آج سے تین دن قبل پچیس دسمبر کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی 142ویں سالگرہ ملی جوش و جذبے سے منائی گئی جبکہ دو دن بعدتیس دسمبر کو انکی سیاسی جماعت مسلم لیگ کا 111واں یومِ تاسیس منایا جائے گا، ہندومسلم اتحاد کے سفیر کہلائے جانیوالے قائداعظم کے جمہوری روئیے، اصول پسندی اور بلندکردار ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے کہ نیک نیتی سے کی جانے والی جدوجہد کو خداوندتعالیٰ کامیابی سے ہمکنار کیا کرتا ہے، مجھے فخر ہے کہ میں عظیم رہنماء قائداعظم کی جماعت مسلم لیگ کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والا ہندو ممبر قومی اسمبلی ہوں اور قائداعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک میں مذہبی ہم آہنگی، برداشت، رواداری پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کررہا ہوں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر اسٹینلے اپنی کتاب "جناح آف پا کستان"میں تحریر کرتے ہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔اسی طرح دنیا کے مختلف اکابرین اور لیڈران کرام نے اپنے اپنے انداز میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کیاہے، تحریکِ آزادی کے نمایاں ہندو رہنماء مہاتما گاندھی جی کا کہنا تھا کہ جناح ایک پرخلوص اچھے آدمی ہیں، وہ میرے پرانے ساتھی ہیں اور میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں۔ انگریز سامراج کے غاصبانہ راج کے خلاف تحریکِ آزادی میں ہندو مسلمان سمیت تمام مقامی باشندوں کی قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے، قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انکی جدوجہد کا محور برصغیر کے بسنے والے باشندوں کی فلاح و بہبود تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ برصغیر کے باشندے اپنی توانائیاں ایک دوسرے کیخلاف ضائع کرکے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں، انہیں ہندومسلم اتحاد کا سفیر قرار دیئے جانے کا مقصد بھی انکی مثبت کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھاجو انہوں نے آج سے ٹھیک ایک سو ایک سال قبل 4دسمبر 1916 ?ء مسلم لیگ اور کانگرس کے مابین لکھنو پیکٹ کامیاب کرانے کیلئے کیں ،قائداعظم اس زمانے میں دونوں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس کے رکن تھے اوراس بات کے خواہاں تھے کہ ہندو اور مسلمان لیڈران مشترکہ طور پر انگریز سرکار پر مقامی باشندوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے دباؤ ڈالیں۔ قائداعظم کے طویل سیاسی کیریئر میں مہاتما گاندھی جی، مسز سروجنی نائیڈو، سریندرانتھ بانیرجیا، دادابھائی ناؤروجی، گوکھالے سمیت متعدد ہندو سیاستدانوں کا بھی کلیدی کردار رہا، ناؤروجی کو جب کانگریس نے اپنا صدر منتخب کیا تو انہوں نے محمد علی جناح ہی کو اپنا اعزازی پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کیا۔جب کانگریس پر شدت پسندعناصر حاوی ہوگئے تو مسلم لیگ کیلئے تقسیمِ برصغیر کے سوا اورکوئی باعزت حل نہیں رہ گیاتھا، خود قائداعظم کا اپنا کہنا تھا کہ کانگریس کے متعصبانہ رویے نے الگ وطن کی راہ ہموار کی۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے اپنی وفات سے ایک برس قبل بستر علالت سے قائداعظم کے نام خط میں ان سے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کی اپیل کی تھی۔ اس سے قبل کانگریس کی نہرو رپورٹ منظرعام پر آچکی تھی جس میں مسلمان اقلیت کے حقوق نظرانداز کردیئے گئے تھے،اس موقع پر بھی قائداعظم نے ہندو مسلم ہم آہنگی کو پروان چڑھاتے ہوئے انگریز سامراج کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہندوستان کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا۔ نہرو رپورٹ کے جواب میں قائداعظم نے چودہ نکات پیش کئے تو کانگریس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے پر آمادہ نہیں ہوئی، یہی وہ عوامل تھے جن کو بنیاد بناتے ہوئے 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی جلسہ لاہور میں منعقد ہوا جس کی منظور کردہ قراردادِ لاہور کو کانگریس کے حامی اخبارات نے قراردادِ پاکستان قرار دیا۔ اب قائداعظم کی زیرقیادت مسلم لیگ کی جدوجہد کا مقصد ایسی آزاد مملکت کا قیام قرار پایا جس میں بسنے والوں کو اکثریت یا اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر یکساں سماجی حقوق کی فراہمی ممکن بنائی جاسکی۔