا جنہوں نے آئین کو محض کاغذکاایک ٹکڑا قراردیا۔بابوں کو ایئرپورٹ سے جلاوطن کیاگیااور لاڈلے بابوں سے میڈیکل سرٹیفکیٹ لے کر انہیں پتلی گلی سے نکل جانے دیاگیا۔ایسے سنہری قانونی اور آئینی مواقع مہیاکرنے والے بابے یہ توقع کررہے ہیں کہ انکا پروٹوکول بھی ویسا ہو جیسا اصلی اور وڈے بابوں سے منسوب ہے ۔۔بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں۔۔گور پیا کوئی ہور( بلھے شاہ ہم مرے نہیں قبر میں کوئی اور لیٹا ہے) بابوں نے وضاحت کی کہ وہ کسی پلان کاحصہ نہیں۔بابے وضاحتیں نہیں دیتے عمل کرتے ہیں۔دوسرے بابوں نے کہا ہے کہ اگر دھرنوں میں ان کی پشت پناہی ثابت ہوجائے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ بابوں نے یہ بھی یقین دلایاکہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں، انہوں نے واضح کیاکہ ٹی وی پر نمودار ہونے والے ترجمان بابے ان کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ترجمان بابوں والی وضاحت خیر کی خبر ہے وگرنہ بعض بابے یہ تاثر دینے میں مصروف رہتے ہیںکہ وہ آستانہ پنڈی کے گدی نشین ہیں۔بابوں نے بابوں سے کہاہے کہ وہ داخلی اور خارجہ پالیسیاں مرتب کریںوہ ان پر عمل کریں گے۔ گینداب جمہوری بابوں کی کورٹ میں ہے ۔
انہیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔عوام یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ مقننہ ذمہ داری قبول نہیں کرے گی تو بابوں(بابارحمت) کو آگے آنا پڑے گا۔بابوں کو اپنا ،اپنا کام کرنا چاہیے،انہیں اپنا احتساب خود کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش بھی کرنا ہوگا۔بابے بلھے شاہ نے یہ کام اسطرح کیاتھا۔۔میری بُکل دے وچ چور۔۔نی میری بُکل دے وچ چور۔۔ایہوتسی وی آکھوسارے،آپ گڈی(پتنگ)آپ ڈور۔۔میں دسناںتسی پکڑ لیاو،بلھے شاہ دا چور.

تازہ ترین