کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ حکومتی وزراء کو فوج کے حوالے سے کھلے عام بیانات نہیں دینے چاہئیں، سعد رفیق کو کچھ شرارتوں کی اطلاعات ہیں تو اس کیلئے کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی کا فورم موجود ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کا سعد رفیق کے بیان پر ردعمل مناسب تھا،خواجہ سعد رفیق کا سیاسی بیان ہے جس میں کوئی توہین آمیز بات نظر نہیں آتی،پیپلز پارٹی عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کے اندر عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد کرے گی، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرسکتی ہے، سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بھی بن سکتا ہے،معلق پارلیمنٹ بنی تو آصف زرداری اس سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں،سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی 2017ء کی سب سے بڑی خبر تھی۔ان خیالات کا اظہار امتیاز عالم، مظہر عباس، شہزاد چوہدری، بابر ستار، ارشاد بھٹی اور افتخار احمد نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال جن پر آرمی چیف کا حکم ماننا لازم ہے ان کو چھوٹی چھوٹی شرارتیں نہیں کرنی چاہئیں، سعد رفیق کا بیان، سعد رفیق کا بیان انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر ، کیا وفاقی وزیرریلوے کو یہ بیان دینا چاہئے تھا؟ کا جواب دیتے ہوئے امتیا ز عالم نے کہا کہ انتظامیہ کے مختلف بازو ؤں کی کھلے عام بیان دینے کی روایت درست نہیں ہے، ان کی وجہ سے تناؤ بڑھتا اور سول ملٹری تعلقات و سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے افواہیں پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں،حکومتی وزراء کو فوج کے حوالے سے کھلے عام بیانات نہیں دینے چاہئیں، اگر سعد رفیق کو کچھ شرارتوں کی اطلاعات ہیں تو اس کیلئے کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی کا فورم موجود ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر کا سعد رفیق کے بیان پر ردعمل مناسب تھا۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سعد رفیق کا بیان درست نہیں ہے، وزراء کو اپنے سوالات متعلقہ فورمز پر اٹھانے چاہئیں، سعد رفیق میں اتنی جرأت کیوں نہیں تھی کہ یہ سوال سینیٹ میں آرمی چیف کے سامنے کرتے۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ ہماری جمہوریت کی صورتحال یہ ہے کہ آرمی چیف سینیٹ میں آئیں تو اس پر خوشیاں منائی جاتی ہیں،سعد رفیق نے ایک چھوٹی سی بات کردی تو اس پر اعتراض کیا جارہا ہے لیکن جو سول حکومت کے ساتھ ڈان لیکس اور دھرنوں میں ہوا اس کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا، ہمارے ملک میں سول ملٹری عدم توازن ہے جس میں جھکاؤ فوج کی طرف ہے، اس صورتحال میں اگر کوئی اشارتاً بات کردیتا ہے کہ فوج میں بیٹھ کر کچھ لوگ شرارتیں کررہے ہیں تو اس سے کون سی چین آف کمانڈ پر اثر پڑا ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر کو اس پر وضاحت دینے کی ضرورت نہیں تھی، خواجہ سعد رفیق کا سیاسی بیان ہے جس میں کوئی توہین آمیز بات نظر نہیں آتی۔ افتخار احمد نے کہا کہ سعد رفیق کے بیان سے اختلاف کرتا ہوں، سعد رفیق آرمی چیف کی باتوں سے انکار نہیں کرسکتا تھا لیکن اپنے ووٹرز کو بتانے کیلئے اس ڈھنگ سے بات کی کہ آرمی چیف تو اچھے آدمی ہیں لیکن فوج کے اندر کچھ ایسے لوگ ہیں جو شرارتیں کرتے ہیں، حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں ایسے میں ورکرز کو ساتھ رکھنے کیلئے ایسے بیانات دینا غلط ہیں،ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق اینڈ کمپنی کی طرف سے جو بڑی بڑی شرارتیں ہورہی ہیں ان کا بھی جائزہ لینا چاہئے، سعد رفیق کے پاس کسی شرارت کے ثبوت ہیں تو وزیراعظم کو اس پر فوجی قیادت سے بات کرنی چاہئے تھی۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ سعد رفیق نے بیان بطور وزیر نہیں بلکہ سیاسی کارکن کے دیا ہے، سعد رفیق کی بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ وہ پاکستانی اداروں کو بدنام اور تفریق کو بڑھارہا ہے۔ دوسرے سوال آئندہ عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے، پیپلز پارٹی کا اعلان، کیا پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنا چاہتی ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افتخار احمد نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے ساتھ چلناچاہیں گے۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک زوال پذیر پارٹی ہے،اس وقت کوئی جماعت بھی پیپلز پارٹی سے اتحاد نہیں چاہتی ہے، انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کا کسی جماعت سے اتحاد ہوسکتا ہے لیکن ابھی کوئی پارٹی سیاسی خودکشی نہیں کرنا چاہے گی۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ن لیگ ایک دوسرے سے کوئی اتحاد نہیں کریں گی۔