• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف سے کوئی نہیں پوچھ رہا، غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیا، مطلب غلط نکالا گیا، سعد رفیق

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما اوروفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیا ،مطلب غلط نکالا گیا،پرویزمشرف سپاہ سالاررہےہیں ان کی زیادہ ذمے داری ہے،پرویزمشرف نےقابل اعتراض بیان دیا،ان سے کسی نے پوچھابھی نہیں،میں نےتومفاہمت کابیانیہ دیا،جوہورہا ہےاس پرافسوس ہی کرسکتا ہوں، جو مطلب نکال رہا ہے، وہ بھی غلطی پر ہو سکتاہے، پرویز مشرف نےقابل اعتراض بیان دیا،میں نےکوئی غیر ذمےدارانہ بیان نہیں دیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنے بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ردعمل پر صدمہ ہوا ہے، میرا مقصد واضح اور بہت سے لوگوں کو معلوم ہے، میرا مقصد ہے کہ پارلیمنٹ، افواج، عدلیہ اور سول بیوروکریسی مل کر آگے بڑھے، میری ستائیس منٹ کی تقریر کو سن لیا جائے تو تمام بات واضح ہوجاتی ہے، میں نے بار بار یہی کہا کہ اگر خدانخواستہ آپس میں محاذ آرائی ہوئی تو ملک کے دشمن فائدہ اٹھائیں گے، ہمیں ایک دوسرے کو معاف کر کے اور سب کچھ بھول کر آگے بڑھنا ہے، میں نے نیک نیتی کے ساتھ یہ ساری باتیں کی ہیں، منفی تاثر پھیلانے والے چند میڈیا چینلز نے میرے ایک دو جملوں کو اٹھا کر بات کا بتنگڑ بنادیا، ٹی وی چینلز کے بنائے ہوئے غلط تاثر پر رائے قائم نہیں کی جانی چاہئے، میں نے ان جملوں میں ایک خواہش کا اظہار کیا، میں نے کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیا، میری نیت نہیں تھی کہ کسی پر اٹیک کروں، اگر کوئی میری بات کا غلط مطلب لے رہا ہے تو جو مطلب نکال رہا ہے وہ بھی غلطی پر ہوسکتا ہے۔خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میں نے لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھی بلکہ فی البدیہہ بات کررہا تھا، میری پوری تقریر کو سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں تو بیانیہ بالکل مختلف ہے، میں نے اپنے بیان کی وضاحت جاری کردی ہے، ایک دو جملوں یا چند الفاظ کی بنیاد پر رائے قائم نہیں کرنی چاہئے، ڈی جی آئی ایس پی آر بہت عمدہ او ر مثبت آدمی ہیں، میرے ارادوں یا مقاصد کا ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی علم ہے، میرے ارادے بہرحال اچھے ہیں میں نے مارشل لائوں کے دور میں بھی ایسا جملہ نہیں بولا جس سے افواج کے اہم ادارے میں تقسیم کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اداروں میں کام کے دوران شکایات پیدا ہوجاتی ہیں ہم سے بھی شکایات ہوتی ہوں گی، ہم اپنی شکایات کا اظہار میڈیا پر نہیں کرتے یا تقریر نہیں کرتے البتہ متعلقہ اتھارٹی تک بات ضرور پہنچادیتے ہیں، بعض اوقات شکایات پیدا ہوتی ہیں تو متعلقہ فورم پر درج کروادیا جاتا ہے جس کا ازالہ بھی ہوجاتا ہے، ہم ذمہ دار لوگ ہیں اور غیرآئینی کام نہیں کرتے ہیں، میرے خاندان نے آئین کے تحفظ کیلئے دو جانیں دی ہیں، میری بات کو کسی تقسیم یا غیرذمہ داری کے تناظر میں نہیں لینا چاہئے۔سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف سپہ سالار رہے ہیں انہیں زیادہ ذمہ دار ہونا چاہئے، پرویز مشرف نے قابل اعتراض بیان دیا لیکن ان سے کسی نے پوچھا بھی نہیں، میں نے مفاہمت کا بیانیہ پیش کیا بلکہ بعض باتیں پالیسی سے ہٹ کر بھی کی ہیں، جو کچھ ہورہا ہے اس پر افسوس ہی کرسکتا ہوں۔ سعد رفیق نے کہا کہ میرے ارادے پر شک نہیں کیا جائے، میرا بیانیہ کسی نے ڈکٹیٹ نہیں کروایا ،میں اس پر مطمئن ہوں ہمیں مل کر آگے بڑھنا او ر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اسے مل جل کر حل کرنا ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پرویز مشرف سمجھتے ہیں ان کے خلاف ثبوت نہیں اور وہ بے قصور ہیں تو انہیں وطن واپس آکر عدالت کا سامنا اور الزامات کو غلط ثابت کرنا چاہئے، سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کو فوج سے ریٹائر ہوئے دس سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ان کے غیرذمہ دارانہ بیانات فوج کیلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں، گزشتہ روز پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو قتل سے متعلق اسی غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ سرکش عناصر ملوث ہوسکتے ہیں، انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ میرے پاس اس حوالے سے اطلاع تو کوئی نہیں ہے مگر ایسا ہوسکتا ہے، پرویز مشرف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ن لیگ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود کچھ عناصر اس کے خلاف کام کررہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب پرویز مشرف کے بیان سے مسائل کھڑے ہوئے ہوں، پرویز مشرف ماضی میں بھی ایسے بیانات دیتے رہے ہیں، گزشتہ دنوں تو انہوں نے لشکر طیبہ کے حوالے سے ایک ایسی بات ایک ایسے وقت میں کردی جبکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان پر دبائو ہے ، امریکا کی طرف سے لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے حوالے سے سخت موقف اپنایا جارہا ہے لیکن پرویز مشرف کہتے ہیں کہ وہ لشکر طیبہ کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں ، وہ لشکر طیبہ کو اورلشکر طیبہ انہیں پسند کرتی ہے، وہ حافظ سعید کو بھی پسند کرتے ہیں اور ان سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ماضی میں پرویز مشرف کے دورمیں حافظ سعید کی تنظیم لشکر طیبہ پر پابندی عائد کی گئی جبکہ جماعۃ الدعوۃ کو واچ لسٹ پر ڈالا گیا تھا مگر اب سابق ہونے کے بعد لشکر طیبہ کی حمایت کررہے ہیں،جنرل پرویز مشرف ماضی میں ایک اور غیرذمہ دارانہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کے ملک سے باہر جانے میں کردار ادا کیا تھا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان میں ایک طبقہ عورت کو کمزوری کی علامت سمجھتا اور اسے کمتر جانتا ہے، یہ کم فہم طبقہ عورت کی تضحیک کر کے خود کو برتر سمجھتا ہے، یہ لوگ اپنی کمزوریوں سے خائف ہوتے ہیں یا ان کی عقل پر گرد آلود پردہ پڑا ہے جو انہیں سوچنے سمجھنے سے روکتا ہے، انہیں عورت کا مضبوط کردار دیکھنے سے روکتا ہے، عورت کی بہادری کی مثالوں سے لاعلم رکھتا ہے، اس کے کام اس کی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے روکے رکھتا ہے، یہ لوگ بہت سادہ ہیں یا اندھیرے میں ہیں تب ہی عورت کی کارکردگی، اس کا حوصلہ، اس کا کردار، اس کی سوچ کی روشنی ان کی آنکھوں پر نہیں پڑتی اور جب پڑتی ہے تو ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، ان کی سوچ ایسی ہے کہ کسی مرد کی توہین کرنی ہو تو اسے عورت سے تشبیہہ دیتے ہیں، لفظ عورت ان کیلئے توہین کی علامت ٹھہرتا ہے، ایسے لوگوں کو ہم برا بھلا کہہ سکتے ہیں کم سمجھ ہونے کا طعنہ دے سکتے ہیں لیکن ایسے شخص کی بات کو کیسے نظرانداز کردیا جائے جو نو سال تک ملک کے اقتدار پر قابض رہا ہو، سابق آرمی چیف ہو، ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہو، اپنے بارے میں روشن خیالی کا دعویٰ بھی کرتا ہو، ایسے شخص سے ایسی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی، گزشتہ روز سابق صدر پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پر تنقید کی، کسی سیاسی شخصیت کا کسی سیاسی رہنما پر تنقید کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن پرویز مشرف نے بلاول کی توہین کرنے کیلئے عورت کا لفظ استعمال کیا، مشرف کہتے