آج بطور پاکستانی ہمارے لئے یہ امر قابلِ تقلید ہونا چاہئے کہ قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کیلئے کسی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ ادب و احترام کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تحریک پاکستان کے عظیم رہنماؤں میں اعلیٰ تعلیمیافتہ ہندو شہری جوگندرناتھ منڈل کا نام بھی شامل ہے جو قائداعظم کے آخری سانسوں تک انکے شانہ بشانہ پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے سرگرم رہے، جوگندرناتھ منڈل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے متحدہ ہندوستان میں وزیر بھی نامزد ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے ملک کا پہلا وزیرقانون مقرر کیا، جوگندرناتھ منڈل سمیت بے شمار ہندو باشندے قائداعظم کے مطالبہ پاکستان کے حامی تھے۔ قائداعظم نے گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں یہ واضح کردیا تھا کہ نوزائیدہ مملکت میں تمام شہریوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے مندر، مسجد یا کوئی اور عبادتگاہ جانے کی آزادی ہوگی۔ قائداعظم کی اپیل پر پاکستان میں صدیوں سے بسنے والے ہزاروں ہندو خاندانوں نے ہجرت کا ارادہ ترک کرکے پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنا لیا۔قائداعظم کے مطابق تقسیم برصغیر کا مقصد کوئی دو دشمن ممالک تشکیل دینا نہیں تھا بلکہ وہ بطور جمہوریت پسند لیڈر اقلیت کو اکثریت کے استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک ایسے قطعہ ارض کا حصول چاہتے تھے جو دنیا کے نقشے پر ایک جدید، ترقی یافتہ اور رول ماڈل ریاست کے طور پر ابھرسکے، ایسی مثالی ریاست جو اصولوں کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں تشکیل دے، اب یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم پاکستان کی ہندو کمیونٹی سمیت دیگرمحب وطن اقلیتوں کواحساسِ عدم تحفظ کا شکار نہ ہونے دیں۔قائداعظم نوجوانوں کو تحریک پاکستان کا ہراول دستہ قرار دیا کرتے تھے، آج ہم حکومت پاکستان کے سرکاری لوگو میں ایمان، اتحاد ، نظم تحریر دیکھتے ہیں تو اسکے پس منظر میں بھی قائداعظم کا نوجوانوں کے نام درس ہے، قائداعظم نے پہلی مرتبہ یہ الفاظ دسمبر1941ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ناگپور میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کہے، اپنی تقریر میں انہوں نے طلباء کو اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے ایمان ، اتحاد اور نظم کی تلقین کی، اس موقع پر قائداعظم نے نوجوانوں کو تحریک پاکستان کی کامیابی کیلئے حوصلہ بھی دیا۔ میں نے بھی رواں برس یومِ قائداعظم نوجوانوں کے نام کرنے کیلئے دو اہم تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے قائدکا پیغام نئی نسل کے سامنے رکھا۔میں سمجھتا ہوں کہ آئینی طور پر یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ غیرمسلم اقلیتوں کو انکے مذاہب کے بارے میں آگاہی فراہم کرے لیکن پاکستان ہندو کونسل اپنے وسائل کے بل بوتے پر اسکول جانیوالے ہندو بچوں کیلئے باقاعدگی سے دھارمک کوئز مقابلوں کا انعقاد کرارہی ہے،میں نے اس سال یوم قائداعظم کی مناسبت سے سوامی نارائین مندر کراچی میں منعقدہ تقریب تقسیم انعامات کے موقع پربچوں کو تلقین کی کہ و ہ اپنی تمام تر تعلیمی صلاحیتیں پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے وقف کردیں، قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک پرامن معاشرے کا قیام یقینی بنانا تمام پاکستانیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اسی طرح یوتھ پارلیمنٹ کے زیراہتمام جدید پاکستان کانفرنس میں شریک نوجوانوں سے خطاب میں کہا کہ بانی پاکستان کی تعلیمات کو حقیقی انداز میں نافذ کرنے کیلئے ملک بھر کے تمام شہریوں کو آئین کے تحت مساوی سماجی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ جیونیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اینکر حامد میر سے قائد اعظم کی مذہبی رواداری پر بات کرتے ہوئے نشاندہی بھی کی کہ ہمیں زبانی کلامی جمع خرچ کرنے کی بجائے بانی پاکستان کے وژن کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے، میرے خیال میں قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکو تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم کا لازمی حصہ قرار دیناہے۔