ہیں کہ بلاول عورت کی طرح بات کررہے تھے پہلے مرد تو بن جائیں، انہوں نے ایک مرد پر تنقید اور تضحیک کرنے کیلئے عورت کی تضحیک کی، پرویز مشرف کے اس بیان کا بلاول بھٹو نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مشرف جتنا بزدل انسان نہیں دیکھا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف سمجھتے ہیں ان کے خلاف ثبوت نہیں اور وہ بے قصور ہیں تو انہیں وطن واپس آکر عدالت کا سامنا اور الزامات کو غلط ثابت کرنا چاہئے کیونکہ بلاول بھٹو انہیں بار بار بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث قرار دے رہے ہیں، اس الزام کی وجہ سے پرویز مشرف بلاول بھٹو پر تنقید میں ٹھوس بات کرنے کے بجائے تضحیک کرنے کیلئے انہیں عورت سے تشبیہہ دے رہے ہیں، بہادری اور بزدلی کا تعلق جنس سے نہیں ہے، پرویز مشرف صاحب آپ نے بلاول کی نہیں عورت ذات کی توہین کی ہے، آپ نے عورت ذات سے مماثلت کی بات کی ہے تو آپ کو ایسی عورتوں کی مثالیں دیتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ان کا موازنہ کسی مرد سے نہیں کیا جاسکتا، ان کا کردار ، ان کا کام، ان کی ہمت، ان کی بہادری ان کی پہچان بنی ہے، بلاول بھٹو کی والدہ شہید بینظیر بھٹو ایک عورت تھیں، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بنیں، بینظیر وہی عورت تھیں جن سے پرویز مشرف ڈرے بھی اور انہیں عورت ہونے کا طعنہ بھی نہیں دے سکتے تھے، بینظیر بھٹو کسی صورت کمزور انسان نہیں تھیں، پہلے وہ ایک ڈکٹیٹر ضیاء الحق سے لڑیں جو مرد تھا، ڈکٹیٹر ان کے والد کو پھانسی چڑھانے، محترمہ کو قید میں رکھنے، ظلم کرنے اور پھر ملک سے باہر رکھنے پر مجبور ہوا، محترمہ نے نوے کی دہائی میں سیاسی مخالفین اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کیا، عورت ہوتے ہوئے پارٹی کو سنبھالا بھی اور متحد بھی رکھا، پھر جنرل مشرف جیسا ڈکٹیٹر اس عورت کو ملک سے باہر رکھنے پر، پھر این آر او کرنے، پھر مبینہ طور پر دھمکی آمیز فون کال کرنے پر مجبور ہوا، پرویز مشرف طاقتور ہونے کے باوجود اس عورت سے ڈرتا رہا، بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر دہشتگردوں نے حملہ کر کے ڈیڑھ سو لوگوں کو مار ڈالا، محترمہ اس حملے میں بال بال بچیں ان کی جگہ کوئی ہوتا تو ڈر جاتا لیکن محترمہ نہیں ڈریں، عوام میں رہیں اور ستائیس دسمبر کو شہید کردی گئیں، وہ عورت تھیں اور عورتوں کی طرح بات کرتی تھیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ایک اور مثال مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ہے، فاطمہ جناح ایک مضبوط کردار کی عورت تھیں، پاکستان بنانے کی جدوجہد میں قائداعظم کے ساتھ کھڑی رہیں، جب پاکستان میں پہلی بارا ٓمریت آئی تو فوجی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا اور اسی جرم میں پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والی خاتون کو غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، یعنی ایک طاقتور مرد ڈکٹیٹر کو قائداعظم کی بہن کے خلاف غداری جیسے الزام کا سہارا لینا پڑا لیکن فاطمہ جناح نے ان سازشوں کا ڈٹ کر سامنا کیا، وہ ایک عورت تھیں اور عورت کی طرح ہی بات کرتی تھیں۔ معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی مثال بھی ہمارے سامنے ہیں، عاصمہ جہانگیر ایک خاتون ہیں، بہادر ہیں، بے باک اور بے خوف گفتگو کرتی ہیں، انہوں نے بھی آمریتوں کا سامنا کیا اور اب بھی تمام تر الزامات کے باوجود کھل کر بات کرتی ہیں، ان سے اختلاف رکھنے والے ان کے موقف کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور جب کچھ نہیں کرپاتے تو ان پر الزام لگاتے ہیں ،عاصمہ جہانگیر ساری زندگی ڈٹی رہیں اور اب بھی ڈٹی ہوئی ہیں، وہ بھی ایک عورت ہیں اور عورت کی طرح بات کرتی ہیں۔

تازہ ترین